عالم دین، استاد بھی تھے۔ اس روز بھی وہ حسب معمول سبق پڑھا رہے تھے۔ شاگرد زمین پر نصف دائرے کی صورت میں کتابیں کھولے بیٹھے تھے۔ استاد گرامی بہت آرام دہ حالت میں، Relaxed ہو کر تشریف فرما تھے۔ دستار اتار کر ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ شاگرد فقرہ پڑھتا تھا۔ استاد اس کے رموز و اسرار کھولتے جا رہے تھے۔ مضامین بادل کی طرح برس رہے تھے۔ ایک ایک نکتہ کئی کئی اسرار لیے تھا۔ فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، لٹریچر، صاحب علم کے حضور جیسے دست بستہ کھڑے تھے۔ شاگرد ہمہ تن گوش تھے۔ کچھ ساتھ ساتھ لکھتے جا رہے تھے۔ کچھ محویت کے ساتھ سن رہے تھے۔
اچانک مسجد کا دروازہ کھلا۔ ایک طویل قامت، وجیہ شخص اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں خوبصورت عصا تھا۔ سفید عمامے پر طُرّہ، رُو بہ فلک تھا۔ قیمتی چغہ زیب تن تھا۔ پہلی نظر ہی میں وہ ایک بہت زیادہ پڑھا لکھا شخص لگتا تھا۔ ایک علامہ! ایک عالم! اس نے حمام سے کوزہ بھرا اور اُس ناند کے کنارے بیٹھ کر وضو کرنے لگا جس پر بیٹھ کر وضو کیا جاتا تھا۔ استاد‘ جو پڑھا رہے تھے، بھانپ گئے کہ یہ شخص ضرور عالم ہے۔ اُس زمانے میں، جس کی ہم بات کر رہے ہیں، یہ رواج تھا کہ جب کوئی عالم، کوئی استاد سبق پڑھا رہا ہوتا تھا تو کوئی بھی پاس بیٹھ کر سن سکتا تھا۔ اس طرح بعض اہل علم استاد کی غلطی بھی نکال دیتے تھے۔ اس وقت کلاس روم نہیں ہوتے تھے۔ مسجد ہی درسگاہ ہوتی تھی اور مسجد کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوتے تھے۔ پڑھانے والے عالم، سنبھل کر بیٹھ گئے۔ دستار سر پر رکھ لی۔ پھیلی ہوئی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ اب وہ زیادہ توجہ اور احتیاط سے پڑھانے لگے۔ طویل قامت، وجیہ شخص وضو سے فارغ ہو کر مسجد کے صحن میں در آیا۔ دستار، چغہ اور اس کی بارعب شخصیت اس کے گرد ایک پُر اثر فضا لیے تھی۔ استاد گرامی اٹھے۔ اجنبی سے مؤدبانہ انداز میں مصافحہ کیا اور استفسار کیا کہ جناب کا اسم گرامی؟ اجنبی کے چہرے پر لاعلمی کا ایک عجیب تاثر ابھرا۔ کیا کہا آپ نے؟ اس نے پوچھا؟ استاد پھر گویا ہوئے حضور کا اسم گرامی؟ اب کے اجنبی نے کھردرے دیہاتی لہجے میں بتایا: میں سمجھا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ استاد نے کہا: آپ کا نام پوچھا ہے۔ اس نے کہا: جوسف۔ استاد کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ واپس اپنی مسند پر آئے۔ دستار سر سے اتار کر ایک طرف رکھی۔ تکیے سے ٹیک لگائی اور طلبہ سے کہا: آپ لوگ اپنا سبق جاری رکھیں‘ یہ تو جُوسف ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گاؤں کے ان پڑھ لوگ یوسف کو جوسف، خاتون کو کھاتُوں، خیر مبارک کو خیر ممارک اور سفارش کو سپارش کہتے ہیں۔ اکبری عہد کے دو مشاہیر، عرفی اور فیضی کا واقعہ مشہور ہے۔ دونوں میں باہمی معاصرانہ چشمک تھی۔ فیضی کا ایک بے مثال کارنامہ اس کی غیر منقوط تفسیر سواطع الالہام ہے۔ غیر منقوط کا مطلب ہے کہ پوری تفسیر میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کے اوپر یا نیچے کوئی نقطہ ہو۔ فیضی بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کہ عرفی آ گیا۔ پوچھا: کس فکر میں ہو؟ فیضی نے بتایا کہ اپنے والد کا نام مبارک، تفسیر میں لکھنا چاہتا ہوں‘ سوچ رہا ہوں‘ کیسے لکھوں۔ عرفی نے شرارت سے کہا کہ تمہاری جو اصلی زبان ہے‘ اس میں مبارک کو ممارک کہتے ہیں، وہی لکھ دو!
ترین گروپ نے نام نہاد علمِ بغاوت بلند کیا تو سب ہوشیار ہو کر بیٹھ گئے۔ دستاریں سر پر رکھ لیں۔ ٹانگیں سمیٹ لیں۔ کسی نے پیش گوئی کی کہ حکومت کی جان اسی طوطے میں ہے۔ یہ گروپ حکومت کو لے بیٹھے گا۔ کسی نے اپنی طرف سے نوشتۂ دیوار پڑھا اور منادی کر دی کہ بجٹ پاس نہیں ہو گا۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ باغی گروپ کی پشت پر نادیدہ قوتیں ہیں۔ زیادہ ہنسی ان بزرجمہروں پر آتی ہے جو اس گروپ پر نظریاتی، تعمیری اور سنجیدہ ہونے کی تہمت دھر رہے تھے۔ اس گروپ کے ایک صاحب کی تقریر تو خاصی وائرل ہوئی۔ سبحان اللہ! کیا تیور تھے اور کیا عزائم تھے۔ اس خزینے سے صرف چند جواہر ریزوں کی دمک ملاحظہ ہو:
٭ آج بھی ہم خان صاحب کے ساتھ ہیں لیکن ہمارے جو تحفظات ہیں وہ تو کوئی سنتا نہیں ہے۔
٭ جن منسٹروں کو آپ نے بنایا، ایک چور نکلا میڈیسن میں۔ دوسرا چور نکلا کسی اور چیز میں، تیسرا چور نکلا آٹے میں، چوتھا چور نکلا کسی اور چیز میں تو کس کی چوائس تھی؟
٭ اگر مجھے اپنی پارٹی میں بیٹھ کر بولنے کا حق نہیں ہے اور میں چوبیس گھنٹے مالشیا بنا رہوں تو کیا میرے لیے بہتر ہے؟
٭ خان صاحب کے ارد گرد جو ٹولہ بیٹھا ہے وہ پلان کر کے میری پارٹی کو میرے لیڈر کو ایک غلط طرف لے کے جا رہے ہیں۔ ان کو پتہ نہیں کہ نیچے کیا حالات ہیں؟ خالی عمران خان کا نام پارٹی نہیں ہے۔ ہم سب پارٹی ہیں۔
٭ بزدار صاحب کے پاس کوئی کوائلٹی نہیں ہے۔ چار دن پہلے تو وہ پارٹی میں آئے ہیں۔ ان کا کیا ہے اس پارٹی کے اندر؟
ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ کتنے بلند نظریاتی عزائم تھے الگ شناخت قائم کرنیوالے اس گروپ کے! منسٹروں کی بد دیانتی! بولنے کا حق! مگر جیسے ہی حکومت کے عمائدین نے رابطہ کیا سارے آدرش یوں تحلیل ہو گئے جیسے سورج کی کرنوں میں شبنم غائب ہو جاتی ہے۔ بزدار صاحب وہیں ہیں۔ منسٹر بھی وہیں ہیں۔ خان صاحب کے گرد مبینہ ٹولہ بھی موجود ہے مگر گروپ کے تحفظات ختم ہو گئے۔
ترین گروپ ہے یا کوئی اور، کوئی فارورڈ گروپ ہے یا بیک ورڈ گروپ، اس ملک کا مفاد کسی کے لیے اہم نہیں۔ سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ تفتیش ختم کرانا چاہتے ہیں۔ مقدمات سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ سب بلیک میلنگ کے حیلے ہیں۔ کارخانے چلتے رہیں۔ سبسڈی ملتی رہے۔ تجوریاں بھری رہیں۔ ذاتی جہاز اُڑتے رہیں۔ اولاد کا مستقبل ملکی سیاست میں روشن رہے۔ جو دعوے کرتے ہیں کہ این آر او نہیں لیں گے‘ انہوں نے این آر او کے لیے جھولی پھیلا رکھی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دیں گے‘ وہ این آر او دے رہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے۔ کھال بچ جائے۔ اقتدار چلتا رہے۔ دیہاڑیاں لگتی رہیں۔ ٹھِیّے آباد رہیں۔ پی پی پی ہے یا نون لیگ یا قاف لیگ‘ تحریک انصاف ہے یا ترین گروپ‘ پی ڈی ایم ہے یا ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ! تبدیلی کا دعویٰ ہے یا نئے یا پرانے پاکستان کا وعدہ! سب اپنی خواہشوں کے اسیر ہیں۔ سب کسی نہ کسی درجے میں بلیک میل ہو رہے ہیں۔ سب کسی نہ کسی درجے میں بلیک میل کر رہے ہیں۔ ساری جدوجہد دو لفظوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ صرف دو لفظوں کے گرد! کھال اور اقتدار!
کوئی ہرجائی نہیں، کوئی وفادار نہیں
سب گرفتار ہیں ہر لحظہ دھڑکتے دل کے
آج جو پارٹی تخت پر متمکن ہے، اس کے وزرا کی بھاری تعداد انہی افراد پر مشتمل ہے جو ماضی کی حکومتوں میں وزیر تھے۔ کل جو پا رٹی اپنے سر پر تاج رکھے گی اس کے وزیر بھی یہی افراد ہوں گے۔ ایک ہی این آر او ہے جو ستر سالوں سے چلا آرہا ہے۔ یہی این آر او ہے جس کا سایہ مستقبل پر محیط ہے۔
جو علیحدہ ہونے والے گروپ کے بلند عزائم دیکھ کر سنبھل گئے تھے، انہیں چاہیے کہ تکیے سے ٹیک پھر لگا لیں۔ دستار اتار کر رکھ دیں۔ چوکنّا ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ باغی نہیں تھے، جُوسف تھے!