سِکّہ رائج الوقت

تعلیم تھی، خاندانی نجابت تھی، ذاتی شرافت تھی، اچھی شہرت تھی، مگر اُس کے پلے وہ شے نہ تھی جس کی حکومتی حلقوں میں مانگ تھی۔
یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ اُس نے 'اِن‘ ہونے کی بہت کوشش کی۔ یہ ملک اُس کا بھی تھا۔ وزارتوں، سفارتوں، گورنریوں پر اس کا بھی حق تھا۔ اسے بھی رہنے کے لیے مکان اور مکان کے لیے پلاٹ چاہیے تھا۔ زرعی پلاٹ دھڑا دھڑ بانٹے جا رہے تھے۔ اس نے ادھر ادھر ہاتھ پیر مارے۔ بالآخر ایک شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ ٹاپ لیول تک رسائی رکھتا ہے۔ کسی نہ کسی ذریعے سے اس تک پہنچا۔ آدمی شریف تھا۔ بٹھایا۔ حال احوال پوچھا۔ چائے پلائی۔ پھر اس نے ایک عجیب سوال کیا۔ کیا تم اردن میں رہے ہو؟ ضیاء الحق صاحب جب وہاں تھے، اُس زمانے میں؟ حیرت میں گُم اس نے جواب دیا کہ نہیں! اس کا بھلا اردن میں کیا کام! اس پر اُس شریف آدمی نے ٹھنڈی سانس بھری اور سر کو پہلے بائیں سے دائیں اور پھر دائیں سے بائیں پھیرا۔ پھر اسے سمجھایا کہ جو لوگ اردن میں کسی بھی حوالے سے ضیا صاحب کو ملے تھے، ان کے وارے نیارے ہوئے۔ دوسرا معیار تھا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کچھ نہ کچھ جہاد کیا ہو۔ اس میں بھی اس کی کارکردگی صفر تھی۔ وہ دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے نا اہل نوازے جاتے رہے۔ وہ دل مسوس کر بس حافظ شیرازی کو یاد کرتا رہا۔ کیا پیش گوئی کر گیا تھا یہ با کمال شاعر:
احمقوں کو گلاب اور چینی کے شربت پلائے جا رہے ہیں اور دانا کے پاس پینے کے لیے اپنے خونِ جگر کے سوا کچھ نہیں۔ گدھے کا پالان گھوڑے پر رکھ کر اسے زخمی کر دیا گیا جبکہ سنہری پٹے گدھوں میں بانٹے گئے۔
پھر بی بی کی حکومت آ گئی۔ اب یہ دیکھا جانے لگا کہ کس کس کی پیٹھ پر کوڑوں کے نشان تھے۔ تگڑم لڑانے والے کچھ افراد نے اس کی پیٹھ پر مصنوعی نشان لگوانے کی پیشکش کی مگر اس کی روایتی شرافت اور خاندانی وقار نے یہ حیلہ قبول نہ کیا۔ پھر یادش بخیر میاں صاحب کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ یہاں بھی اس کی دال نہ گلی۔ اس نے ثابت کیا کہ اس کے نانا کی پردادی کا تعلق کشمیر سے تھا‘ مگر معلوم ہوا کہ صرف کشمیری برادری سے تعلق کافی نہیں۔ ساتھ دھن دولت بھی ہونی چاہیے‘ اور اگر کشمیری برادری سے تعلق ہو اور تعلق خواجگان سے ہو اور ریٹائرڈ سول سرونٹ بھی ہو تو وزیر اعظم کے دفتر میں سجا سجایا کمرہ، گھومتی کرسی اور ساری بیوروکریسی پر کُلّی اختیار و اقتدار بھی عطا کر دیا جاتا ہے۔ یوں بھی اقبال، جو خود بھی کشمیری تھے، کہہ گئے ہیں:
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
اس نے کھانے پکانے اور پیش کرنے بھی سیکھے مگر اس نے دیکھا کہ دہی بڑے پیش کرنے والے بڑے بڑے ایوانوں میں متمکن ہو گئے اور وہ جہاں تھا وہیں رہا۔ لطیفہ گوئی میں محنت کی۔ مساج کا فن حاصل کیا مگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ بخت سیاہ تھا! سیاہ ہی رہا!
پھر جنرل پرویز مشرف آئے اور چھا گئے۔ اب سب کچھ بدل گیا۔ پہلے ہر شے میں مذہب کو داخل کیا جاتا رہا۔ اب مذہب ہر شے سے نکالا جانے لگا۔ بغلوں میں سگ بچے داب داب دکھائے جانے لگے۔ ناؤ نوش والے گروہ زور پکڑنے لگے۔ شین قاف تو درست ہو ہی رہے تھے، شین سے شروع ہونے والے اشغال بھی معزز ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب بیوروکریسی میں چار کی چوکڑی راج کرنے لگی۔ جس دن، ایف بی آر کے سربراہ نے بادشاہ کے حضور، بنفس نفیس، رقص کیا اور پہلے بادشاہ کے عہد میں واسکٹیں پہن کر نمازیں پڑھنے والی ٹاپ لیول نوکر شاہی نے رقص پر سر دھُنا اور تالیاں بجائیں تو اس نے بھی اِن ہونے کے لیے رقص سیکھنے کا فیصلہ کیا‘ مگر جلد ہی سمجھانے والے صاحبان عقل نے باور کرایا کہ معاملہ صرف رقص کا نہیں ہے۔ ہمایونی عہد میں جب مینا بازار کا آغاز ہوا اور جہانگیری عہد میں یہ سرگرمی عروج پر پہنچی تو غایت صرف اشیا کی خرید و فروخت نہیں تھی۔ قصہ کوتاہ، یہ عشرہ بھی اس کے لیے مسعود ثابت نہ ہو سکا۔
زمانے نے ایک اور کروٹ لی اور پیش منظر پر ملتان چھا گیا۔ اب تک تو چار ہی تحفے ملتان کے مشہور تھے۔ گرد و گرما، گدا و گورستان مگر اب رنگ رنگ کے تحفے بڑے بڑے مناصب پر نظر آنے لگے۔ اس ملتان نوازی میں ایک شریف آدمی کو تماشا بھی بنا دیا گیا۔ پروفیسر خواجہ علقمہ کو بنگلہ دیش میں سفیر مقرر کیا گیا۔ بچہ بھی بتا سکتا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت یہ سفارت قبول نہیں کرے گی۔ پروفیسر علقمہ، خواجہ خیرالدین کے فرزند تھے جن کا تعلق ڈھاکہ کے معروف نواب خاندان سے تھا۔ خواجہ خیرالدین مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں پاکستان کے حامی تھے۔ بنگلہ دیش بنا تو وہ پاکستان آ گئے۔ بنگلہ دیش کی حکومت ایسے لوگوں کے خون کی پیاسی تھی۔ بطور سفیر کیسے قبول کرتی؟ خواجہ صاحب پر کرم فرمائی کرنا ہی تھی تو کسی اور ملک میں تعینات کرتے۔ بہر طور، جس سیاہ بخت پاکستانی کی بات ہو رہی تھی، اس ملتانی عہد میں بھی وہ محرومِ عنایت ہی رہا۔ ڈومی سائل کہیں اور کا تھا۔
چند دن پہلے وہ میرے ہاں آیا۔ یہ تومجھے معلوم تھا کہ اب وہ اپنی تیرہ بختی کی تفصیلات سنائے گا مگر یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اپنی نا کامی اور نا امیدی کی تان اپنے مرحوم ماں باپ پر توڑے گا۔ چائے پیتے پیتے اس نے سرد آہ بھری۔ پھر رقت آمیز لہجے میں کہنے لگا: میرے ماں باپ پر خدا رحمت کرے! ان کے بے پایاں احسانات ہیں مجھ پر! میں تو اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں اُڑا سکتا تھا۔ میری انہوں نے پرورش کی۔ راتوں کو جاگے۔ دن کا آرام تج دیا۔ پڑھایا لکھایا۔ ادب آداب سکھائے۔ معاشرت کے اصول بتائے۔ مگر اللہ ان پر اپنی رحمتیں بارش کی طرح برسائے، مجھے ان سے ایک گلہ ہے۔
میں حیران ہو رہا تھا کہ اس کے والدین کو دنیا سے کُوچ کیے ایک مدت ہو گئی۔ اس نے آج تک ایسی بات نہیں کی تھی۔ یوں بھی وہ ایک سعادت مند اور فرماں بردار بیٹا تھا۔ زندگی میں بھی اُن کی خدمت کرتا رہا۔ اکثر میں اسے قبرستان میں بھی دیکھتا۔ التزام سے ان کی قبروں کے سرہانے بیٹھا، تلاوت اور دعائیں کرتا پایا جاتا۔ کیسا گلہ؟ ان کو تو دنیا سے رخصت ہوئے ایک عرصہ ہوا۔ اب کیا یاد آیا تمہیں؟ میں نے اس سے پوچھا۔ وہ روہانسا ہو گیا اور بولا: آپ خود سوچیے اگر وہ میرا نام ایسا رکھتے جو ایک خاص حرفِ تہجی سے شروع ہوتا تو آج میرے بھی بخت کا ستارہ چمک اٹھتا۔ جس جس کا نام اس حرف سے شروع ہوتا ہے، اسی کی قسمت جاگ اٹھی ہے۔
اس کے جانے کے بعد میں اس کے اس حسرت آمیز شکوے کے بارے میں سوچتا رہا۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ اگر اس کا نام اُس خاص حرف تہجی سے شروع ہوتا بھی، تو اس کا نصیبہ محرومِ تمنا ہی رہتا۔ اس لیے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ عقل و شعور رکھتا تھا۔ مہذب تھا، لبیک صرف ضمیر کی آواز پر کہتا تھا۔ یہ وہ خصائص تھے جو اسے ایک خاص حرف تہجی کی موجودگی کے باوجود کسی منصب کے لائق نہ ہونے دیتے۔ سکہ رائج الوقت کچھ اور تھا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں