ہر سو سال بعد …(2)

1657ء میں مغلوں کی ہولناک جنگِ تخت نشینی شروع ہوئی۔دو سال تک یہ خونریزی جاری رہی جس نے ہندوستان کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا۔ ٹھیک ایک سو سال بعدایک اور افتاد آ پڑی۔لارڈ کلائیو اور سراج الدولہ کے مابین لڑائی ہوئی جسے ہم سب جنگِ پلاسی کے نام سے جانتے ہیں۔میر جعفر نے غداری کی۔اس کا نام آج بھی ایک گالی ہے۔ اقبال کا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے ؎
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملّت‘ ننگِ دیں‘ ننگِ وطن
میر جعفر اور اس کے جانشینوں کا جو حشر ہوا تاریخ کے صفحوں پر موجود ہے۔اس لڑائی کی تفصیلات میں جائے بغیر ہم اس کے خوفناک نتائج کا ذکر کریں گے۔پلاسی نے لوٹ مار کا ایک دروازہ کھولا جس میں پہلے بنگال کو اور پھر پورے برصغیر کو انگریزوں نے بھنبھوڑ ڈالا اور ہڈیاں تک چبا گئے۔اگلے آٹھ سالوں میں میر جعفر اور اس کی جانشین کٹھ پتلیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ( اُس وقت کے ) پچیس لاکھ پاؤنڈ دیے۔ کلائیو کی ذاتی دولت آج کے حساب سے اربوں تک پہنچ گئی مگر بد ترین نتیجہ پلاسی کی جنگ کا یہ نکلا کہ ایک تجارتی کمپنی عسکری اور سیاسی طاقت میں تبدیل ہو گئی۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے باقاعدہ حکمرانوں میں شامل ہو گئی۔ مستقبل کی اکھاڑ پچھاڑ میں اس نے کبھی ایک مقامی حکمران کا ساتھ دیا کبھی دوسرے کا۔ پلاسی کی فتح کے بعد انگریز جان گئے کہ اگر وہ ایک منظم فوج رکھیں تو ہندوستان کو براہ راست تسخیر کر لیں گے یا کٹھ پتلیوں کے ذریعے بالواسطہ حکومت کر سکیں گے۔ پلاسی کے بعد یہ معمول بن گیا کہ جو مقامی حکمران کمزور پڑتا وہ اپنے مقامی حریف کو زیر کرنے کے لیے کمپنی کی مدد مانگتا اور آخر کار خود بھی کمپنی کے جبڑوں میں آجاتا۔پلاسی کے بعد پورے ہندوستان کو معلوم ہو گیا کہ مغل بادشاہ اور دیگر نواب اور راجے کمپنی کی منظم فوج اور سازشوں کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے؛ چنانچہ سپاہی‘سول سرونٹ‘ بینک کار‘ آرٹسٹ‘ تاجر‘ معمار اور دیگر شعبوں کے ماہرین ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک طاقتور آجر کے طور پر دیکھنے لگے۔ ایک فقرے میں بات کہنی ہو تو یوں سمجھیے کہ پلاسی کے بعد انگریزوں کی خود اعتمادی میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا اور مقامی حکمران شکست خوردہ ذہنیت کا شکار ہو گئے۔
پلاسی کے بیالیس سال بعد کمپنی نے سلطان ٹیپو کو شکست دی۔ چار سال مزید گزرے تو کمپنی کا نمائندہ دہلی میں آموجود ہوا اور مغل بادشاہ شاہِ شطرنج میں تبدیل ہو گیا۔ رنجیت سنگھ پنجاب میں آخری رکاوٹ تھا۔1849ء میں پنجاب استعمار کے سامنے دم توڑ گیا۔اب ٹھہراؤ آچلا تھا۔کمپنی ایک نظام کے تحت حکمرانی کر رہی تھی مگرجیسے ہی جنگِ پلاسی کو سوسال ہوئے تو روایت کے مطابق ایک نیا عذاب آ گیا۔
185ء میں میرٹھ میں چنگاری بھڑکی اور چند سپاہیوں کی بغاوت سے جو معاملہ شروع ہوا وہ پورے شمالی اور وسطی ہند میں آگ بن کر پھیل گیا۔ حکمرانوں کی نظر میں یہ بغاوت تھی اور محکوم اسے جنگِ آزادی سمجھ کر لڑ رہے تھے‘ مگر انگریز ایک سنٹرل کمانڈ کے نیچے منظم تھے جبکہ ہندوستانی مجاہدین کئی گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ کوئی ترتیب تھی نہ تنظیم۔ مغل بادشاہ کمزور تھا اور ہمت اور جذبے سے محروم۔ انگریز جیت گئے۔ اس کے بعد جو کچھ اہلِ ہندوستان کے ساتھ ہوااور جس طرح انتقام لیا گیا اس کی مثال شاید ہی ملے۔ مسلمان خاص طور پر نشانہ بنے۔ ہر درخت صلیب بن گیا۔ گھروں‘ حویلیوں‘ محلات بلکہ پورے پورے محلوں کو کھود کر ان پر ہل چلادیا گیا۔ کچھ کو توپوں کے دہانوں کے ساتھ باندھ کر اڑایا گیا‘ بہت سے گولیوں کی نذر ہوئے۔ ہزاروں کو کالے پانی بھیج دیا گیا۔ اُمرا‘ شرفا اور عمائدین راتوں رات قلاش ہوگئے‘ جنہوں نے غداریاں کیں وہ نوازے گئے۔ انہیں جاگیریں دی گئیں‘مناصب عطا ہوئے۔ انکی موجودہ نسلیں آج بھی پاکستان کے طاقتور طبقات میں شمار ہوتی‘ اور ہر حکومت میں جگہ پاتی ہیں!
