تو کیا دولت کے نشے میں چُور، متکبر لوگ، ہماری خواتین کے سر، جسم سے الگ کرتے رہیں گے؟
اصل سوال یہ ہے کہ قاتل کون ہے؟ ظاہر میں تو قاتل وہ بگڑا ہوا امیر زادہ ہے جس نے یہ لرزہ خیز، گھناؤنا، وحشت ناک اور مہیب جرم کر کے اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر دیا ہے‘ مگر وہ تو ظاہری قاتل ہے۔ اصل قاتل وہ ہے جس نے اس معاشرے کو یہ ظاہری قاتل دیا ہے۔ اصل قاتل وہ ہے جس نے مقتولہ کے والد کو مبینہ طور پر بتایا تھا کہ ''نور میرے بیٹے کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔ جسے مبینہ طور پر ملازمین نے دو بار ہولناک صورت حال سے مطلع کیا مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی، جسے اس کے بیٹے نے بھی مبینہ طور پر بتایا کہ میں لڑکی کو قتل کر رہا ہوں مگر یہ بھی اس کے نزدیک کوئی اہم بات نہ تھی۔
تو یہ شخص کس برتے پر قتل کو ایک عام، معمولی واقعہ سمجھ رہا ہے؟ اس کا بیٹا کس برتے پر فساد فی الارض کا مرتکب ہو رہا ہے؟ دولت! مال! بے تحاشا مال! بے تحاشا دولت! یہ اُس کی دولت ہی ہے جس کی وجہ سے پورے پاکستان کو خدشہ ہے کہ ملزم چھوٹ جائے گا! ایسے شخص کا واحد علاج یہ ہے کہ اسے اپنی دولت کے استعمال سے روک دیا جائے۔ یہ علاج اسلامی فقہ کے پانچوں بڑے مکاتب فکر میں موجود ہے۔ اس قانون کو قانون حجر کہتے ہیں۔ حجر کی ''ح‘‘ کے نیچے زیر بھی پڑھ سکتے ہیں اور زبر بھی! یعنی حِجر بھی اور حَجر بھی! یہ شخص جسے اس کے مال میں تصرف سے روکا جائے گا، سفیہ کہلائے گا۔ سفیہ کی جمع سفہا ہے۔ فقہ حنفی کے دو بڑے ستون امام محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ سفیہ پر حجر کیا جائے گا‘ یعنی اسے اپنے مال میں تصرف سے روکا جائے گا۔ امام شافعیؒ بھی یہی کہتے ہیں۔ مالکی فقہ کی رو سے سفیہ تبذیر کا اور مال میں بخوبی تصرف نہ کر سکنے کا نام ہے۔ جب کسی شخص میں یہ بات پائی جائے تو اس پر حجر کیا جا سکتا ہے۔ عبدالرحمان الجزیری (وفات 1941) جو معروف مصری سکالر ہیں اور جنہوں نے سُنی فقہ کے چاروں مسالک کو یکجا کیا ہے‘ لکھتے ہیں ''جمہور علما اور آئمہ اسلام کی رائے یہ ہے کہ ایسا شخص فاترالعقل یا نابالغ بچوں کے مانند ہے۔ ایسا کرنے میں، (یعنی اسے مال کے تصرف سے روکنے میں) عوام کا بھی بھلا ہے‘ کیونکہ لازمی طور پر ایسا شخص دوسروں کے معاملات انجام دے کر ان کا مال بھی غارت کرے گا‘‘ الجزیری یہ بھی کہتے ہیں کہ مال خرچ کرنے سے روکنا یعنی حجر، بنی نوع انسان کی بہبود پر مبنی ہے۔
حجر کا قانون فقہ جعفریہ میں بھی برابر موجود ہے۔ امام خمینی اپنی معروف تصنیف ''تحریر الوسیلہ‘‘ (جلد سوم) میں لکھتے ہیں ''شرعی اصطلاح میں حجر کا مطلب یہ ہے کہ چند اسباب میں سے کسی ایک سبب کی بنا پر کسی شخص کو اپنے مال میں تصرف نہ کرنے دیا جائے‘‘۔ امام خمینی نے احکام سفاہت کا باب الگ باندھا ہے۔ لکھتے ہیں ''سفیہ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مال کی حفاظت اور اپنی شخصیت کا تحفظ نہیں کر سکتا۔ مال بے موقع صرف کرتا ہے‘ اور بے محل برباد کرتا ہے۔ اس کے معاملات دور اندیشی اور فراست پر مبنی نہیں ہوتے‘ چنانچہ ایسا شخص شریعت کی رو سے ممنوع التصرف ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں ''سفیہ کا مال اس وقت تک اس کو نہیں دیا جائے گا جب تک اس کے صاحبِ رُشد ہونے کا پتہ نہ چل جائے‘ اور اگر اس کی حالت مشتبہ ہو تو اس کا امتحان لیا جائے گا‘‘۔
جو لوگ دولت کی بنیاد پر قتل و غارت کر رہے ہیں، اور قانون کو اپنے پاؤں کی جوتی بنانا چاہتے ہیں، ان کا یہ علاج، پوری دنیا میں، صرف اسلامی فقہ ہی کر سکتی ہے۔ ریاست کو اختیار ہے کہ ایسے امیروں کے گلے میں، جو معاشرے میں کینسر کی طرح ہیں، رسی ڈالے تا کہ وہ اپنی دولت کی بنا پر وہ سب کچھ نہ کریں جو وفاقی دارالحکومت میں کیا گیا ہے اور جس پر ان دولت مندوں کی پیشانیوں پر عرقِ انفعال کا ایک قطرہ تک نہیں ہے بلکہ اسی دولت کی بنا پر اب وہ قاتل کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ امام ابو یوسفؒ اپنی تاریخ ساز تصنیف ''کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں:
''امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی قبیلے یا آبادی میں اگر کوئی بد معاش آدمی ہوتا تو اسے قید کر دیتے۔ اگر وہ آدمی صاحب مال ہوتا تو اس پر اسی کے مال میں سے صرف کیا جاتا۔ بصورت دیگر آپ اس کے اخراجات کا بار مسلمانوں کے بیت المال پر ڈال دیتے۔ آپؓ نے فرمایا: لوگوں کو اس آدمی کے شر سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کے مصارف ان کے بیت المال سے ادا کیے جائیں گے...‘‘۔
کوفہ بسایا گیا تو ابتدا میں مکان بانس اور نرسل سے بنائے گئے۔ انہیں جلد آگ لگ جاتی اور جل کر راکھ ہو جاتے۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ سے پکے مکان بنانے کی اجازت مانگی گئی۔ آپؓ نے اجازت دی مگر اس شرط پر کہ کوئی شخص تین سے زیادہ مکانوں کا مالک نہیں ہو گا۔ مدینہ منورہ میں ایک شخص نے بہت سے گھوڑے رکھ لیے۔ حضرت عمرؓ نے منع کر دیا۔ لوگ درمیان میں پڑے تو آپ نے اس شرط پر اجازت دی کہ چارہ مدینہ کے بازار سے نہیں بلکہ باہر سے منگوائے گا تا کہ ایسا نہ ہو کہ ایک ایک دو دو گھوڑوں کے مالک چارہ ڈھونڈتے ہی رہ جائیں۔ چنانچہ وہ چارہ یمن سے درآمد کرتا تھا۔ یہ دلائل ہیں اس بات کے کہ ریاست اجتماعی مفاد کی خاطر فرد پر پابندیاں لگا سکتی ہے۔ نہیں لگائے گی تو معاشرہ امیروں کی چراگاہ بن کر رہ جائے گا۔
شاہ ولی اللہؒ اپنی معروف تصنیف 'حجۃ اللہ البالغہ‘ میں امیروں کی مادر پدر آزادی کو دیوانے کتے کے زہر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
''... جب شہر کے امرا رقص و سرود، عورتوں کے بناؤ سنگھار، بلند و بالا عمارتوں اور، کپڑوں اور جواہرات میں‘ عجیب و غریب فیشن نکالنے میں روپیہ صرف کریں گے تو اسی قدر شہر کی دیگر مصلحتوں میں کوتاہی ہو جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو لوگ ضروری پیشے کرتے ہیں مثلاً کاشت کار، تاجر، اہلِ صنعت، ان پر تنگی ہو گی اور ان پر زیادہ ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس میں شہر کے لیے بڑا ضرر ہے جو اس کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچ کر تمام شہر کو گھیر لے گا اور دیوانے کتے کے زہر کی طرح اس میں پھیل جائے گا...‘‘۔
یہ زہر ہماری سوسائٹی میں پھیل چکا ہے۔ زیادہ تر دولت مند قانون سے بالا تر ہیں۔
بات ریاست مدینہ کی کی جاتی ہے! تو پھر کہاں ہے قصاص؟ کہاں ہے جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت؟؟ اگر فرات کے کنارے مرنے والے کتے کے بارے میں ریاست مدینہ کے والی سے پُرسِش ہو گی تو پھر شاہ زیب کا قتل کس کے کھاتے میں جائے گا اور کوئٹہ کے چوک پر گاڑی کے نیچے آنے والے ٹریفک وارڈن کی موت کا جواب کون دے گا؟ اسامہ ندیم کے قاتل کب اور کہاں پھانسی لگے؟ مانسہرہ کے چار نوجوانوں کو دن دہاڑے گاڑی کے نیچے دے کر مار دیا گیا! کیا انصاف ہوا؟ لاہور کے زین رؤف کی ماں نے بھری عدالت میں کہا تھا کہ وہ بیٹے کے اُن قاتلوں کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہے جو طاقت ور اور با اثر ہیں۔ تو کیا ریاست بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکی؟ اور اب نور مقدم کا دھڑ سے الگ کیا گیا سر!!