بہت شور اٹھا تھا۔
ایک سو پچاس سال پہلے جب سرسیداحمد خان نے کہا تھا کہ اگر انگریز ہمیں جانور سمجھتے ہیں تو درحقیقت ہم ایسے ہی ہیں‘ تو بہت شور اٹھا تھا۔ انہیں کرسٹان تک کہا گیا تھا۔ ڈیڑھ صدی گزر گئی۔ اس طویل عرصے میں کیا ہم انسان بن گئے ہیں ؟ یا جانور کے جانور ہی رہے؟ یا اس سے بھی بد تر ہو گئے ہیں؟ ہم میں سے ہر شخص‘ زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے‘ اس کا جواب جانتا ہے اور خوب اچھی طرح جانتا ہے۔
یومِ آزادی پر گریٹر اقبال پارک میں جو کچھ ہوا اس کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے نہ کسی کو بتانے کی کہ ہم کیاہیں ؟ انسان یا جانور؟ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ بڑے بڑے دانشور‘ بڑے بڑے لکھاری‘ اصل بات کی طرف نہیں آرہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ واقعہ اچانک نہیں پیش آیا۔ اس کے پیچھے ہماری نسلوں کی محنت ہے۔ ایک عورت پر‘ خواہ وہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو‘ پِل پڑنا‘ وحشی ہو جانا‘ اسے نوچنا‘ ایک سوچ ہے‘ ایک رویہ ہے! یہ سوچ‘ یہ رویہ‘ پشت در پشت تربیت کا نتیجہ ہے۔ ان چار سو یا چار ہزار افراد کو ان کے گھروں سے‘ ان کے سکولوں کالجوں سے‘ ان کے گلی ‘ محلوں سے‘ ان کے اعزہ و اقارب سے یہی تربیت دی گئی ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ انہیں تربیت شرافت کی دی گئی تھی اور اس کے باوجود وہ جانور بن گئے تو وہ احمق ہے یا منافق۔ جیسا بیج بویا گیا‘ ویسی ہی فصل تیار ہوئی۔شرم آنی چاہیے ان چار سو یا چار ہزار افراد کے ماں باپ کو ‘ ان کے اساتذہ کو اور ان کے گلی محلوں کے بڑوں کو جنہوں نے یہ سلگتے انگارے اس قوم کو دیے!
قوم کو دیے ؟ کون سی قوم ؟ کیا یہ قوم ہے ؟ یا ایک بے سمت‘ بپھرا ہوا ہجوم ! جس کے آگے کوئی عورت‘ کوئی بچہ‘ کوئی بچی محفوظ نہیں! اور جو اقبال پارک کے المیے پر ماتم کر رہے ہیں ‘ ان کی سوچ پر بھی ماتم کرنا چاہیے! کیا باقی سب ٹھیک ہے ؟ کیا وحشت و بربریت کا مظاہرہ صرف اُسی دن ہوا؟ کیا ہماری ٹریفک انسانوں والی ہے ؟ وہ خوش لباس‘ تعلیم یافتہ شخص جو گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر کے غائب ہو جاتا ہے ‘ کیا وہ انسان ہے؟ اس میں اور جانور میں کیا فرق ہے ؟ کیا کسی نے قومی یا صوبائی اسمبلی میں کبھی پوچھا ہے کہ ایک سال میں ڈمپروں‘ ٹریکٹروں اور ٹرالیوں کے ڈرائیور کتنے افراد کو ہلاک کرتے ہیں؟ کیا یہ ڈرائیور انسان ہیں ؟ اور کیا انہیں سڑکوں پر کھلا چھوڑ دینے والے انسان ہیں ؟ کیا وہ شخص جس نے گھر میں جعلی دواؤں کی فیکٹری لگا رکھی ہے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے‘ کیا وہ انسان ہے ؟
آپ اس بنیادی بات پر غور کیجیے کہ کاؤنٹر پر آپ سودا لے کر ابھی قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ایک شخص آکر‘ آپ کی بات کاٹ کر ‘ کاؤنٹر والے کو پیسے دینے کی کوشش کرتا ہے۔کیا وہ دیکھ نہیں رہا کہ ایک گاہک اس سے پہلے کھڑا ہے ؟ ایک انسان میں اتنی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ کاؤنٹر والا ایک اور گاہک کو ڈیل کر رہا ہے۔ اگر اس میں اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں تو اسے انسان کس طرح کہا جا سکتا ہے ؟ اور ایسا یہاں ہر جگہ‘ ہر روز سینکڑوں بار ہو رہا ہے۔