ناکام جنگ ِآزادی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر پڑا۔ اس کی دو وجوہ تھیں‘ ایک تو حکومت ان سے چھینی گئی تھی۔ یہ دشمنی کا ایک بڑا اور منطقی سبب تھا۔غاصب قوت کی ہر ممکن پلاننگ اور کوشش تھی کہ کسی طور بھی مسلمان منظم ہو پائیں نہ انگریزی تعلیم حاصل کریں نہ کسی اور شعبے میں آگے بڑھیں۔ اب وہ صرف نفرت اور حقارت کے مستحق سمجھے گئے۔ قدرتی طور پر‘ ان کے مقابلے میں ہندو ؤں کو ترجیح دی گئی۔ انہیں سہولیات زیادہ دی گئیں‘ ملازمتوں میں انہیں اولیت دی جاتی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ'' غدر‘‘ کا زیادہ الزام مسلمانوں پر لگا؛ چنانچہ انتقام کا نشانہ زیادہ انہی کو بنایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی نسلوں کو بھی یہ انتقام بھگتنا پڑا۔ حالی ''حیات ِجاوید ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ناکام جنگ ِآزادی کے بیس برس بعد حالت یہ تھی کہ پورے برصغیر میں ہندو گریجو ایٹ سات آٹھ سو تھے اور مسلمان گریجوایٹس کی تعداد مشکل سے بیس تھی۔
1857 ء کی اس مصیبت کا ایک منفی اثر مسلمانوں پر یہ ہوا کہ ان میں مایوسی اور دل شکستگی بڑھ گئی۔ وہ دروں بینی کا شکار ہو کر introvertہو گئے۔ منفی رد عمل ان پر حاوی ہو گیا۔وہ اپنی مسجدوں‘ مدرسوں اور خانقاہوں کے اندر بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان کے ذ ہنوں سے یہ بات نکل نہیں رہی تھی کہ وہ آٹھ سو سال تک یہاں کے حکمران رہے تھے۔ انہوں نے انگریزی زبان نہ سیکھنے کا تہیہ کر لیا۔ تاریخی اعتبار سے بھی مسلمانوں نے کبھی کسی غیر زبان کو نہیں سیکھا تھا۔ ہسپانیہ تھا یا شمالی افریقہ یا ہندوستان‘ وہ ہر جگہ اپنی زبان ساتھ لے کر گئے تھے۔ اب وہ کیوں انگریزی سیکھتے؟ دوسری طرف ہندو ‘مسلمان حکومتوں کی ملازمت میں رہ کر فارسی اور عربی سیکھتے رہے تھے اور بیرونی زبانیں سیکھنے کی انہیں پریکٹس اورمہارت حاصل تھی۔ ایک مثال سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے رویوں کا فرق جانچا جا سکتا ہے‘ کلکتہ میں جب انگریز حکومت نے سنسکرت کالج قائم کیا تو ہندوؤں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں سنسکرت کی نہیں انگریزی تعلیم کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس جب انگریزی تعلیم متعارف کرائی گئی تو کلکتہ کے مسلمانوں نے احتجاجی عرضی دی کہ حکومت کا ارادہ ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کا ہے۔بظاہر ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا۔ یہ سرسید احمد خان تھے جنہوں نے اس صورت حال کو بھانپا اور پھر تن من دھن سے اسے تبدیل کرنے پر کمر بستہ ہو گئے۔ سائنٹفک سوسائٹی تشکیل دی۔ اخبار نکالا۔ رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ پھر محمدن سول سروس فنڈ قائم کیا کہ جو لائق مسلمان مالی استطاعت نہیں رکھتے‘ لندن جا کر مقابلے کا امتحان دے سکیں جو اُس وقت صرف لندن میں دیا جا سکتا تھا۔ پھر گھر بار بیچ کر برطانیہ کا سفر کیا‘ انگریزوں کی معاشرت‘ اقتصاد اور تعلیم کا مطالعہ کیا۔ ولیم میور کی گستاخانہ کتاب کا جواب لکھ کر شانِ رسالت کا دفاع کیا اور سب سے بڑا کام یہ کیا کہ علیگڑھ کالج قائم کیا جو بعد میں مسلم یونیورسٹی بنی۔اس کالج کے قیام کے لیے انہیں کیا کیا جتن کرنے پڑے‘ یہ ایک الگ داستان ہے!
آپ نے دیکھا کہ 1657ء میں ایک مصیبت ٹوٹی۔ اس کے سوسال بعد جنگ پلاسی کی قیامت برپا ہوئی۔ مزید ایک سو سال گزرے تو1857ء میں ایک اور تباہی آئی۔ اگلی نشست میں دیکھیں گے کہ اس کے ایک سو سال بعد کیا ہوا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں