مجھے آج تک نہیں معلوم ہوا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ کس بات پر خوش ہوتا ہوں اور کس پر مغموم ہوتا ہوں؟
دُکھ کی بات ہے کہ اسلامو فوبیا کے ایک مریض نے‘ ایک دہشت گرد نے کینیڈا میں ایک پورے مسلمان خاندان کو روند کر شہید کر ڈالا۔ اس کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے‘ مگر میں اس حقیقت کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں کہ کینیڈا کے ہزاروں غیر مسلم شہریوں نے اس دہشت گردی کی مذمت میں جلوس نکالا اور سات کلو میٹر چلے۔ ایسے احتجاجی جلوس وہاں کے کئی شہروں میں نکالے گئے۔ قومی ٹیلی وژن پر اذان نشر کی گئی۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ کینیڈا میں نسل پرستی اور نفرت کا وجود نہیں ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہسپتال میں پڑے ہوئے بچے کے سامنے ہم اس قتل و غارت کی کیا تشریح کریں گے؟ ہم ان خاندانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلامو فوبیا کوئی چیز نہیں!
اور پولیس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ڈرائیور نے جان بوجھ کر اس خاندان کو مارا کیونکہ وہ مسلمان تھے‘ یہ ناقابل بیان نفرت کا شاخسانہ ہے اور اسلاموفوبیا کا! مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب یہاں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو میں ایسا اعتراف کیوں نہیں کر پاتا؟ جب سندھ کے کئی خاندان بارڈر پار کر کے چلے گئے تو میں نے کیوں کچھ نہ کہا؟
صادق خان لندن کا میئر بنتا ہے تو میں گھی کے چراغ جلاتا ہوں۔ میں بار بار شمار کرتا ہوں کہ برمنگھم میں، اور بریڈ فورڈ میں، اور اولڈ ہیم میں اور بلیک برن میں، اور آکسفورڈ اور لیڈز میں، اور شیفیلڈ میں اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں کتنے مسلمان میئر اور کونسلر رہے ہیں اور ہیں۔ میں فخر سے بتاتا ہوں کہ امریکی صدر کے فلاں مشیر اور فلاں ساتھی مسلمان ہیں۔ مگر کیا ایسی پوزیشنیں میں اپنے ہاں غیر مسلموں کو دینے کے لیے تیار ہوں؟ اپنی فتوحات گنواتے وقت میں فخریہ اعلان کرتا ہوں کہ آسٹریلیا میں اور نیوزی لینڈ میں اور امریکہ میں اور یورپ میں اتنی مسجدیں ہیں اور اتنے اسلامی مدارس چل رہے ہیں‘ مگر جب یہاں کوئی مندر بننے لگتا ہے تو میں آسمان سر پر اٹھا لیتا ہوں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسا رویّہ میرا کیوں ہے؟ دوسرے ملک ایک کام کریں تو میرا سر فخر سے تن جاتا ہے۔ یہی کام میں اپنے ملک میں نہیں کرنا چاہتا۔ کیا یہ ڈر ہے؟ یا نفاق ہے؟ یا تعصب؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ جس مغرب کی رات دن میں مذمت کرتا ہوں، جس پر رات دن الزام لگاتا ہوں کہ میرے خلاف سازشیں کرتے ہیں، بیمار ہو جاؤں تو علاج وہاں کے ہسپتالوں میں کراتا ہوں۔ بچے میرے وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ زندگی کی سب سے بڑی خواہش وہاں جا کر مقیم ہونا ہے۔ پانچ کروڑ سے زیادہ کی تعداد میں مَیں وہاں آباد ہوں۔ ہر مغربی ملک کے سفارت خانے کے باہر میں قطار میں کھڑا ہوں کہ ویزا مل جائے یا ہجرت کی اجازت دے دی جائے۔ روزمرہ کے اخراجات تک کے لیے قرضے اسی مغرب کے مالی اداروں سے لیتا ہوں۔ لائف سیونگ ادویات وہاں سے منگواتا ہوں۔ جہاز، آب دوزیں، کاریں، کمپیوٹر، موبائل فون، یہاں تک کہ ریفریجریٹرز کے کمپریسرز تک انہی سے خریدتا ہوں۔ وبا پھوٹ پڑے تو ویکسین وہی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی اترن میرے بازاروں میں ہزاروں لاکھوں ٹنوں کے حساب سے بکتی ہے جس سے میں اپنا تن ڈھانکتا ہوں۔ شہر شہر ان کے پہنے ہوئے جوتے فروخت ہوتے ہیں جنہیں میں شوق سے خریدتا ہوں۔
