ہم سب جانتے ہیں کہ فقہ کے بڑے اور معروف مکاتب پانچ ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ؒکے پیروکار فقہ جعفریہ پر عمل پیرا ہیں۔ فقہ حنفی کی اتباع کرنے والے احناف کہلاتے ہیں۔ شوافع ‘ امام شافعیؒ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ فقہ کا مالکی مکتب فکر امام مالکؒ سے منسوب ہے۔ حنبلی یا حنابلہ ‘ امام احمد بن حنبلؒ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ آئمہ ایک دوسرے سے محبت اور احترام کا رشتہ رکھتے تھے۔انہوں نے ایک دوسرے سے علم بھی حاصل کیا۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ دونوں نے حضرت امام جعفر صادقؒ سے فیض حاصل کیا؛تاہم اصل بات جو ہم بتانا چاہتے ہیں اور ہے۔
ہم اہلِ پاکستان کی اکثریت جس مکتب فکر کی عملاً پیروکار ہے اس کا ان ثقہ مکاتب سے کوئی تعلق نہیں! سچ پوچھیے اور کہنے کی اجازت دیں تو یہ ایک اور ہی مکتب فکر ہے۔ ہم حنفی ہیں یا جعفری‘ یا کچھ اور ‘ اس نئے مکتب فکر کے حوالے سے سب یکجان ہیں۔ سب ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ سب سے پہلے رمضان کو لے لیجیے۔پانچوں آئمہ کرام اس امر پر اتفاق فرماتے ہیں کہ روزہ رکھ کر کھانا پینا حرام ہے۔ مگر ہم پاکستانی ‘ منہ سے کہیں یا نہ کہیں‘ بکرے‘ دنبے‘ گائے‘ بھینس ‘ مرغی‘تیتر‘ بٹیر اوراونٹ کا گوشت تو چھوڑ سکتے ہیں مردہ بھائی کا گوشت کھانا نہیں چھوڑ سکتے۔ یوں تو سارا سال یہ غذا ہمارا مرغوب کھاجا ہے مگر رمضان کے دوران یہ گوشت ہم ٹنوں کے حساب سے کھاتے ہیں۔رغبت اس قدر ہے کہ یہ کام گھنٹوں کے حساب سے کرتے ہیں۔ چونکہ اس گوشت کا تقاضا ہے کہ کم از کم دو افراد دسترخوان پر ضرور موجود ہوں ‘ اس لیے ہم اگر اکیلے ہوں تو کسی دوسرے کے پاس چلے جاتے ہیں یا کسی کو دعوت دے کر بلا لیتے ہیں تا کہ اس گوشت کا کھانا ممکن ہو سکے۔ یوں تو یہ گوشت ہمیشہ ہی لذیذ ہوتا ہے مگر روزہ رکھ کر مردہ بھائی کے گوشت کھانے کا مزہ کچھ اور ہی ہے۔ پرندوں کے گوشت میں بھی اتنی لذت نہیں۔
ہم پاکستانیوں کے اس خصوصی نام نہاد مکتب ِفکر کا ایک اور اہم مسئلہ رمضان میں قیمتوں کا بڑھانا ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ''تشبّہ بالکفار ‘‘ یعنی کفار سے مشابہت رکھنا علما کے نزدیک جائز نہیں اس لیے ہم رمضان میں کافروں کی طرح قیمتیں کم نہیں کرتے۔ یہ غیر مسلم کرسمس کے موقع پر اشیائے ضرورت کے نرخ گھٹا دیتے ہیں بلکہ اب تو مغربی ملکوں میں یہ کفار ‘ رمضان کے دوران بھی قیمتیں کم کر دیتے ہیں مگر ہم تشبہ بالکفار سے احتراز کرتے ہوئے رمضان میں قیمتیں نہ صرف یہ کہ گھٹاتے نہیں‘ بڑھا دیتے ہیں۔ جوتے‘ کپڑے‘ پھل‘ سبزیاں‘ اناج‘ سب کی قیمتیں آسمان تک لے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع خوری کا جو لطف روزہ رکھ کر آتا ہے وہ باقی گیارہ مہینوں میں کہاں نصیب ہوتا ہے! دروغ گوئی‘ عہد شکنی اور قطع رحمی کا مزا بھی اس مہینے کے دوران کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے اس مخصوص مکتب فکر کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ رمضان میں دفتروں‘ کارخانوں اور تعلیمی اداروں میں کام کم کیا جائے‘ اوقاتِ کار چوری کئے جائیں مگر تنخواہ پوری لی جائے۔ بقول ضمیر جعفری ؎
میں نے ہر فائل کی دُمچی پر یہ مصرع لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار! میں روزے سے ہوں
