ایک وزیر صاحب نے کہا ہے ''سابق حکومت ہمارے (یعنی موجودہ حکومت کے) راستے میں بارودی سرنگیں بچھا کر گئی ہے۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کی حکومت نہیں آنی اور ان کے غلط معاہدوں اور منصوبوں کا خمیازہ آنے والی حکومت بھگتے گی۔ موجودہ حکومت نے ان کی غلط پالیسیوں کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا۔ اربوں روپے کی سبسڈی دی لیکن عوام پر بوجھ نہیں ڈالا۔ ان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ آنے والے سالوں میں بھی بھگتنا پڑے گا۔ جب ان سے سوال کرتے ہیں تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ ملک کو گروی رکھ کر چلے گئے۔ عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے جلسے فلاپ ہو چکے۔ یہ حکومت کی کارکردگی اور اصلاحات سے خوفزدہ ہیں‘‘۔
ان وزیر صاحب کا سیاسی بائیو ڈیٹا ملاحظہ فرمائیے: 2002ء میں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن جیتے۔ شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر رہے۔ 2008ء کے انتخابات میں قاف لیگ ہی کی طرف سے کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ موسم بدلا۔ پرندوں نے ہجرت کی تو آپ نے بھی 2012ء میں مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کر لی۔ 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نون کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیا مگر منتخب نہ ہو سکے؛ تاہم 2014ء کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ہی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو گئے اور مالیات، ریونیو اور اقتصادی امور کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین رہے۔
حیرت ہے کہ بھرے ایوان میں کوئی رجلِ رشید نہ تھا جو یہ تمام الزامات اُنہی پر لوٹاتا اور انہیں بتاتا کہ جناب! سابق حکومت آپ کی تھی۔ آپ ہی نے بارودی سرنگیں بچھائیں! آپ ہی کی پالیسیاں اور منصوبے غلط تھے۔ آپ ہی نے ملک کو گروی رکھا۔ آپ ہی کو عوام نے مسترد کیا۔ آپ ہی کے جلسے فلاپ ہوئے۔
چند برس یا چند مہینے گزریں گے تو اس ایکشن کا ری پلے ایک بار پھر ہو گا۔ تحریک انصاف کی حکومت اُس وقت اپوزیشن میں ہو گی۔ گمان غالب یہ ہے کہ یہ صاحب، نئی حکومت میں بھی وزیر ہوں گے اور ایوان میں کھڑے ہو کر، تحریک انصاف کو مطعون کر رہے ہوں گے۔ تب بھی انہیں ٹوکنے کی جرأت کوئی نہیں کرے گا۔
کیا پوری قوم میں صرف ایک وزیر ہی ایسا ہے جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے۔ جو موقع پرست ہے؟ جو ابن الوقت ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! ہم میں سے بھاری اکثریت ایسی ہی ہے۔ جبھی تو ہم ایسے فصلی بٹیروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ منظر لا تعداد بار دیکھا گیا ہے۔ گھوڑوں کی تجارت میں ہمیں کبھی خسارہ نہیں ہوا۔ جب بھی موسم بدلتا ہے‘ پرندے ہجرت کرتے ہیں اور اچھے خاصی تعداد میں ہجرت کرتے ہیں۔ اب تو کسی کو تعجب تک نہیں ہوتا۔ بقول عباس تابش:
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلتے رہتے ہیں
یہ ہمارے مجموعی اخلاق کا صرف ایک نمونہ ہے۔ یہ اس پہاڑ جتنے عظیم الشان آئس برگ کا صرف اوپر کا حصہ ہے جو نظر آ رہا ہے، سارا تو پانی میں چھپا ہوا ہے۔ اگر اس کالم نگار کو صرف ایک مختصر جملے میں اپنی قوم کا کردار بیان کرنا پڑے تو یہ کہے گا کہ ہم ایک بے اصول قوم ہیں۔ اصول کیا ہوتا ہے؟ ہر معاملے میں ایک مرکزی نکتہ ہوتا ہے جس کے گرد سارا معاملہ گھومتا ہے۔ اس مرکزی نکتے کو اصول کہتے ہیں۔ ہم جب بھی کسی معاملے میں پڑتے ہیں تو سب سے پہلے اس مرکزی نکتے کو قتل کرتے ہیں‘ جس کا نام اصول ہے۔ اصول کے قتل کی مثالوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ وکیلوں نے ہسپتال پر حملہ کیا اور مریض ہلاک ہوئے تو اصول کیا تھا؟ جان کے بدلے جان! ماڈل ٹاؤن میں چودہ قتل ہوئے تو اصول کیا تھا جان کے بدلے جان! شاہ زیب خان کراچی میں مارا گیا تو اصول کیا تھا‘ جان کے بدلے جان! سولہ سالہ زین لاہور میں گولی کا نشانہ بنا تو اصول کیا تھا؟ جان کے بدلے جان! نقیب اللہ کو قتل کیا گیا تو اصول کیا تھا؟ جان کے بدلے جان! مگر کسی ایک معاملے میں بھی اس اصول کی پاس داری نہیں کی گئی۔ یہ تو مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ اس ملک میں ہزاروں لاکھوں قتل ہوئے جن میں 'جان کے بدلے جان‘ کا اصول پاؤں کے نیچے روندا گیا۔ ایسے قتل ہوتے رہیں گے۔ تازہ ترین واقعات میں بھی یہی ہو گا۔ بے قصور نہتے ہزارہ مزدوروں کے قاتل ہوں یا نوجوان اسامہ ستی کے طاقتور قاتل، جان کے بدلے جان کا اصول نہیں نظر آئے گا۔
ملازمت دینے کا اصول کیا ہے؟ میرٹ! امانتیں ان کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں‘ مگر یہ اصول ہمیشہ منہ کی کھاتا ہے۔ حال ہی میں، اس عہدِ انصاف میں، سول ایسوسی ایشن کا سربراہ ایک ایسے شخص کو لگایا گیا ہے جس نے اشتہار کے نتیجہ میں درخواست ہی نہیں دی تھی۔ جن امیدواروں کے انٹرویو لیے گئے وہ خائب و خاسر بیٹھے ہیں! ووٹ دینے کا اصول کیا ہے؟ اہلیت! چلیے جو ووٹر کسی پارٹی کے رکن ہیں ان کی تو بظاہر مجبوری ہے‘ مگر ہم، آپ، جو کسی پارٹی سے وابستہ نہیں، کیا ہم اصول کی نگہداشت کرتے ہیں؟ رشتے داری، برادری، دوستی، ذاتی روابط، انہی بنیادوں پر ووٹ دیتے ہیں۔ تجارت کا اصول کیا ہے؟ پورا ماپ تول، شے کا نقص نہ چھپانا۔ تاجر کو تو چھوڑیے، کیا ہم گاہک کبھی کہتے ہیں کہ یہ تول میں زیادہ ہو گیا ہے، کم کیجیے؟ استعمال شدہ شے واپس یا تبدیل کرنے پر بضد ہوتے ہیں۔ یہ جھوٹ تو ہم گاہک عام بولتے ہیں کہ ''آپ کے پرانے گاہک ہیں‘‘۔ جبھی تو ایک دکاندار نے کہا تھا کہ خدا کا خوف کیجیے، یہ تو دکان ہی ایک ہفتہ پہلے کھلی ہے۔ ہم تو دوسرے ملکوں میں بھی مشہور ہیں۔ سنا ہے امریکہ میں جس کے ہاں مہمان آ جائیں وہ وال مارٹ سے نئے گدے لے آتا ہے اور دوسرے دن واپس کر کے دام کھرے کر لیتا ہے۔ میڈیکل سہولیات اور سوشل سکیورٹی سسٹم (گزارہ الاؤنس) کا پوری بد دیانتی، ڈھٹائی اور دروغ گوئی سے غلط استعمال کرتے ہیں۔ کونسل کے خیراتی گھر لیے جاتے ہیں۔ ایسے ایسے چشم دید واقعات ہیں کہ سنائے جائیں تو سننے والوں کے سر شرم سے جھک جائیں۔ ہم میں سے بے شمار لوگ ایسے واقعات کے گواہ ہیں۔
نماز ہی کو دیکھ لیجیے! نماز کا اصول کیا ہے؟ سپردگی اور مکمل اطاعت! ہم میں سے پچانوے فی صد کو تو معنی ہی نہیں آتے، سپردگی خاک ہو گی! نماز ایسی پڑھتے ہیں کہ خشوع کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہی حال باقی عبادات کا ہے۔ احرام سے لے کر طواف تک سب کچھ فیس بک پر لانے کی دھُن ہو اور دوران طواف سیلفیوں پر زور ہو تو کون سا حج اور کہاں کا عمرہ؟ اب عبادت کا اصول اخلاص نہیں، ریا کاری ہے! ہم تو وہ مجہول ہیں کہ مسجد میں با وضو بیٹھ کر ذہن میں مسلسل غیبت کرتے ہیں کہ فلاں نے ہاتھ کیوں نہیں باندھے اور فلاں نے کیوں باندھ رکھے ہیں اور فلاں کا سر ننگا کیوں ہے؟ نہیں فکر تو اپنی عاقبت کی نہیں! ٹھیکے داری ہم پر ختم ہے۔ نہیں پڑتی تو اپنے آپ پر نظر نہیں پڑتی!
تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر وزیر، اُسی گزشتہ حکومت کی مذمت کر رہا ہے جس میں وہ خود شامل تھا! وزیر ہمارا ہی بھائی ہے۔ ہم میں سے ہی ہے! شکوہ تو تب کریں جب ہم اس سے بہتر ہوں اور اصولوں کی پاسداری کرنے والے ہوں ! ساقی فاروقی یاد آ گئے:
میں کیا بھلا تھا یہ دنیا اگر کمینی تھی
درِ کمینگی پر چوبدار میں بھی تھا