ہم آخری چھ میں ہیں!
آخری چھ میں ہمارے ساتھ اور کون کون ہے ؟ پہلے چھ والے کون ہیں؟ ہم آخری چھ میں کیوں ہیں ؟ پہلے چھ میں کیوں نہیں ؟ آخری چھ میں ہمارے دیگر پانچ ساتھی صومالیہ‘ یمن‘شام‘عراق اور افغانستان ہیں! پہلے چھ میں جاپان‘ سنگاپور‘ جنوبی کوریا‘ جرمنی‘ اٹلی اور فن لینڈ ہیں۔
یہ مقابلہ جس میں ہم سب سے پیچھے رہ جانے والوں میں شامل ہیں‘ گھوڑ دوڑ کا ہے نہ بیلوں کی دوڑ کا! کتوں کی لڑائی ہے نہ مرغوں کی! یہ بسنت کی پتنگ بازی بھی نہیں! یہ پاسپورٹوں کا مقابلہ ہے۔ پاسپورٹوں کی ریس ہے۔ اس مقابلے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ضعیف پاسپورٹ کس کس ملک کا ہے اور طاقتور پاسپورٹوں کے خوش بخت مالکان کون ہیں ؟
طاقتور پاسپورٹ وہ ہیں جن کا زیادہ سے زیادہ ممالک کھلی بانہوں اور ہنستے چہروں کے ساتھ استقبال کرتے ہیں ! اول تو ویزے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر ویزا درکار بھی ہے تو آمد پر فوراً دے دیا جاتا ہے۔ جاپانی پاسپورٹ‘ تازہ ترین سروے کی رُو سے دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ ہے۔ جاپانی باشندے 193ملکوں میں ویزے کے بغیر داخل ہو سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تکلف ہو بھی تو بس اتنا کہ کچھ ملکوں میں جہاز سے اترنے کے بعد ویزا دے دیا جاتا ہے۔ کسی جاپانی کو سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ویزے کے لیے فارم بھر نا پڑتا ہے نہ ویزا فیس دینا ہوتی ہے نہ سفارت خانوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں نہ انتظار کی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ ٹریول ایجنٹ بھی ٹکٹ دیتے ہوئے ویزے کا نہیں پوچھتا۔ دوسرے نمبر پر سنگاپور کا پاسپورٹ ہے جسے192ملکوں میں ویزے کے بغیر خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد جنوبی کوریا اور جرمنی کا نمبر آتا ہے جن کے پاسپورٹ191ملکوں میں سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اٹلی اور فن لینڈ کا نمبر ہے۔اس خوش قسمت اور باعزت فہرست میں ملائیشیا کا تیرہواں نمبر ہے۔ یو اے ای پندرہویں نمبرپر ہے۔ ہمارا دوست ترکی چھپن نمبر پر ہے۔ترکی کا پاسپورٹ ایک سو گیارہ ملکوں میں ویزے کے بغیر قبول کر لیا جاتا ہے۔ بھارت کا نمبر کافی نیچے ہے مگر پھر بھی پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہے یعنی نوے90نمبر پر۔ اس کے پاسپورٹ کی ویزا فری قبولیت اٹھاون ملکوں میں ہے۔ آخری چھ نمبروں پر صومالیہ‘ یمن‘ پاکستان‘شام‘ عراق اور افغانستان ہیں۔ پاکستان ایک سو تیرہویں نمبر پر ہے۔ افسوسناک اتفاق دیکھیے کہ ملائیشیا کا نمبر تیرہ اور پاکستان کا ایک سو تیرہ ہے۔ پاکستانی صرف بتیس ملکوں میں ویزے کے بغیر جا سکتے ہیں یا پہنچنے پر ویزا دیا جا سکتا ہے۔ ان ملکوں میں کُک آئی لینڈز‘ ڈومی نیکو‘ ہیٹی‘ گمبیا‘ٹرینی ڈاڈ‘ وناتو‘کمبوڈیا‘ کینیا‘مڈغاسکر‘ ماریطانیہ‘ روانڈا‘ نیپال‘ صومالیہ‘ ٹوگو اور کچھ اور ملک شامل ہیں جن کے نام اس قدر غیر معروف‘ مشکل اور عجیب ہیں کہ لکھنا مشکل لگ رہا ہے۔ سو‘ اگر آپ ویزا حاصل کرنے کی تکلیف سے بچنا چاہتے ہیں اور سیر سپاٹا بھی کرنا چاہتے ہیں تو بیگ میں کپڑے ڈالیے اور ٹوگو‘ ہیٹی‘ یا صومالیہ وغیرہ کی طرف نکل جائیے۔ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ انجوائے کیجیے۔ ہاں قابلِ ذکر اور معروف ملکوں میں قطر واحد ملک ہے جہاں پاکستانیوں کو ایئر پورٹ پہنچنے پر ویزا دے دیا جاتا ہے۔بدترین پاسپورٹ افغانستان کا ہے‘ یعنی ضعیف ترین ! یہ بالکل آخری نمبر پر ہے۔اس کی پذیرائی چھبیس ملکوں میں ہوتی ہے اور یہ کسی بھی ملک کے حوالے سے سب سے کم تعداد ہے۔