اب ہم نماز کا بیان کرتے ہیں۔ سارے امام ‘ فقہا اور علما کہتے ہیں کہ نماز خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز میں جو کچھ ہم پڑھتے ہیں اس کے معانی معلوم ہوں۔جبھی تو نماز کے دوران ہمیں معلوم ہو سکے گا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں۔ مگر یہ جو نیا مکتب ِ فکر ہم نے ایجاد کیا ہے ‘اس کی رُو سے نماز کے معانی اور مفاہیم سے مکمل ناواقفیت لازم ہے۔ آپ اسّی سال کے کسی بوڑھے سے پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ ستر سال تو اسے نماز پڑھتے ہو چکے ہوں گے مگر ثنا ء سے لے کر دعائے قنوت تک اسے نماز کے کسی حصے کا مطلب نہیں معلوم۔ اس بڈھے نے اپنے بچوں کو مہنگے سکولوں میں بھیجاجو انگریزی فر فر بولتے ہیں۔ پھر یورپ اور امریکہ جا کر اس کی اولاد نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ اب لاکھوں کروڑوں میں کماتے ہیں مگر قرآن پاک کی کسی آیت کا مفہوم پوچھیے تو ہونقوں کی طرح پورا منہ یوں کھولیں گے جیسے دنیا بھر کی مکھیوں کو منہ کے اندر آنے کی دعوت دے رہے ہوں۔ ویسے عبرت کی بات یہ بھی ہے کہ یہ پیرِ فرتوت کل جب مرے گا اور اس کے بچے جب اس کی نماز جنازہ میں کھڑے ہوں گے تو شاید ہی کسی کو جنازے کی دعا یاد ہو گی اور بفرضِ محال کسی کو یاد ہوئی بھی تو اس کا مطلب معلوم نہیں ہو گا۔ اسے پتا ہی نہیں چلے گا کہ باپ کے لیے اللہ تعالی سے مانگ کیا رہا ہے؟ ہاں! مرنے سے یاد آیا کہ اس نئے مکتب ِ فکر میں ہم لوگوں کی اکثریت اپنے مرحوم والدین کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی بھی خود نہیں کرتی بلکہ فروٹ چاٹ اور جلیبی کا اہتمام کر کے دوسروں سے پڑھواتی ہے۔
رہا حج اور عمرہ تو ہمارے حج اور عمرے کا کیا ہی کہنا!جیسے ہی احرام زیب تن کرتے ہیں‘ تصویر سوشل میڈیا پر آجاتی ہے۔ پوری دنیا میں جتنے لوگ ہمارے جاننے والے ہیں اور دیدہ اور نادیدہ دوست ہیں ‘ ہمارے قصدِ عبادت سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ عبادت کی خاطر خواہ تشہیر نہ ہو تو فائدہ ہی کیا؟ پھر جدہ اُترنے کی‘ پھر حرم پاک پہنچنے کی تصاویر برابر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ عبادت کے ایک ایک جزو کا ریکارڈ سوشل میڈیا پر چڑھایا جاتا ہے۔ یہ سب تو ہوتا ہی ہے‘ مگر جو لطف‘ دورانِ طواف ‘ سیلفی لینے کا ہے‘ اس کا کیا پوچھتے ہو! احرام باندھ کر‘ طواف کرتے ہوئے‘ دعا مانگنے اور توبہ استغفار کرنے کے بجائے سیلفی لینا ایک ایسا تجربہ ہے جس کی کوئی مثال ہی نہیں۔ حیرت ہے کہ کسی جاندار اور '' قوی ‘‘ قسم کے مفتی نے ابھی تک یہ فتویٰ نہیں دیا کہ مقام ِابراہیم پر نفل ادا کر رہے ہوں تو نفلوں کے دوران بھی سیلفی بنا سکتے ہیں ! حج کے بعد ساری زندگی کے لیے ہم اپنے نام کے ساتھ حاجی یا الحاج لکھتے ہیں۔ یہاں ایک نکتہ ‘ بہت گہرا‘ بیان کرنا ضروری ہے۔ حج ایک عبادت ہے۔ اس عبادت کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی حاجی کہلوا سکتا ہے تو پھر نماز اور روزہ بھی تو عبادات ہی ہیں۔ اس فارمولے کے مطابق نام کے ساتھ نمازی یا روزہ دار بھی لکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً '' نمازی عبد الکریم! روزہ دار فیروز خان ! نمازن نسرین بی بی! روزہ دارن تمکنت بیگم!
ہمارے اس خود ساختہ نئے مکتب ِ فکر میں ‘ چور بازاری‘ جھوٹ‘ بے ایمانی‘ رشوت‘ سفارش‘ اقربا پروری جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے روزے کی سالمیت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ روزہ اتنا کچا نہیں کہ ان سے ٹوٹ جائے۔ اس مکتبِ فکر کی رُو سے یہ بھی لازم ہے کہ ہم اپنے باس کی اور دوستوں کی افطاریاں کراتے پھریں مگر بوڑھے ماں باپ اور مستحق رشتہ داروں سے غافل رہیں۔ رمضان میں ان کی خبر گیری کریں نہ عید پر ! اپنے بچوں کے نئے ملبوسات خریدیں مگر اپنے ملازموں‘ ان کے اہلِ خانہ اور محلے کے مفلوک الحال بچوں کو ایک دھجی تک خرید کر نہ دیں۔ اور اگر غلطی سے ایسا کر بھی دیں تو فوٹو سیشن کروانا کبھی نہ بھولیں۔ ریاکاری اس خود ساختہ مکتب ِ فکر کا گویا بنیادی ستون ہے۔ ہمارے حکومتی عمائدین تو کسی کو پانچ کلو آٹا فوٹو سیشن کے بغیر نہ دیں۔