پاسپورٹ کی رینکنگ سے لے کر بد عنوانی کی فہرست میں ایک سو چوبیسواں نمبر حاصل کرنے تک، پاکستان اس وقت تنزّل کی جس دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے، آپ کے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ کرپشن؟ بُری گورننس؟ ناخواندگی؟ کم فی کس آمدنی؟ شرحِ نمو میں کمی؟ ٹیکس چوری؟ گھٹتی برآمدات؟ یا کچھ اور؟آخری تجزیے میں کوئی ایک یا دو وجوہ نہیں، بہت سی وجوہ کو تسلیم کرنا پڑتا ہے‘ لیکن اگر آپ کو ایک ہی وجہ بتانے کے لیے کہا جائے تو آپ کیا کہیں گے؟ میں نے تو جواب سوچ لیا ہے! اور وہ ہے لیڈرشپ کا آسمان سے اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ تک کا سفر! یہ سفر قائد اعظم سے شروع ہوتا ہے جو دیانت میں آسمان پر تھے۔ پھر نواب لیاقت علی خان کو دیکھیے۔ یہ حضرات اقتدار میں آنے سے پہلے بر صغیر کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے‘ مگر حکومت میں آنے کے بعد ان کی امارت کا گراف نیچے گر گیا۔ جس محمد علی جناح نے 1916ء میں ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا محل خریدا تھا اور پھر اپنی محنت کی حلال کمائی سے، ایک شہری کی حیثیت سے، ایسی کئی جائیدادیں خریدیں، وہ پاکستان کا حکمران بنا تو مہنگی جُرابیں دکان دار کو واپس کرا دیں۔ کرنال کے جاگیردار، لیاقت علی خان شہید ہوئے تو ایک گز زمین ان کے نام تھی نہ ہی تین مرلے کا مکان! پھر ہم اس مقام تک پہنچے جب ہمارے لیڈر اقتدار میں آنے سے پہلے بھوکے ننگے تھے اور حکمران بننے کے بعد کروڑ پتی پھر ارب پتی اور پھر کھرب پتی ہو گئے! پاتال کا یہ سفر صرف مالی اعتبار سے نہیں، فکری حوالے سے بھی تباہ کُن رہا۔ جن قائد اعظم پر بدترین دشمن بھی دروغ گوئی، عہد شکنی اور دوست نوازی کا الزام نہ لگا سکے، بعد میں اُنہی کے جانشین اِن الزامات کی بارش میں سر سے لے کر پاؤں تک بھیگ گئے۔ یوں کہ دامن نچوڑیں تو جانور بھی اس پانی سے دور بھاگیں! ڈاکٹر سعد خان کی حالیہ تصنیف ''محمد علی جناح-دولت، جائیداد، وصیت‘‘ پڑھ کر لیڈر شپ کے تنزل پر حیرت ہوتی ہے اور افسوس!ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر واپس آنے کے بعد ہم لوگوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن تشکیل دی۔ سلطان سکندر خان اس ایسوسی ایشن کے سینئر رکن ہیں اور ہمارے پرانے دوست! وہ سائنس دان ہیں۔ پاکستان کے حساس اداروں میں اعلیٰ مناصب پر رہ کر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس چشم کُشا تصنیف کے مصنف ڈاکٹر سعد، انہی سلطان سکندر کے فرزند ہیں! یہ کتاب گہری اور سنجیدہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔ سعد، جو سول سروس کے رکن ہیں، اس سے پہلے ایک کتاب ''قائدِ اعظم کی نجی زندگی‘‘کے عنوان سے لکھ چکے ہیں؛ تاہم ان کی نئی تصنیف زیادہ وقیع ہے۔ بمبئی، دہلی، کراچی اور لاہور میں قائد کی ذاتی رہائش گاہوں کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ان کی زرعی اور کمرشل جائیداد، بینک اکاؤنٹس، نقدی، صنعتی سرمایہ کاری، حصص میں سرمایہ کاری، ٹیکس اور آڈٹ کے حقائق، جائیداد سے پیدا ہونے والے سفارتی تنازعے، خاندانی مقدمات اور قائد کی وصیت، ان تمام پہلوئوں پر مصنف نے قابلِ قدر اور دلچسپ تفصیلات بیان کی ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ قائد اعظم کو قسّام ازل نے جو دماغ عطا کیا تھا، وہ صرف سیاست، وکالت اور قوتِ تقریر و تحریر ہی میں قابل رشک کمالات نہیں دکھاتا تھا بلکہ سرمایہ کاری اور مالی امور میں بھی بہترین فیصلے کرتا تھا۔ قائد کی فنانشل مینجمنٹ (Financial Management) انتہائی بلند درجے کی تھی۔ انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ اگر قابلیت موجود ہو تو سو فی صد دیانت داری اور کمال شفافیت کے ساتھ بھی ثروت مند ہوا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کی جو کلاس بعد میں اس ملک پر مسلط ہوئی، کاش وہ بھی اس حقیقت کو سمجھ پاتی!