اب آپ آخری چھ ملکوں پر غور کیجیے ! افغانستان‘ عراق‘ شام‘ پاکستان‘ یمن اور صومالیہ میں آپ کو قدر مشترک کیا نظر آتی ہے؟ سیاسی عدم استحکام ! امن و امان کا نہ ہونا! انسانی زندگی کی ناقدری ! انہی حوالوں سے پہلے چھ ممالک قابل رشک شہرت رکھتے ہیں۔ جاپان ہے یا سنگا پور‘ جرمنی ہے یا فن لینڈ‘ آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیاسی استحکام‘ امن و امان اور انسانی جان کی اہمیت کے لحاظ سے یہ ملک کہاں کھڑے ہیں۔ آئر لینڈ‘ فرانس‘ سویڈن‘ یو اے ای‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ نیدر لینڈڑ‘ آسٹریا وغیرہ بھی اسی خوش قسمت بریکٹ میں آتے ہیں۔
دلچسپ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ پاسپورٹ کے حامل کا اس قبولیت یا عدم قبولیت میں کوئی قصور ہے نہ کردار ! آپ شریف آدمی ہیں‘ دیانت دار ہیں‘ ٹیکس پورا ادا کرتے ہیں‘اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘مالدار ہیں‘ آپ کبھی جیل نہیں گئے‘ مگر چونکہ آپ صومالیہ کے ہیں یا افغانستان کے یا پاکستان کے یا عراق کے‘ اس لیے آپ کا پاسپورٹ کمزور ہے۔ یعنی
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
اس کے بر عکس آپ چور ہیں‘ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں‘ آپ کو کوئی شریف آدمی منہ نہیں لگاتا مگر چونکہ آپ کا پاسپورٹ امریکہ کا ہے یا جنوبی کوریا کا‘ اس لیے آپ کے پاسپورٹ کی ہر ملک میں عزت ہو گی اور آپ کو سفر پر نکلنے سے پہلے ویزا لگوانے کی چکی میں پیسا نہیں جا سکے گا۔
اگر پاسپورٹ کے حامل کا کوئی قصور ہے نہ کردار تو پھر کون کون سے عوامل ہیں جو پاسپورٹوں کو طاقتور بناتے ہیں؟ ان عوامل میں پہلے نمبر پر بین الاقوامی معاہدے اور سفارتی سمجھوتے آتے ہیں۔ یورپی یونین کی مثال سر فہرست ہے۔ اٹھائیس ممالک یورپی یونین کے ممبر ہیں۔ ان اٹھائیس ممالک کے شہری ان اٹھائیس ملکوں میں ویزے کے بغیر سفر کر سکتے ہیں‘ مگر اس معاہدے کی وجہ سے ان ممالک کے پاسپورٹوں کی یورپ سے باہر بھی عزت کی جاتی ہے۔ بہت غیر یورپی ملک بھی یورپی باشندوں کو ویزے کے بغیر سفر کی اجازت دیتے ہیں یا پہنچنے پر ویزا دے دیتے ہیں۔ بدلے میں ان ملکوں کو یورپ میں بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے؛ چنانچہ آسٹریلیا‘ ملائیشیا‘ برازیل اور جنوبی کوریا کو یورپ آنے جانے میں کسی ویزے کی ضرورت نہیں۔ کامن ویلتھ ممالک کو بھی یہی سہولت حاصل ہے‘ یعنی وہ ممالک جو پہلے برطانیہ کی عملداری میں رہے جیسے‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ۔ چھوٹے ملک جیسے فجی یا انٹیگو(Antigua)بھی اس گنگا میں اشنان کر رہے ہیں۔ بلا شبہ پاکستان بھی کامن ویلتھ کلب کا ممبر ہے۔ ہمیں بھی برطانوی غلامی کا 'اعزاز‘ حاصل رہا ہے‘ بلکہ ہم تو ذہنی طور پر آج بھی غلام ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا پاسپورٹ اُس عزت سے محروم ہے جو دوسرے کامن ویلتھ ملکوں کو حاصل ہے۔ اس کا سبب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی شہرت دھماکے ہیں اور نان سٹیٹ ایکٹر!
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
ہم تسلیم کریں یا نہ کریں‘ باہر کی دنیا میں ہمارا ایک امیج بن چکا ہے۔ ہم اس امیج کو بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتنا ہو گا!
پاسپورٹ کو طاقتور بنانے والا ایک اور اہم عامل مضبوط معیشت ہے۔ اس وقت دنیا کی ٹاپ کی دس معاشی قوتوں میں سے سات (امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ کینیڈا ) طاقتور ترین پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ممالک کے شہریوں پر ویزا کی پابندیاں اس لیے بھی نہیں لگائی جاتیں کہ ان شہریوں کی مالی حالت صحت مند ہوتی ہے۔ بزنس میں پیسہ لگاتے ہیں یا سیاحت پر! دونوں صورتوں میں میز بان ملک کو فائدہ ہے۔ پھر ان سے یہ ڈر بھی نہیں ہوتا کہ قابون شکنی کریں گے‘ واپس جانے کے بجائے یہیں چھپ جائیں گے اور ناجائز طور پر مزدوری کرتے پھریں گے۔ ایک امیر ملک کے باشندے کو یہ سب کرنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے ؟
اس آئینے میں ہم اپنا چہرا آسانی سے دیکھ سکتے ہیں!