پچاس سال بعد میرا سب سے بڑا نواسا، جو اب چودہ برس کا ہے، چونسٹھ سال کا ہو گا۔ سب سے چھوٹا پوتا، جو بیرون ملک ہے، ترپن یا چوّن سال کا ہو گا۔ ان شاء اللہ۔ نہیں معلوم اس کا پاکستان آنا جانا ہو گا یا نہیں، اور اپنے تایا زاد اور پھوپھی زاد بھائی بہنوں سے کوئی رابطہ بھی ہو گا یا نہیں۔ تب یہ سب بچے اپنے بچوں کے معاملات میں مصروف ہوں گے۔ نہیں معلوم اس وقت سماجی صورت حال کیا ہو گی۔ ان کے بچے شادیاں ماں باپ کی مرضی سے کریں گے یا ماں باپ کو شادیاں ہونے کی اطلاع بھی دی جائے گی یا نہیں۔ وقت کی رَو ظالم ہے۔ اس کے آگے بند باندھنا بیکار ہے۔ یہ اور بات کہ بند باندھنے کی کوشش ہر نسل کرتی ہے اور منہ کی کھاتی ہے۔
یہ بات صرف موت و حیات کے خالق کو معلوم ہے کہ میری تدفین کب اور کہاں ہو گی۔ کیا یہ بچے، جو اُس وقت ادھیڑ عمر کے ہوں گے، اور کچھ بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے ہوں گے، میری قبر پر آیا کریں گے یا نہیں؟ بہر طور، یہ طے ہے کہ انہیں اپنے پر دادا یا پر نانا، یعنی میرے والد گرامی کی قبر کا کچھ علم نہیں گا۔ مجھے اپنے والد مرحوم کے نانا کی قبر کا علم ہے مگر ان کے دادا کی قبر کہاں ہے، کس گاؤں میں ہے، مجھے نہیں معلوم۔ تین دن پہلے جب میں والد گرامی کی قبر پر کھڑا تھا تو قبرستان کا راکھا بھی وہیں تھا۔ میں نے حسرت بھرے لہجے میں اسے کہا ''یار! رشید! کاش میں ابا جی کی قبر کی پائنتی والی جگہ اپنے لیے ریزرو کرا لیتا‘‘۔ رشید نے کہا کہ سر جی وہ قبر تو آپ کے ابا جی کی قبر سے پہلے کی ہے‘ مگر آپ اپنے لیے کوئی اور جگہ ریزرو کرا لیں‘ بس سی ڈی اے سے ایک لیٹر لینا ہو گا۔ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر ابا جی کے قدموں میں جگہ نہیں ملی تو پھر ریزرو کرانے کا کیا فائدہ؟ جہاں دفن کرنا چاہیں گے، ہم چپ کر کے دفن ہو جائیں گے۔ ہماری آنکھیں تو بند ہوں گی۔ ہم سے کسی نے پوچھنا بھی نہیں کہ فرمائیے! تدفین کہاں پسند کریں گے۔ یوں بھی، فیصلہ تو ہو چکا کہ ''وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بأیّ أرْضٍ تَمُوت‘‘ ''کسی کو معلوم نہیں کہ کس سرزمین پر اُس کی موت آئے گی‘‘۔ جہاں بھی آئی، وہیں تدفین ہو جائے گی۔ غالب نے اپنے بارے میں پیش گوئی کی تھی۔
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم
مگر پیش گوئی پوری نہ ہوئی۔ ہمارے بزرگ دوست، پروفیسر معظم منہاس نے تو، جو انگریزی ادب کے بڑے عالِم ہیں، موت کے فلسفے کو نیا ہی رخ دے دیا ہے۔ فرماتے ہیں ''مرنا ہمیں بالکل پسند نہیں‘ یہ بھی کیا کہ انسان آنکھیں بند کر کے پڑا رہے‘‘۔
پچاس سال بعد وہ حویلی‘ جس میں مَیں پیدا ہوا تھا اور جس کی تعمیر نو کے لیے نقشہ، خدا خدا کر کے، اب، بن رہا ہے، نہ جانے کس کے پاس ہو گی۔ منجھلے صاحبزادے کو گاؤں میں دلچسپی تو ہے مگر شکار کی حد تک۔ کیا یہ دلچسپی اس کے بچوں میں منتقل ہو گی؟ یوں بھی اہلِ دیہہ سے تعلقات رکھنا اور معاملات طے کرنا مشکل کام ہے۔ وہاں منطق کام آتی ہے نہ کامن سینس۔ انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ شہر میں آپ کا عہدہ یا سٹیٹس کیا ہے۔ کوئی بھی، کسی بات پر، ناراض ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر موت اور شادی پر جانا ضروری ہے۔ کوشش تو کی ہے کہ بچوں کی اس ضمن میں ٹریننگ ہو جائے مگر اصل سوال یہ ہے کہ نصف صدی بعد بچوں کا گاؤں سے رابطہ ہو گا بھی یا نہیں۔ ہمارے مکان کن کے تصرف میں ہوں گے؟ تھوڑی بہت زمین جو کاشت کاری کے لیے موجود ہے، کس کی ملکیت ہو گی؟ اُس وقت منظر نامہ کیا ہو گا؟ ساتھ والے گاؤں میں میرے ماموں جان کے پوتوں سے غالباً کسی کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ کیا مجھے آج معلوم ہے کہ میرے دادا جان کے ماموں کتنے تھے اور ان کے پوتے کہاں ہیں یا کیا کر رہے ہیں؟ بیگم سے پوچھا کہ اُن کے دادا جان کے ماموں کون تھے اور ان کی اولاد کہاں ہے؟ کہنے لگیں: دادا کے ماموں کا ہی علم نہیں تو ان کی اولاد کا کیا پتا ہو گا؟ نام نہاد خون کے رشتے، قرابت داریاں، وقت کے ساتھ ساتھ اُس لسّی کی طرح ہو جاتی ہیں جس میں پانی ڈالتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ پانی زیادہ اور لسّی کم رہ جاتی ہے! دادا جان کے ایک قریبی رشتے دار دہلی چلے گئے تھے۔ معلوم نہیں، پڑھنے یا ملازمت کرنے! وہاں شادی کر لی۔ واپس گاؤں آئے تو بیگم بھی ساتھ تھیں۔ اندازہ لگائیے! یوپی کی خاتون اور اٹک فتح جنگ کا گاؤں! بے چاری پان کھاتی تھیں۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پٹھے کھاتی ہے (پنجابی میں پتّوں کو پٹھے کہتے ہیں)۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ کچھ عرصہ بعد دونوں میاں بیوی واپس دہلی چلے گئے۔ یہ تقسیم، یعنی میری پیدائش، سے پہلے کی بات ہے۔ صرف ایک یا دو بار سنا کہ ان کی اولاد مراد آباد میں رہتی ہے۔ کوئی صاحب ان میں سے پولیس انسپکٹر تھے۔ دور دراز کی ہماری ایک خاندانی برانچ چکوال میں بکھری پڑی ہے۔ سنا ہے ان کا رابطہ اب بھی ہندوستان والے ''رشتے داروں‘‘ سے ہے‘ مگر ہمارا رابطہ تو چکوال والوں کے ساتھ بھی نہیں!
پچاس سال بعد جو ملک میں ہوں گے انہیں یہ تو معلوم ہو گا کہ پر دادا یا پر نانا کس ضلع سے تعلق رکھتا تھا۔ ہو سکتا ہے کچھ کو گاؤں کا نام بھی معلوم ہو‘ مگر پوتیاں اور پوتے جو بیرون ملک ہیں ان کی اولاد کو تو صرف یہی معلوم ہو گا کہ پردادا پاکستان میں تھا۔ آج میرا بیٹا، جو بیرون ملک ہے، اپنے بچوں کو اردو پڑھا رہا ہے۔ دن بھر کام کر کے تھکا ہوا گھر واپس آتا ہے اور پھر بچوں کو اردو پڑھانے بیٹھ جاتا ہے۔ اب یہ بچے، ملک سے باہر پیدا ہو کر بھی، ملک سے باہر رہتے ہوئے بھی، اردو لکھ لیتے ہیں، اردو میں کہانیوں کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں اور پنجابی بولتے ہیں‘ مگر پچاس سال بعد، ان کے بچے نہ جانے کس ملک میں ہوں اور کون سی زبان بولیں؟ اردو اور پنجابی کا تو شاید سوال ہی نہ پیدا ہو۔ خاندان کے بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کر لیں یہ بھی بہت بڑی بات ہو گی۔
پچاس سال بعد میرا نام و نشان کہیں نہیں ہو گا۔ جو مجھے جانتے ہیں، ان میں سے بھی، بہت کم، گنتی کے چند لوگ، باقی ہوں گے۔ میری نام نہاد تصانیف کسی بک شاپ میں نہیں ہوں گی۔ تیس پینتیس برس کی کالم نگاری پر کسی ریسرچ کرنے والے کی نظر پڑ جائے تو پڑ جائے ورنہ تاریخ کے ورق پر یہ ایک کثیف دھبے سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اُس کثیف دھبے پر بھی شاید ہی کسی کی نظر پڑے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ کبھی ان گلی کوچوں میں، میں چلتا پھرتا تھا، ان شاہراہوں پر ڈرائیو کرتا تھا۔ آدھے سے زیادہ شہر مجھے جانتا تھا۔ ملک بھر میں میرے دوست، احباب اور محبت کرنے والے موجود تھے۔ کلب جاتا تھا تو ہر طرف سے ہیلو ہائے اور صاحب سلامت کی آوازیں آتی تھیں۔ پچاس سال بعد دنیا اِسی رفتار سے چلتی ہوئی، بہت دور جا چکی ہو گی۔ میں وقت کی جس دھول میں گم ہو چکا ہوں گا۔ اُس دھول کا بھی نشان باقی نہ ہو گا۔