بمبئی والا مکان، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، قائد نے شادی پر اپنی اہلیہ کو تحفے میں دیا۔ بیگم صاحبہ اس کی تعمیرِ نو چاہتی تھیں۔ اس اثنا میں ان کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں قائد نے اسے منہدم کرا کر نئے نقشے کے ساتھ بنوایا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ تعمیراتی کام اور تزئین و آرائش پر سوا دو لاکھ روپے لگے۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ یہاں ملازمین کی تعداد بائیس تھی۔ یاد رہے کہ ان ملازمین کی تنخواہ کسی پنجاب گورنمنٹ، کسی سندھ گورنمنٹ یا کسی وفاقی حکومت کے خزانے سے نہیں آتی تھی۔ سرکاری منصب تو تھا ہی نہیں۔ تقسیم سے پہلے، جناح نہرو مذاکرات اسی بنگلے میں ہوئے۔ دہلی والا مکان قائد نے 1938ء میں خریدا۔ دہلی دارالحکومت تھا۔ یہاں انہیں اکثر آنا پڑتا تھا اور ہوٹل میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ اسی لیے انہیں ذاتی رہائش گاہ خریدنے کا خیال آیا۔ تقسیم سے پہلے قائد نے یہ مکان اپنے قریبی دوست راما کرشنا ڈالمیا کو فروخت کر دیا۔ دوستی کے دعوے کے باوجود ڈالمیا نے اس مکان کو گنگا کے پانی سے دھویا کیونکہ پچھلے مکین، قائد اعظم اور ان کی بہن، مسلمان تھے۔ مسلم لیگ کا پرچم تو ڈالمیا نے اتارنا ہی تھا سو اتار دیا‘ مگر نیا پرچم جو لگایا وہ ''گائے بچاؤ تحریک‘‘کا تھا۔ یہ مکان گاؤ ماتا تحریک کا مرکز قرار پایا! تقسیم کے چار سال بعد اس مکان کو ولندیزی حکومت نےخرید لیا۔ اب یہ ولندیزی سفیر کی قیام گاہ ہے۔ کراچی والا مکان قائد نے 1943ء میں خریدا۔ اُس وقت اس کی قیمت ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے تھی۔
اب یہاں جناح عجائب گھر ہے جہاں قائد کی اشیا کو محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ عوام کے لیے کھلا رہتا ہے۔ جس سال قائد نے کراچی میں گھر خریدا اسی سال لاہور میں بھی ایکوسیع و عریض مکان حاصل کیا۔ قیمتِ خرید ایک لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپے تھی۔ بعد میں یہ مکان پاکستان آرمی نے خرید لیا۔ اب یہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہے۔
ڈاکٹر سعد نے اس مفروضے کو شد و مد سے رد کیا ہے کہ بطور گورنر جنرل پاکستان، قائد ایک روپے ماہوار محض علامتی تنخواہ لیتے تھے۔ آخری وائسرائے کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار نو سو روپے تھی۔ پاکستان کے گورنر جنرل کی تنخواہ، اس سے بہت کم، دس ہزار چار سو سولہ روپے دس آنے مقرر ہوئی۔ اُس وقت کے قانون کی رُو سے چھ ہزار ایک سو بارہ روپے ٹیکس کٹ جاتا تھا۔ یوں صرف چار ہزار تین سو چار روپے وصول ہوتے تھے۔ اپنی تمام جائیدادوں، اثاثہ جات اور آمدنی پر قائد نے ہمیشہ باقاعدگی سے قوانین کے عین مطابق ٹیکس ادا کیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بہن بھی ایسا ہی کرتی رہیں۔ کسی قسم کی بے قاعدگی یا مالی معاملات میں غیر شفافیت قائد اعظم کے مزاج سے مناسبت ہی نہیں رکھتی تھی۔ بد ترین دشمن بھی اس ضمن میں کوئی الزام نہ لگا سکے۔ جہاں تک ان کی وصیت کا تعلق ہے، انہوں نے انجمن اسلام سکول بمبئی اور عریبک کالج نئی دہلی کے لیے پچیس پچیس ہزار روپے اور یونیورسٹی آف بمبئی کے لیے پچاس ہزار روپے چھوڑے۔ ان تین اداروں اور اپنے رشتہ داروں کو ان کے حصے دینے کے بعد جو جائیداد اور دولت بچتی تھی وہ مندرجہ ذیل تعلیمی اداروں کے نام کر دی۔ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی، اسلامیہ کالج پشاور اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ! یہ ادائیگیاں کیسے ہوئیں اور کتنی، اس کی تفصیل کتاب میں موجود ہے!
یہ ایک آئینہ ہے جس میں ماضی اور حال دونوں نظر آرہے ہیں! کیا کچھ کہنے کی ضرورت باقی ہے؟ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچے ہیں! کہاں دیانت ہی دیانت اور سچ ہی سچ ! اور کہاں خیانت ہی خیانت اور جھوٹ ہی جھوٹ! تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر آسمان سے پتھر برسنے لگ جائیں!