قومی ایئر لائن ‘ ریلوے اور سرکاری سٹیل مل جو ''بے مثال‘‘ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور جس طرح دھڑا دھڑ '' منافع'' کما رہے ہیں ‘ اس کا حال تو ہم آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔آج ایک اور سرکاری ادارے پاکستان پوسٹ یعنی محکمہ ڈاک کا حال بھی سن لیجیے۔
ان سطور کے لکھنے والے کو اوسطاً تین سے چار کتابیں اور رسالے ہر روز وصول ہوتے ہیں یعنی ایک ماہ میں تقریباً ایک سو کے لگ بھگ۔ یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جاتی ہے کہ کتاب پاکستان پوسٹ کے ذریعے بھیجی گئی ہے یا نجی کوریئر کمپنی کے ذریعے! دیکھا یہ گیا ہے کہ پچھتر‘ اسی فیصد کتابیں ارسال کرنے والے کوریئر سروس استعمال کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے ؟ یہ وجہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔حکومت ‘ خاص طور پر ہماری حکومت‘ جو بھی ہو اور جس پارٹی کی بھی ہو‘ بزنس نہیں کر سکتی۔ سست روی وہ بھی انتہا درجے کی!سرخ فیتہ‘ افسرشاہی کا مجرمانہ تغافل ‘ ناقابلِ رشک بے نیازی! ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والا رویہ ! یہ سب کچھ بزنس میں قابل قبول نہیں ہو تا۔ بزنس کا اصول ہے کہ گاہک ہمیشہ درست ہوتا ہے مگر جب کاروبار سرکار کر رہی ہو تو پھر گاہک رعایا بن جاتا ہے اور ہمیشہ سرکار ہی درست ہوتی ہے۔ آپ کا کسی کوریئر کمپنی کے ساتھ کوئی معاملہ ہو جائے ‘ کوئی جھگڑا یا شکایت ہو تو انٹر نیٹ پر ایک منٹ میں اس کے کسی سینئر ذمہ دار انچارج کا نمبر مل جائے گا۔ اسے بتائیں گے تو وہ آپ کو واپس جواب دے گا۔ میل کریں گے تو کوئی نہ کوئی آپ سے رابطہ کر کے مسئلے کو حل کرنے کی پوری کوشش کرے گا‘ مگر پوسٹ آفس کی شکایت آپ کس سے کریں گے ؟ دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے سے در تو نہیں بنتا۔ خیبر پختونخوا کے ایک شہر میں ایک دوست کو چند دن پہلے کتاب بذریعہ پارسل بھیجی۔ پورے ٹکٹ لگائے۔پوسٹ مین نے کتاب ڈیلیور کی تو کچھ رقم بھی چارج کر لی۔ متعلقہ پوسٹ آفس سے شکایت کی کہ یہ رقم نہیں لینی چاہیے تھی۔ کیوں لی گئی؟ آج تک کسی نے مُڑ کر کچھ بتایا نہ خبر لی !
کوریئر کمپنیوں کی دیکھا دیکھی اب پاکستان پوسٹ نے بھی باکس کی پیشکش شروع کی ہے‘ یعنی پارسل بھیجنا ہے تو سامان ان کے فراہم کردہ باکس میں رکھ کر بند کر دیجیے۔ اچھی بات ہے۔ مگر آگے کیا ہو رہا ہے ؟ کوریئر کمپنی آپ سے اس باکس کی الگ سے قیمت نہیں لیتی۔ہاں! بھیجے جانے والے سامان کے ساتھ اس کا بھی وزن ہوتا ہے۔ کچھ دن پہلے اس کالم نگار نے اپنی پوتی کے لیے چند ملبوسات بیرونِ ملک بھیجنے تھے۔ کورونا کے سبب ملاقات تو دو سال سے ہو نہیں رہی۔ دادا دادی نے سوچا چلئے اسی طرح شوقِ ملاقات کو کچھ دیر کے لیے ‘ پراکسی کے ذریعے‘ داد دیجیے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے بجائے ریاستی ادارے کے پاس جائیں تاکہ فائدہ قومی خزانے کو ہو۔ پوسٹ آفس والوں نے باکس دیا کہ سامان اس میں ڈالیے۔ اس کی قیمت الگ سے لی۔ پھر وزن بھی سامان کے ساتھ اس کا کیا۔ وزن کا معاملہ یہ ہے کہ فرض کیجیے آپ کے سامان کا وزن چھ کلو پچاس گرام ہے تو آپ سے دام پورے سات کلو کے لیے جائیں گے۔ یہی ہمارے ساتھ ہوا۔ سامان کا وزن چھ کلو سے کم تھا۔ با کس کے ساتھ چھ کلو ایک سو گرام ہوا۔ بتایا گیا کہ یہ سات کلو شمار ہو گا۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ جب آپ بکس کی قیمت الگ سے لے رہے ہیں تو اس کا وزن تو نہیں ہونا چاہیے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب کہنے لگے بات آپ کی سولہ آنے درست ہے مگر پاکستان پوسٹ کا رُول اسی طرح ہے۔ ساتھ ہی متعدد فارم بھی ہاتھ میں تھما دیے کہ یہ بھی بھریے۔ ایک طویل پراسیس ! پورا گھنٹہ صرف ہوا۔ اس کا موازنہ نجی شعبے سے کیجیے۔ کوریئر کمپنی یہی کام پندرہ بیس منٹ میں کر دے گی۔ سیکرٹری مواصلات (کمیونیکیشن) سے بات کی جو پاکستان پوسٹ کے حاکم ِاعلیٰ ہیں۔ ظفرحسن ایک خوش اخلاق افسر ہیں۔ پوری توجہ سے بات سنی۔ انہی کی ہدایت پر پاکستان پوسٹ کے سربراہ نے فون کر کے مسئلہ پوچھا۔ سربراہ نے بھی یقینا کسی کو آگے حکم دیا ہو گا۔ اب یہاں نجی شعبے اور سرکاری شعبے کا فرق عیاں ہوتا ہے۔ نجی شعبے میں حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور اس کے بعد ''رپورٹ بیک‘‘ کا ایک مربوط نظام ہوتا ہے۔سرکاری شعبے میں حکم بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ اسے واپسی کی راہ نہیں ملتی۔حکم اور تعمیلِ حکم دونوں پروٹوکول کی راہداریوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہاں سے راستہ ملے تو درجہ بندی (Hierarchy )کی غلام گردشوں میں کھو جاتے ہیں۔
کسی بھی کوریئر کمپنی کی کسی بھی برانچ میں چلے جائیے‘ ایک چست سمارٹ نوجوان کمپیوٹر پر بیٹھا ہو گا۔ برق رفتار ی سے ‘ ٹھَک ٹھَک کام کر تا‘ کمپیوٹر سے رسید نکال کر آپ کے حوالے کرے گا۔ جتنی دیر میں آپ اس کی برانچ کے دروازے سے باہر نکلیں گے‘ اتنی دیر میں وہ اگلے کلائنٹ کو بھی فارغ کر چکا ہو گا۔ اس کے مقابلے میں پوسٹ آفس میں‘ ابھی تک کمپیوٹر کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہی رجسٹر‘ وہی کاربن پیپر‘ وہی بال پین! سہولتوں کی شدید کمی! کہولت کے مارے قابل ِرحم‘ مسکین سے ملازمین کبھی نئے پنکھے کے لیے اوپر درخواستیں بھیجتے ہیں تو کبھی ایئر کنڈیشنر کے لیے۔کوریئر کمپنیوں نے اپنے جہاز لے لیے مگر ہمارے پوسٹ مین ‘ بارش ہو یا دھوپ‘ آندھی ہو یا طوفان‘ بمشکل سائیکل سے موٹر سائیکل تک پہنچ پائے ہیں۔ کیا عجب‘ کسی دور دراز مستقبل میں ‘ کسی آنے والی صدی میں ‘ ان بے نوا درماندگان کو گاڑی کی ''لگژری ‘‘ نصیب ہو۔ کیا پتا‘ ہم نہیں تو ہمارے پوتے اور نواسے اپنی ضعیفی میں کمپیوٹر والے ڈاکخانے دیکھ لیں۔
ریل اور ڈاک سے ہمارا دو صدیوں پر پھیلا ہوا رومانس وابستہ ہے۔ ہمارے گاؤں میں ڈاکیا ہفتے میں دو بار آتا تھا اور رات ہماری مردانہ حویلی میں گزارتا تھا۔ کبھی اس نے ناغہ نہ کیا۔ یہ سلسلہ اٹھارہ برس رہا۔ اٹھارہ برس‘ ہفتے میں دو بار ‘ ہماری دادی جان نے اسے رات کا کھانا اور صبح کی چائے بھیجی۔ یہاں تک کہ گاؤں میں ڈاکخانہ کھل گیا۔ گاؤں کا ڈاکخانہ کیا ہوتا تھا‘ سکول ماسٹر کو یا کسی پڑھے لکھے دکاندار یا کسان کو ڈاکخانے کا چارج دے دیا جاتا تھا۔ بیس روپے ماہانہ اس ڈیوٹی کا معاوضہ ملتا تھا۔ رومانس وہیں رہا۔ وقت آگے نکل گیا۔ ہمارے ادارے وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکے۔ کوریا اور جاپان کی کمپنیوں نے وقت کی مثالی پابندی کے ساتھ بسیں اس اہتمام سے چلائیں کہ ریل اور جہاز دونوں کو ڈینٹ ڈال دیے۔ موٹر وے نے بھی کردار ادا کیا۔ اسی طرح کوریئر کمپنیوں نے کپڑے کے سلے ہوئے پارسلوں کا زمانہ ختم کر دیا۔گتے کے خوبصورت باکس آگئے۔ اپنے پیاروں کو کیک بھیجنا ہے یا مٹھائی یا پھل یا گلدستہ‘ یا غبارے یا چاکلیٹ‘ کوریئر کمپنی کے نزدیک ترین دفتر جائیے‘ قیمت ادا کیجیے‘ دوسرے دن تحفہ پہنچ جائے گا۔ پاسپورٹ یا کوئی اور اہم دستاویز بھیجنی ہے تو اس کے لیے خصوصی مضبوط لفافے الگ سے موجود ہیں۔ بڑی بڑی کوریئر کمپنیوں کا ایک ایک آؤٹ لیٹ ہر بڑے شہر میں ‘ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے جہاں سے رات دن میں کسی بھی وقت آپ ملک کے اندر یا باہر‘ پارسل یا خط بھیج سکتے ہیں۔ ریاستی اداروں سے پاکستانیوں کو محبت ہے مگر وہ ان اداروں کو یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ع
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا!