نہیں! اس معاشرے میں یہ ناممکن ہے !
اس معاشرے میں مرد عورت کو کبھی اس قابل نہیں سمجھے گا کہ بغیر اجازت اسے ہاتھ نہ لگائے۔ عورت کا قتل‘ مار پیٹ‘ ریپ‘یہاں ہوتا رہے گا۔ کوئی ایسی چِپ ایجاد ہوئی ہے نہ ہو گی جو پاکستانی بلکہ جنوبی ایشیا کے مرد کے دماغ میں لگائی جائے تو وہ عورت کو چیز نہیں بلکہ انسان سمجھنے لگ جائے۔ آپ اس معاشرے میں عورت کی تذلیل کا اندازہ لگائیے کہ رشتہ کرنے کے لیے اسے باقاعدہ دیکھا اور پسند یا ناپسند کیا جاتا ہے جیسے وہ فرنیچر کا آئٹم ہو۔ دیکھنے اور پسند یا ناپسند کرنے کے بے شمار باعزت طریقے بھی موجود ہیں مگر یہاں باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ لڑکی دیکھنے آرہے ہیں۔ جس معاشرے میں اسوارہ‘ کاروکاری اور ونی آج بھی رائج ہیں‘ جہاں لڑکی پیدا ہونے پر سوگ منایا جاتا ہے‘ جہاں نرس لڑکی کی پیدائش کا بتاتے ہوئے ڈرتی ہے کہ بد سلوکی کا ہدف نہ بنے‘ جہاں بچی کی پیدائش پر‘ اسی وقت‘ ہسپتال ہی میں‘ طلاق دینے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہوں‘ جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ بیگمات بھی بیٹوں کی دوسری شادیاں کراتی ہیں کہ پہلی بیوی تو بیٹیاں ہی جن رہی ہے‘ جہاں‘ اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہوا تو ایک ممبر کے سوا باقی سارا ہاؤس‘ بیک آواز‘ بل کے خلاف تھا۔عمامے‘ چُغے‘ نکٹائیاں‘ واسکٹیں سب ایک ہو گئے۔ یہاں تو ہر مرد کے لاشعور میں یہ بات بچپن ہی سے راسخ کر دی جاتی ہے کہ عورت ناقص العقل ہے۔کبھی اس کی شادی قرآن پاک سے کرائی جاتی ہے۔ ( نعوذ باللہ )۔ کبھی جائیداد میں اس کے جائز حق سے محروم کرنے کے لیے سو حیلے تراشے جاتے ہیں۔ کبھی اسے اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد ان پڑھ بھتیجے یا اپاہج بھانجے کے ساتھ باندھ دیا جا تا ہے۔ جہیز کی باقاعدہ فہرستیں دی جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں ناممکن ہے کہ عورت گھر سے باہر محفوظ ہو۔ لباس کی بات ناقابل فہم ہے۔ مختاراں مائی نے کون سی جینز پہن رکھی تھی؟ چک بیلی خان کے بازار میں بھیک مانگنے والی نے‘ جسے آبرو ریزی کے بعد اس کے بچے سمیت قتل کیا گیا‘ کون سا بغیر آستینوں کے بلاؤز پہنا ہوا تھا اور کون سی زلفیں پارلر سے آراستہ کروائی ہوئی تھیں۔ یہ دلیل تو‘ رومی کے بقول‘ لکڑی کا پاؤں ہے
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
اس طرح کی منطق بگھارنے والوں کے پاؤں لکڑی کے ہوتے ہیں‘ اور لکڑی کا پاؤں سخت بے وقعت ہو تا ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ اس معاملے میں پولیس‘ انتظامیہ‘ سوسائٹی‘ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔جب ایک مکان کے اندر‘ یا ایک ویران جنگل میں‘ ایک وحشی درندہ‘ ایک لڑکی کے درپے ہے تو وہاں پولیس یا انتظامیہ کیا کر سکتی ہے۔ ہاں جب جرم سرزد ہو جائے تو اس کے بعددیکھا جائے گا کہ پولیس نے کیس دیانت داری سے بنایا یا اس میں جان بوجھ کر جھول رکھے۔ دولت کی چمک اپنا کرشمہ دکھا گئی یا کیس کی تیاری سے لے کر فیصلہ سنائے جانے تک صرف صدقِ مقال اور اکل حلال ہی کا کردار رہا۔ سوال یہ ہے کہ خالی مکان میں یا ویران جنگل میں یا گاڑی کے اندر لڑکی کیسے بچے ؟ ایک ہزار سال بھی سوچتے رہیے‘ سینکڑوں تھنک ٹینک بنا کر ان کی رپورٹیں پڑھ لیجیے۔ لڑکیوں کے بچاؤ کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے سیلف ڈیفنس! اپنا بچاؤ خود! اور یاد رکھیے جب لڑکیوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جانے لگے گی‘ تو دو طبقات سب سے زیادہ مخالفت کریں گے۔ فیوڈل اور مذہبی حضرات۔
ہمیں بتایا جاتا ہے اور فخر کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ صدر اوّل میں مسلمان خواتین گھڑ سواری‘ تیر اندازی اور شمشیر زنی کی ماہر تھیں۔ ایک جنگ میں صحابیاتؓ نے خیموں کی چوبوں سے دشمن کو مار مار کر پسپا کیا تھا۔ امِ عمارہؓ نے احد کے میدان میں مسلح ہو کر آپﷺ کا دفاع کیا۔درجنوں ایسے واقعات تاریخ میں ملتے ہیں۔ حضرت انس ؓکی والدہ ام سلیم ؓغزوہ حنین کے دوران خنجر سے مسلح تھیں۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور ہمیں یہ تاریخ سنائی بھی جاتی ہے مگر ہماری لڑکیوں کی حالت یہ ہے کہ چھوئی موئی بن کر رہ گئی ہیں۔ کوئی لڑکا گلی میں چھیڑتا ہے‘ بکواس کرتا ہے یا تعاقب کرتا ہے تو آگے سے zombieکی طرح‘ سر جھکا کر چلتی رہتی ہیں۔ ہاتھ اٹھتا ہے نہ لات بدمعاش کے پیٹ پر پڑتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدمعاش کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ وہ ہراساں کرنے کے اس عمل کو روز کا معمول بنا لیتا ہے اور اپنے سفلہ دوستوں کو بھی ساتھ لے آتا ہے۔ یاد رکھیے‘ چور اور غنڈہ بنیادی طور پر بزدل ہوتا ہے۔ عورت سے تھپڑ کھانے کے بعد وہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ اب یہ بدمعاش مسلح بھی رہنے لگے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لڑکی اپنے دفاع کی خاطر کیوں نہیں مسلح ہو سکتی ؟ کیا یہ کسی آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ لڑکی کے ہینڈ بیگ میں خنجر نہیں ہونا چاہیے ؟ یا اس کے پاس ریوالور ہوا تو وہ دین کے دائرے سے خارج ہو جائے گی؟
یورپ میں سفر کے دوران دیکھا ہوا ایک منظر آج تک نہیں بھولا۔ ریل کے ڈبے میں‘ سامنے والی نشست پر ایک لڑکی اور تین لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ وضع قطع‘ گفتگو اور ہنسی مذاق سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کسی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور چاروں دوست ہیں۔ اتنے میں لڑکی نے اپنے بیگ سے چاکلیٹ نکالی اور کھانا شروع کر دی۔لڑکوں نے حصہ مانگا تو اس نے ہنس کر جھنڈی دکھا دی۔ تینوں لڑکوں نے اس سے بزور چاکلیٹ چھیننا چاہی مگر وہ کھاتی بھی رہی‘ ہنستی بھی رہی اور اپنا دفاع بھی کرتی رہی۔ لڑکوں نے چاکلیٹ والے ہاتھ تک پہنچنے کے لیے پورا زور لگایامگر اس نے تینوں کو روکے رکھا یہاں تک کہ اس نے اپنی چاکلیٹ پوری ختم کر دی۔ پاکستان کے ایک حکومتی دفتر میں پیش آنے والا واقعہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ سیلف ڈیفنس لڑکیوں کے لیے کس قدر لازم ہے۔ شہراور محکمے کا نام نہیں بتاتے نہ کوئی اور اشارہ دیتے ہیں نہ ہی یہ تصریح کرنے کی ضرورت ہے کہ دفتر وفاقی تھا یاکسی صوبے کا۔اس لیے کہ مقصد کسی کی عزت اچھالنا نہیں‘ سبق حاصل کرنا ہے اور فیصلے کی طرف بڑھنا ہے۔ ایک خاتون افسر تھی۔ جوان مگر سخت ریزرو! باس کے کمرے میں جاتی تو کبھی نہ بیٹھتی۔ کھڑے ہو کر کام کی بات کرتی اور پھر واپس۔ ایک دن جوائنٹ سیکرٹری صاحب ترنگ میں تھے۔ انہوں نے بیٹھنے کے لیے کہا اور چائے کی دعوت دی۔ اس نے کہا کہ سر! میں نے کام کی بات کر لی ہے۔ رہی چائے تو وہ میں اپنے کمرے ہی میں پیاکرتی ہوں۔ افسر اٹھا اور اسے بازو سے پکڑ کر شاید بٹھانے کوشش کی۔ اس کے بعد‘ عینی شاہد کہتا ہے کہ نہ جانے کیا ہوا‘ مگر جو کچھ بھی ہوا بجلی کی رفتار سے ہوا اور صاحب زمین پر چت پڑے تھے۔ اس لیے کہ خاتون افسر نے یونیورسٹی سے صرف ایم اے کی ڈگری ہی نہیں لی تھی بلکہ بلیک بیلٹ بھی حاصل کی تھی!
لڑکیوں کے لیے ہر سکول میں‘ خواہ غریبانہ سرکاری سکول ہو یا طبقہ امرا کا گراں بہا سکول‘ سیلف ڈیفنس کی تربیت لازمی کی جائے۔ جوڈو کراٹے ہو یا کَنگ فو یا کِک باکسنگ‘ یا مارشل آرٹ کی کوئی اور قسم‘ خدا کے لیے لڑکیوں کو سکھائیے ورنہ یاد رکھیے یہ ملک ظاہر جعفروں سے لبا لب بھرا ہے !
کیا وزیر اعظم حکم جاریں گے کہ ہر سکول‘ ہر کالج میں لڑکیوں کے لیے سیلف ڈیفنس کی تربیت لازمی ہو گی؟