اس کے بازو کٹ گئے پھر بھی وہ موجود تھا۔
پھر اس کی ٹانگیں کٹ گئیں‘ پھر بھی وہ وجود رکھتا تھا۔ پھر اس نے اپنے جسم کو چھوڑا اور کہیں اور جا بسا۔معلوم ہوا جسم محض ایک فریم تھا۔یہ فریم رہے نہ رہے‘ اس کے وجود کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ ایک بچے کو دیکھتے ہیں۔ پانچ یا آٹھ دس سالہ بچے کو! سرسبز و شاداب ! سرخ رخسار‘ گھنے سیاہ بال۔پیاری پیاری موٹی آنکھیں۔پھر اس بچے کو آپ ساٹھ سال بعد دیکھتے ہیں۔ رنگت سیاہ ہو چکی ہے۔ آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک ہے جس میں سے اندر دھنسی ہوئی آنکھیں جھانکتی ہیں۔سر چٹیل میدان بنا ہے۔ سفید لمبی داڑھی ہے۔ آپ پہچان نہیں پا رہے۔تعارف ہوا تو آپ کو یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی بچہ ہے۔حالانکہ صرف فریم تبدیل ہوا ہے۔ فریم کے اندر وہ بچہ اب بھی اپنا الگ وجود رکھتا ہے۔اس کے وجود کا اس جسم سے تعلق عارضی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ وہ اس بوسیدہ جسم کو بھی چھوڑ دے گا اور کسی اور فریم میں فِٹ کر دیا جائے گا۔
کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال کتاب کی بھی ہے۔ کتابوں کو پسند کرنے والے لوگ گھبرائے ہوئے ہیں۔ ''کتاب کلچر ختم ہو رہا ہے۔کمپیوٹر کتابوں کو کھا گیا۔ اب کتابیں کون پڑھے گا۔ وغیرہ‘‘۔ خطرے کی یہ گھنٹیاں بجتی ہوئی آپ نے بھی سنی ہوں گی۔ کل ہی ایک بہت پڑھے لکھے صاحب‘ لاہور سے ‘ فون پر یہی رونا رو رہے تھے۔
یہ خوف اس وجہ سے پھیل رہا ہے کہ ہم کاغذ ‘ روشنائی اور جِلد کے مجموعے کو کتاب سمجھ رہے ہیں حالانکہ کتاب وہ ہے جو اس نام نہاد کتاب کے اندر ہے۔ہم کتاب اسے سمجھ رہے ہیں جس کی کتابت کسی انسان نے یا جس کی کمپوزنگ کسی کمپیوٹر نے کی ہو۔ پھر کاغذ خرید کر چھاپہ خانے میں اسے طبع کیا گیا ہو۔ پھر جلد ساز نے اسے جلد کیا ہو۔ پھر کتاب فروش سے اسے خریدا گیا ہو۔ مگر ایسا ہر گز نہیں! ہمیں معلوم ہے کہ چار آسمانی کتابیں اُتری ہیں۔ کیا وہ کاغذ‘ روشنائی اور جلد پر مشتمل تھیں؟ قران مجید نے اپنے آپ کو کئی مقامات پر '' کتاب‘‘ قرار دیا ہے۔ بچے بچے کو یہ الفاظ یاد ہیں:ذلک الکتاب لا ریب فیہ مگر جسے ہم کتاب کہتے ہیں وہ تو اُس وقت کہیں نہیں تھی۔ کلام پاک ہڈیوں‘ چمڑے کے ٹکڑوں‘درختوں کی چھال اور پتھر کی تختیوں پر لکھا جا رہا تھا۔قرانِ پاک کو حفظ کرنے والا اس کتاب کو اپنی یاد داشت میں محفوظ کر لیتا ہے۔اس کے حافظے میں کتاب ہے مگر کاغذ ہیں نہ چمڑے کے ٹکڑے نہ درختوں کی چھال نہ سی ڈی! کلامِ پاک میں اعمال نامے کے لیے بھی جو روزِ حشر دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ کتاب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ہمیں علم ہے نہ اندازہ کہ یہ کتاب کس شکل میں ہو گی۔جس میموری سے یہ نکالی جائے گی وہ کیسی ہو گی ؟ کون سی لغت ہو گی؟ الفاظ بھی ہوں گے یا کوئی اور ہی سلسلہ ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کتاب کا انحصار کاغذ اور روشنائی پر ہے نہ جلد اور چھاپہ خانے پر‘ نہ خطاط پر! کتاب کی شکل زمانے کے ساتھ بدلتی رہی ہے اور آئندہ بھی بدلتی رہے گی۔ پتھروں ‘ ہڈیوں‘ چھال‘ اور چرم سے یہ کاغذ پر آئی۔پہلے ایک ایک کتاب ہاتھ سے لکھی جاتی تھی۔ باد شاہ اور امیر شائقینِ علم کئی کئی خطاط رکھتے تھے جو کتابوں کی نقول تیار کرتے تھے۔ پھر پریس آگیا اور ایک ہی کتاب کے کئی کئی نسخے بہت کم وقت میں تیار ہونے لگے۔ آج کتاب کا سفر ایک اور سنگ میل کے سامنے کھڑا ہے۔ کتاب کاغذ کو بھی چھوڑ کر آگے روانہ ہورہی ہے۔
تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا۔
اب وہ کمپیوٹر کے فریم میں فِٹ ہو رہی ہے۔ ای ریڈر آگیا ہے۔ آئی پیڈ پر کتابیں پڑھی جا رہی ہیں۔ بے شمار لوگ اخبارات کی ہارڈ کاپی پڑھنا چھوڑ چکے ہیں۔ اس کالم نگار کے آئی پیڈ میں محمد اسد کا کلام پاک کا انگریزی ترجمہ ( میسج آف قرآن )‘ براؤن کی لٹریری ہسٹری آف پرشیا ( چار وں حصے )‘ شبلی کی شعر العجم ( چاروں حصے ) ‘ پنجاب میں اُردو از محمود شیرانی ‘ برنئیر کا سفرنامہ‘مآثر رحیمی‘دیوانِ حافظ‘ گلستانِ سعدی‘ منطق الطیر‘ ڈاکٹر ژواگو‘ کے علاوہ‘ ابراہام ایرالی‘ پی جی وڈ ہاؤس‘ مارک ٹوئن‘ ڈلرمپل، کرسچین وولمر‘ پران ناتھ چوپڑہ‘ گارسیا مارکوئیز ‘ شفیق الرحمن اورناصر کاظمی کی متعدد تصانیف کے ساتھ ساتھ کئی اور کتابیں بھی محفوظ ہیں۔ کچھ ریفرنس کیلئے ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ کچھ پڑھنے کے بعد ڈیلیٹ کر دی جاتی ہیں۔ ایرانیوں کی ویب سائٹ '' گنجور ‘‘ پر تمام مشہور شعرا کا کلام کسی بھی وقت میسر آ سکتا ہے۔ بے شمار لوگوں نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کتابیں لیپ ٹاپ‘ یا آئی پیڈ‘ یا موبائل فون‘ یا ای ریڈر ‘پر محفوظ کی ہوئی ہیں۔ پڑھتے ہوئے جو سطور یا پیرا گراف نشان زد (ہائی لائٹ) کرنا ہوں‘ کیے جا سکتے ہیں۔
رہا معاملہ ہمارے اپنے ملک میں کتاب کی ناقدری کا ‘ تو یہ معاملہ باقی دنیا سے الگ ہے۔ ہماری شرح خواندگی بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کم ہے۔ کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں۔ ہماری مخصوص مقامی ثقافتیں ‘ ہماری ذہنیت‘ ہمارے دماغوں کی کجی اور مذہب کی ہماری خود ساختہ تعبیر‘ آج تک تعلیم ِ نسواں کو دل سے قبول نہیں کر سکی۔ لائبریری کلچر جو تھوڑا بہت تھا وہ بھی ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ایسے میں قصور کمپیوٹر کا نہیں‘ ہمارے مخصوص حالات کا ہے۔ آپ بین الاقوامی سفر کر کے دیکھ لیجیے۔ فضا میں اُڑتے جہاز ہو ں یا ہوائی اڈوں کے لاؤنج ‘ چینی‘ جاپانی‘ کورین‘ تھائی‘ سفید فام‘ یہاں تک کہ افریقی اور بھارتی بھی ‘ لیپ ٹاپ یا ای ریڈر یا آئی پیڈ کھولے محوِ مطالعہ ہوں گے! فارغ بیٹھے ہوں گے تو ہم پاکستانی یا ہمارے عرب بھائی‘ اِلّا ماشاء اللہ !
جس طرح ہمیں یہ وہم ہے کہ دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے یعنی ستائے جانے کا وہم(Persecution Comple ) اسی طرح ہمیں دیگر حوالوں سے بھی کئی قسم کے اوہام نے گھیر رکھا ہے۔ کبھی ہمیں مذہب خطرے میں دکھائی دیتا ہے‘ کبھی ملک! کبھی ہمیں اردو کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے کبھی پنجابی کا ! کبھی ہم رو رہے ہوتے ہیں کہ کمپیوٹر کے زمانے میں شاعری کا کیا بنے گا ‘ کبھی انگریزی سے خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو حقیقی خطرات ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں جیسے تیزی سے گرتی معیشت ‘ ناخواندگی‘ سیاسی عدم استحکام‘ دیہات اور قصبات میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور کئی قسم کی ناانصافیاں‘ وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتیں یا دیکھیں تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں ! کتاب کلچر کہیں نہیں جا رہا۔ خاطر جمع رکھیے۔ ہاں کتابیں ڈیجیٹل ہوں گی اور لائبریریاں بھی! اس تبدیلی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جتنا جلدی اس تبدیلی سے سمجھوتہ کرلیں‘ ہمارے حق میں بہتر ہے۔اکبر الہ آبادی روئے تھے ؎
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پائپ ختم ہوا نہ ٹائپ کا لفظ ! اب تو یہ حال ہے کہ مختاریا ! گل ودھ گئی اے۔( بات بہت آگے نکل گئی ہے )۔ اقبال آج بھی وارننگ دے رہے ہیں ؎
آئینِ نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں