74 سال ایک قوم کی زندگی میں بہت بڑی مدت نہیں مگر اتنی کم بھی نہیں!
اور اتنی کم تو ہرگز نہیں کہ کچھ بنیادی مسئلے بھی اس عرصہ میں طے نہ ہو سکتے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم آج تک یہی فیصلہ نہ کر سکے کہ ہفتہ وار چھٹی جمعہ کے دن ہو گی یا اتوار کے دن! ایک ہی بازار میں جمعہ کے دن کچھ دکانیں کھلی ہوتی ہیں اور کچھ بند! اسی طرح اتوار کے دن بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کون سی دکان بند ہو گی اور کون سی کھلی! راولپنڈی میں راجہ بازار اور پرانے شہر کے دوسرے بازار جمعہ کے دن بند ہوتے ہیں‘ مگر صدر میں، جو بذات خود بہت بڑا کاروباری علاقہ ہے، اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے۔ یعنی مکمل کنفیوژن! ذرا سوچیے کیا یہ اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ صدی کا تین چوتھائی حصہ گزرنے کے باوجود جوں کا توں ہے؟
ایک اور زبردست کنفیوژن امریکہ کے حوالے سے ہے۔ ان 74 برسوں میں ہمیں یہی معلوم نہ ہوا کہ امریکہ ہمارا دوست ہے یا دشمن! ایک بیوقوفی ہماری یہ ہے کہ ہم ملکوں کو بھی اسی پیمانے سے ماپتے ہیں جس پیمانے سے ذاتی دوستی یا دشمنی کو ماپا جاتا ہے۔ آپ میرے دوست ہیں اور پکے دوست تو دوستی نبھاتے ہوئے اپنا نفع یا نقصان نہیں دیکھیں گے۔ یہ ایک جذباتی رشتہ ہو گا۔ میرے دوستوں کو آپ اپنا دوست اور میرے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھیں گے۔ مگر ملکوں کی باہمی دوستی اس طرح کی نہیں ہوتی! بلکہ یہ دوستی ہوتی ہے نہ دشمنی! یہ اپنے اپنے مفادات کا کھیل ہوتا ہے۔ ہم اس سارے عرصہ میں یہ نکتہ جاننے کے باوجود سمجھ نہیں سکے۔ امریکہ نے آنکھیں پھیریں تو ہم نے معشوق کے تغافل کا شکوہ شروع کر دیا۔ مائل ہوا تو وصال کے گیت گانے لگے‘ حالانکہ اس کا تغافل بھی اس کے اپنے فائدے کے لیے تھا اور ہماری طرف میلان ہوا تو وہ بھی ہمارے فائدے کے لیے نہیں تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کسی ملک میں مندر بنا، یا، مودی کی پذیرائی ہوئی تو ہمارے دل میں ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ ہم نے یہ نہ سوچا کہ بھارت ایک وسیع و عریض منڈی ہے‘ اور سرمایہ کاری میں اس کا سٹیمنا ہم سے کہیں زیادہ ہے! امریکہ کے حوالے سے تو ہماری پالیسی سو فی صد دوغلی بھی ہے۔ اسے برا بھلا بھی کہتے ہیں اور گرین کارڈ بھی ہماری آبادی کے غالب حصے کا خواب ہے۔ بے نیازی بھی دکھاتے ہیں اور وہاں سے فون نہ آئے تو آسمان بھی سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ گویا: ؎
با من آویزشِ او الفتِ موج است و کنار
دمبدم با من و ہر لحظہ گریزان از من
یعنی اس کا اور میرا تعلق ایسا ہے جیسے موج کا ساحل کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابھی موج ساحل سے گلے مل رہی ہے اور ابھی دور بھاگ رہی ہے!
بھارت نے تقسیم کے بعد شروع کے برسوں میں ہی جاگیر داری اور زمین داری کے سلسلے میں ایک واضح پالیسی بنائی اور اپنائی! نوابوں اور راجوں مہاراجوں کو قصۂ پارینہ میں بدل ڈالا۔ ہم اس سارے عرصہ میں زرعی اصلاحات ہی نہ لا سکے۔ کوشش ہوئی بھی تو چور دروازوں نے اس کوشش کو بے اثر کر ڈالا۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہے کہ ہاری، عملاً، نسل در نسل، غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے حقوق صفر ہیں۔ ان کی عورتوں کے ساتھ زمین داروں کی حویلیوں میں جو کچھ ہوتا ہے ہم سب کو معلوم ہے۔ یہ ہاری، یہ مزارع، ووٹ اسے دیتے ہیں جس کے بارے میں انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ شوکت صدیقی کا عہد ساز ناول 'جانگلوس‘ کسی تصوراتی دنیا کی روداد نہیں! آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو چالیس سال پہلے اس میں لکھا گیا تھا! زرعی ملکیت کا ڈھانچہ Land ownership pattern میں رمق بھر تبدیلی نہ آ سکی۔ بلوچستان کے سرداری نظام میں ان 74 برسوں میں ایک معمولی سی دراڑ بھی نہیں پیدا ہوئی۔ آج بھی چور کی شناخت جلتے انگاروں پر چلا کر کی جاتی ہے۔ ایک پکا پکا قبائلی نظام! مکمل قبائلی معاشرہ! وزارتیں، گورنریاں، سب سرداروں کی جھولی میں گرتی ہیں!
لیکن سب سے دلچسپ صورت حال نام نہاد قومی زبان کی ہے جس پر اردو کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ 74 برسوں میں ٹھپہ، ٹھپہ ہی رہا، حقیقت میں نہ بدل سکا۔ انگریز کی غلامی آج بھی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اندازہ لگائیے ہمارے بجلی، گیس، فون کے بل تک انگریزی زبان میں ہیں۔ ہم سو روپے کا چیک بھی انگریزی میں لکھتے ہیں۔ شادیوں کے دعوتی کارڈ بھی انگریزی میں چھپتے ہیں یہاں تک کہ جو کنبے انگریزی زبان سے نا بلد ہیں وہ بھی شادی کا کارڈ انگریزی میں چھپوانا پسند کرتے ہیں‘ اور اب تو رومن اردو کا کوڑا بھی اردو کی ننگی، زخمی پیٹھ پر تڑاخ تڑاخ مارا جا رہا ہے۔ یہ ہماری نا مرادی کی تازہ ترین شکل ہے۔ مقتدرہ قومی زبان، جس کا اب نام کچھ اور رکھ دیا گیا ہے، اردو کے سرکاری نفاذ کے لیے بنی تھی۔ اس کی سرکاری ویب سائٹ بتاتی ہے کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام 4 اکتوبر 1973ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان 'اردو‘ کے بحیثیث سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے۔
چالاکی یہ کی گئی اور کی جا رہی ہے کہ چونکہ اردو کا نفاذ افسر شاہی نے کرنا ہے اس لئے مقتدرہ پر ایسے اصحاب کو لگایا جاتا ہے جو افسر شاہی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے۔ کہاں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور کابینہ ڈویژن کے جغادری سیکرٹری، اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے طاقت ور سربراہان اور کہاں اردو کے اساتذہ! ان محترم اساتذہ کے علم و فضل سے انکار نہیں مگر نفاذ کے لیے بیوروکریسی سے معاملات طے کرنا، اور وہ بھی برابری کی سطح پر طے کرنا، ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ اسی لیے مقتدرہ قومی زبان ہر وہ کام کر رہی ہے جس کا اردو کے سرکاری نفاذ سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سو سال بھی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے اخبار اردو نکالتے رہیے، وزارتوں کی فائلوں پر کام انگریزی ہی میں ہوتا رہے گا۔ 2008ء میں جب پروفیسر فتح محمد ملک صاحب مقتدرہ کی صدر نشینی چھوڑ کر اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جا رہے تھے تو مقتدرہ کی سربراہی کے لیے جن تین ناموں کا پینل حکمرانِ اعلیٰ کی خدمت میں بھیجا گیا اس میں ایک نام اس کالم نگار کا بھی تھا۔ میرے ذہن میں ایک واضح اور غیر مبہم پلان تھا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وفاقی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین سے براہ راست معاملات طے کیے جائیں گے اور پھر معاملہ وزیر اعظم کے دفتر تک لے جایا جائے گا۔ اس لیے کہ بیوروکریسی کا چھتیس سالہ تجربہ بھی تھا اور اردو کے نفاذ کا جذبہ بھی دل میں موجزن تھا۔ پہلے مرحلے میں اردو کا پرچہ سی ایس ایس کے امتحان میں لازم کرانا تھا۔ دوسرے مرحلے میں امیدواروں کو اختیار دلوانا تھا کہ چاہیں تو سی ایس ایس کے تمام پرچے (سوائے لازمی انگریزی کے) اردو میں حل کریں اور چاہیں تو انگریزی میں! تیسرے اور فائنل مرحلے میں سی ایس ایس کا سارا امتحان اردو میں دلوایا جانا تھا۔ انگریزی لکھنے اور بولنے کی قابلیت کا بھی امتحان ہوتا مگر صرف ایک مضمون کے طور پر ! رہا امتحان تو اس کا ذریعہ (میڈیم) صرف اردو زبان ہوتی!
کچھ اور بھی بنیادی مسائل ہیں جو ہم اس ساری مدت میں حل نہ کر سکے! مگر خدا کا شکر ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا سفر آگے کی جانب ہے!