جو ماہرینِ اقتصادیات، پلاننگ کمیشن، وزارت خزانہ، وزارت اقتصادی امور، وزارت تجارت اور سٹیٹ بینک میں بیٹھے ہیں اور جو میری معیشت کی گاڑی کو چلا رہے ہیں‘ وہ سب کے سب اسی مغرب کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مصر سے یا عرب سے یا برونائی سے یا سمرقند سے پڑھ کر نہیں آیا۔ معاشیات کی جتنی تھیوریاں ہیں خواہ ٹرمز (Terms) آف ٹریڈ کی تھیوری ہے یا قانونِ طلب (لا آف ڈیمانڈ) ہے یا روسٹو صاحب کی پانچ مراحل والی تھیوری ہے، سب مغرب سے آئی ہیں۔ ابھی تک میں کوئی ایسا معیشت دان پیدا نہیں کر سکا جو ایڈم سمتھ یا لارڈ کینز، یا پال سیموئل سن، یا الفریڈ مارشل، یا اِروِنگ فشر کے نظریات کا توڑ پیش کر سکے یا جواب ہی دے سکے۔ میرے تعلیمی اداروں میں پبلک ایڈمنسٹریشن ہو یا بزنس ایڈمنسٹریشن، فزکس ہو یا حیاتیات، کمپیوٹر سائنس ہو یا سوشل سائنسز، سب کچھ وہیں سے آیا ہے۔ میرے جس طالب علم نے سائنس میں یا ٹیکنالوجی میں یا کمپیوٹر میں یا اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کرنی ہو یا بیرسٹر بننا ہو یا سرجن بننا ہو یا فزیشن بننا ہو وہ تیونس یا کویت یا تہران یا رباط یا خرطوم یا ریاض یا بخارا یا سکندریہ نہیں جاتا، وہ لندن یا آکسفورڈ یا بوسٹن یا ٹورنٹو یا پیرس یا میونخ یا سڈنی جاتا ہے۔ میں ان کفار کی تباہی کے لیے صبح شام دعائیں مانگتا ہوں مگر لطیفہ یہ ہے کہ پنسلین سے لے کر اینٹی بایوٹک ادویات تک، بائی پاس آپریشن سے لے کر گردوں، جگر، آنکھوں اور دل کی پیوند کاری تک میرے سارے کام یہی کفار ہی تو کر رہے ہیں۔ میں ٹی بی سے روز مرتا تھا، ان کم بختوں نے اس کی دوا بھی ایجاد کر ڈالی۔ آنکھ میں اترا ہوا موتیا اچھا بھلا اندھا کر دیتا تھا مگر فرانس کے ایک کافر نے 1784ء میں اس کا علاج بھی ڈھونڈ نکالا اور آج یہ سرجری گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں ہوتی ہے۔ میں چراغ کی روشنی میں پڑھتا تھا، اہل مغرب نے مجھے بلب دیا۔ میرے گھر کی چھت سے کپڑے کا بنا ہوا پنکھا لٹکا ہوتا تھا‘ جسے میرا ملازم رسی سے کھینچ کر مجھے ہوا پہنچاتا تھا۔ ان مغربیوں نے مجھے برقی پنکھا بنا کر دیا۔ میں اپنی شاعری میں جام جمشید کے مزے لیتا تھا انہوں نے مجھے ٹیلی وژن بنا کر دیا جو اصل میں دنیا کے مناظر دکھاتا ہے۔ میں حج کرنے گھوڑوں‘ اونٹوں یا بادبانی جہازوں سے جاتا تھا اور کئی کئی سال کے بعد واپس آتا تھا یا وہیں مر جاتا تھا یا راستے میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا تھا۔ ان سفید فام لوگوں نے ہوائی جہاز بنایا جس کے بعد حج ہفتوں کا معاملہ ہو گیا ہے۔ میں لاہور سے دلی یا دلی سے لکھنؤ بیل گاڑی سے جاتا تھا، ان کرسٹانوں نے ٹرین چلا دی۔ وسطی ہند میں جب ٹرین پہلی بار چلی تو میں ڈانگیں اور سوٹے لے کر اس بلا سے لڑنے آ گیا تھا۔
میں بڑ تو ہانکتا ہوں کہ ناسا سے لے کر مغرب کے بڑے بڑے ہسپتالوں اور آئی ٹی کی کمپنیوں تک میرے بندے بھی کام کر رہے ہیں اور سائنسی پیش رفت میں اس طرح میرا بھی حصہ ہے مگر میرے پاس، سچ پوچھو تو، اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ یہ بندے میرے ملک میں یا دوسرے مسلمان ممالک میں یہی کام کیوں نہیں کر رہے یا کیوں نہیں کر سکتے؟
اس سب کچھ کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ میں برگزیدہ ہوں اور اہل مغرب مجھ سے کمتر ہیں۔ یہ میرا دعویٰ ہے۔ یہ اور بات کہ میرے پاس اس دعوے کی دلیل کوئی نہیں۔ میں نے شروع میں بتایا تھا نا کہ مجھے معلوم نہیں میں کیا چاہتا ہوں!!!