'' میری اپنی زمین ہے‘ میری اپنی گاڑی ہے اور (گاڑی چلانے والا بچہ) میرا اپنا بیٹا ہے... تنقید کرنے والے...اپنے کام سے کام رکھیں‘‘۔
پیپلز پارٹی یانون لیگ کا نہیں‘ یہ بیان ایک ایسی جماعت کی ایک اہم شخصیت کا ہے جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ کیا تھا اور دعویٰ بھی کہ وہ قانون کی رِٹ قائم کرے گی۔ اس جماعت کے سربراہ ‘ جو اَب حکومت کے بھی سربراہ ہیں‘ مغربی ممالک کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وہاں کس طرح بڑے سے بڑا شخص قانون کے سامنے دوسروں کے برابر ہے۔
نہیں معلوم اس عبرت ناک بیان پر اس پارٹی کا یا اربابِ اختیار کا کیا ردِ عمل ہو گا ؟ ہوگا بھی یا نہیں ؟ کوئی نوٹس لے گا بھی یا نہیں ؟ مگر اصل مسئلہ حکومت یا سیاسی جماعتوں کی سطح سے اوپر کا ہے ! بہت اوپر کا !کوئی لیڈر مغربی ملکوں میں رائج قانون پر عملداری کی لاکھ مثالیں دے‘ محض مثالیں دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ مسئلے کی جڑیں گہری ہیں۔ یہ جڑیں ہماری معاشرت ‘ ہمارے کلچر اور ہماری ذہنیت میں پیوست ہیں۔ہم نے ظاہر میں نظر آنے والی‘ مادی ‘ چیزیں تو مغرب سے لے لیں مگر جن قدروں نے ان کے معاشرے کو اس قابل بنایا کہ کروڑوں مسلمان ہجرت کر کے آج وہاں رہ رہے ہیں اور کروڑوں وہاں مقیم ہونے کے لیے کوشاں ہیں‘اُن قدروں سے ہم نہ صرف نا آشنا ہیں بلکہ صدیوں کی مسافت پر ہیں۔ یہاں ایک اور پہلو کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ قرونِ اُولیٰ میں ہمارے حکمران عدالتوں کے حضور پیش ہوتے تھے‘ غلام اور خلیفہ باری باری سواری استعمال کرتے تھے‘گورنروں کے اثاثے چیک کیے جاتے تھے‘ وغیرہ‘ مگر ان مثالوں سے جُڑی ہو ئی دو حقیقتیں ہم مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔صرف یہی نہیں‘ نظر انداز کرتے وقت بالکل معصوم بھی بن جاتے ہیں جیسے ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں۔ تجاہل عارفانہ کی یہ بدترین قسم ہے ! نفاق بھری قسم ! پہلی حقیقت یہ کہ قرونِ اولیٰ کی یہ مثالیں آج ‘ کم و بیش تمام مسلمان معاشروں میں عنقا ہیں ! دوسری حقیقت یہ کہ آج کی دنیا میں اگر ان کی کوئی عملی تصویر نظر آتی ہے تو مغربی ملکوں میں !'' مغربی‘‘ کا لفظ ہم لغوی معنی میں نہیں ‘ اصطلاحی معنی میں استعمال کر رہے ہیں‘ ورنہ جاپان ‘ ہانگ کانگ‘ سنگاپور‘ آسٹریلیا وغیرہ‘ جغرافیائی حوالے سے مغرب میں نہیں‘ مشرق میں واقع ہیں مگر قانون کی عملداری کے اعتبار سے وہ مغرب ہی کا حصہ ہیں۔
سترہویں صدی کا پہلا رُبع ہے۔ہمارے خطے کا بادشاہ وقت اپنی پسندیدہ بیگم کے ساتھ‘ ایک خوشگوار شام منانے کے لیے ''آؤٹنگ‘‘ کرنا چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ بیگم کے علاوہ اور کوئی بھی ساتھ نہ ہو ! وہ ملکہ کو بیل گاڑی میں بٹھاتا ہے۔ کوچوان کی نشست پر خود بیٹھتا ہے۔ اور سیر کے لیے نکل جاتا ہے۔برطانوی ایلچی ‘ سر طامس روئے بتاتا ہے کہ شاہی جوڑا جب اس رومانی آؤٹنگ سے واپس آیا تو شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔حکم ہوا کہ روشنیاں بجھا دی جائیں کہ ملکہ چھکڑے سے اترے تو کسی کی نگاہ نہ پڑے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اُس وقت اس طاقتور بادشاہ کو اگر ستر سی سی کی موٹر سائیکل ہی مل جاتی یا چھ سو ساٹھ سی سی کی پرانی کھٹارہ ٹائپ کارہی مل جاتی تو وہ اسے ہچکولے کھاتی بیل گاڑی پر ترجیح نہ دیتا؟ مصر کے فراعنہ سے لے کر ہندوستان کے شہنشاہوں تک ‘ اُس زمانے کے سب حکمران'' تختِ رواں ‘‘ کی سواری استعمال کرتے تھے۔ یہ ایک قسم کا چھوٹا سا گھر ہوتا تھا‘ یا ایک بہت بڑا کمرہ‘ جو لکڑی کے بہت بڑے تخت پر بنا ہوتا تھا۔ اس تخت کو درجنوں یا بیسیوں کہار اٹھا کر چلتے تھے۔ ایک عام شہری تختِ رواں کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مگر آج مزدور بھی شمالی علاقوں سے کراچی جانے کے لیے ‘ یا مشرق وسطیٰ کے سفرکے لیے ‘ تخت ِرواں استعمال کرتا ہے جسے عرف عام میں ہوائی جہاز کہتے ہیں۔ آج ایک معمولی آمدنی والا شخص بھی بیوی کے ساتھ موٹرسائیکل یا گاڑی پر بیٹھ کر باہر جا سکتا ہے۔ہم میں سے ہر شخص سہولیات اور مراعات کے اعتبار سے سترہویں یا اٹھارہویں صدی یا اس سے پہلے کے فرما ں رواؤں کی نسبت کئی گنا زیادہ خوش بخت ہے۔بجلی کے چراغ سے لے کر ایئر کنڈیشنر تک‘ گاڑی سے لے کر جہاز تک‘ ٹی وی سے لے کر فون اور انٹر نیٹ تک ‘ لائف سیونگ ادویات سے لے کر سرجری کے عجائبات تک‘ بلڈ ٹیسٹ سے لے کر الٹرا ساؤنڈ اور سکیننگ تک‘ آج ہم ہر سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ایک امریکی یا یورپین یا آسٹریلوی اُٹھا رہا ہے‘ مگر ہم میں اور ان میں دو بنیادی فرق ہیں‘ ایک یہ کہ یہ سہولتیں اہلِ مغرب نے خود ایجاد یا دریافت کیں جبکہ ہم نے ان سے خریدیں یا ان کے عطا کردہ نمونوں کی نقل کر کے بنائیں۔ دوسرے یہ کہ اہلِ مغرب نے جس طرح گزشتہ دو اڑھائی سو سال کے دوران مادّی اور ظاہری ترقی کی‘ اسی تناسب سے اس عرصہ کے دوران کچھ اخلاقی قدروں کو بھی پختہ کرتے رہے اور ساتھ ساتھ قانون کی عملداری کو بھی اپنے نظام کا جزوِ لازم بناتے رہے؛ چنانچہ آج ان کے معاشرے میں پابندیٔ وقت‘ صفائی‘ معاملات میں شفافیت‘ ایفائے عہد‘ تجارتی مراحل میں پاکبازی اور دروغ گوئی سے گریز واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قانون اور احتساب کی نظر میں کمزور اور طاقتور کی برابری کو بھی انہوں نے‘ کم و بیش‘ اسی طرح رائج کر دکھایا جس طرح مسلمانوں کے ہاں قرنِ اول میں موجود تھا۔ اس فرق کا ایک ہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکلا۔آج ہم مادی طور پر‘ ظا ہر کے لحاظ سے‘ ان کے نقال ہیں یا خریدار ! جبکہ معاملات میں ہم غیر شفافیت کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیں اور قوانین ہمارے ہاں طاقتور کے لیے عاجز اور کمزور کے لیے سفاک ہیں! طاقور اگر کبھی پکڑا بھی جاتا ہے تو اس وقت جب وہ حکومتِ وقت کا مخالف ہو! رہے حکومتی ارکان تو ان کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے ! فیوڈل سیٹ اَپ اس پر مستزاد ہے۔ کوئٹہ میں ٹریفک کے سپاہی کو گاڑی نے روند ڈالا۔کراچی میں جاگیردار خاندان کے بیٹے نے نوجوان کو ہلاک کر دیا۔ اسلام آباد میں سرکاری اہلکاروں نے ایک بے گناہ نوجوان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ پھر طاقتور طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی گاڑی نے چار نوخیز نوجوانوں کوکچل دیا۔ ان میں سے کسی مجرم کو تا دم ِتحریر سزا نہیں دی گئی۔ کوئی امکان بھی نہیں دکھائی دے رہا۔
تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر طاقتور طبقے کا ایک رکن برملا اعلان کرتا ہے کہ اگر چھوٹا بچہ گاڑی چلا رہا ہے تو کیا ہوا! زمین میری ہے! گاڑی میری ہے ! اور بچہ میرا ہے ! اور یہ کہ تم لوگ اپنے کام سے کام رکھو! غور کیجیے۔ ہم اہلِ مغرب سے گاڑی بھی مانگ لائے‘بچے کی ڈرائیونگ کی وڈیو بنانے کے لیے فون اور کیمرہ بھی وہاں سے منگوا لیا مگر گاڑی چلانے کے ضمن میں جو قانون اہلِ مغرب کے ہاں رائج ہے اور جس سے کسی کو استثنا نہیں ملتا‘ اُس قانون سے ہم بے بہرہ ہیں! نقل کے لیے عقل چاہیے ! افسوس ! ہم نے نقل کی مگر عقل کو بروئے کار نہ لا سکے! ابھی ہم ان سے صدیوں پیچھے ہیں۔ ہاں ! ایک شارٹ کٹ ہے اور وہ یہ کہ ہجرت کر کے وہیں جا بسنا ! جن کا بس چل رہا ہے ‘ وہ یہ شارٹ کٹ استعمال کر رہے ہیں۔