اس معاشرے میں کون انسان ہے ؟ کیا وہ انسان ہیں جن کے اکاؤنٹس میں کروڑوں اربوں آجاتے ہیں؟ کہاں سے ؟ کسی کو کچھ معلوم ہے نہ وہ خود ہی بتاتے ہیں۔ ملک کے اندر اور باہر مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شرفا بچوں کے رشتے وہاں طے کرتے ہیں جہاں شرافت ہو۔ یہاں مانے ہوئے ‘ رسوائے زمانہ‘ بد عنوان خاندانوں میں فخر سے بندھن باندھے جاتے ہیں اور یہ لوگ کون ہیں ؟ ہمارے مستقبل کے حکمران ! جتنا جھوٹ ‘جتنی عہد شکنی ‘ جتنی فریب کاری‘ جتنی حیلہ گری اس معاشرے میں ہے اور ہر سطح پر ہے اتنی کس مہذب معاشرے میں ہے ؟ کسی سے شکوہ کریں کہ بھائی آپ نے وعدہ کیا تھا! تو آگے سے پوری ڈھٹائی اور کمال بے شرمی سے کہے گا کہ میں نے وعدہ نہیں کیا تھا‘ میں نے تو ایک بات کی تھی ! ذرا سوچیے دکاندار بھول کر ہمیشہ کم رقم کیوں واپس کرتا ہے ؟ کبھی بھول کر زیادہ کیوں نہیں واپس کرتا؟ ادنیٰ سے ادنیٰ تک اور اعلیٰ سے اعلیٰ تک ‘ یہاں کوئی بھی سیدھا نہیں۔ شفافیت کا نام ونشان نہیں! کثافت کے ڈھیر لگے ہیں۔ جہاں واعظ سادہ لوح عقیدت مندوں کو شرعی طریقہ علاج کی تلقین کریں اور خود دل کا عارضہ ہو تو ڈاکٹروں کے پاس جا کر سٹنٹ ڈلوائیں ‘ وہاں ایک عام آدمی کے قول اور فعل میں فرق کیوں نہ ہو ؟ ہمارے قول اور فعل میں تولے یا چھٹانک کا نہیں‘ منوں اور ٹنوں کا فرق ہے! ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں! کوئی افسوس نہیں ! کوئی ندامت نہیں!
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جس کے راہبر وں کو راستے کا علم نہیں ! ہم ہجوم کی صورت کبھی ایک کے پیچھے چلتے ہیں کبھی دوسرے کے پیچھے! پھر جس نے غلط راستہ بتایا تھا‘ بار بار اسی سے پوچھتے ہیں! اسی کے پیچھے چلتے ہیں! ہم ایک دوسال نہیں‘ چار پانچ سال نہیں‘ اکیس سال‘ پورے اکیس سال تبدیلی کے لیے جدو جہد کرتے ہیں! پھر جب تبدیلی لانے کا موقع ملتا ہے تو ہم ‘ تبدیلی لانے کا یہ کام شیخ رشید صاحب‘ عمر ایوب صاحب‘ فہمیدہ مرزا صاحبہ‘ زبیدہ جلال صاحبہ‘ فردوس عاشق اعوان صاحبہ‘ غلام سرور خان صاحب‘ اعظم سواتی صاحب ‘ ڈاکٹر عشرت حسین صاحب ‘ خسرو بختیار صاحب‘ فروغ نسیم صاحب‘ میاں محمد سومرو صاحب ‘ حفیظ شیخ صاحب‘ پرویز الٰہی صاحب اور عثمان بزدار صاحب کو سونپ دیتے ہیں۔ یہ قول آئن سٹائن سے منسوب ہے کہ The definition of insanity is doing the same thing over and over again, but expecting different resultsکہ دیوانگی یہ ہے کہ وہی چیز بار بار کی جائے مگر امید یہ رکھی جائے کہ نتیجہ مختلف نکلے گا!
ہم وہ لوگ ہیں جو پانی میں مدھانی ڈالتے ہیں‘ پھر گھنٹوں بلوتے ہیں پھر حیران ہوتے ہیں کہ مکھن نہیں نظر آرہا ! پھر ہم پانی میں نقص نکالتے ہیں یا اسی پانی میں مدھانی نئی ڈالتے ہیں! ہمارا انصاف یہ ہے کہ بے زبان سرکاری ملازم کو گرفتار کر لیتے ہیں اور احباب کو چھوڑ دیتے ہیں ! پٹواری کو پکڑ لیتے ہیں مگر جو ضلع کے ریونیو کا انچارج ہے اسے ڈپٹی کمشنر سے ترقی دے کر کمشنر بنا دیتے ہیں!
راتوں رات کوئی معجزہ برپا ہونے والا نہیں ! جانور راتوں رات انسان نہیں بنتے! یہاں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا ظاہر جعفر ظاہر ہوتا رہے گا!یہاں اقبال پارک میں جانور عورتوں کو اچھالتے‘ نوچتے ‘ بھنبھوڑتے رہیں گے! یہاں گرنے والے پر قہقہے لگتے رہیں گے! مجرموں کی ضمانتیں ہوتی رہیں گی ! سفید فام ریمنڈ ڈیوس ہی نہیں‘ گندمی رنگت اور سیاہ رنگت والے ریمنڈ ڈیوس بھی رہا ہوتے رہیں گے! اگر گزشتہ ڈیڑھ سو سال ہمیں بدل نہیں سکے تو اگلے ڈیڑھ سو برسوں کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم نیچے‘ اور نیچے ‘ اور نیچے جا رہے ہیں! ہمارے تنزل کا کوئی انت نہیں! ہم شفاخانوں پر اپنے باپ کا نام فخر سے لکھتے ہیں مگر ان شفاخانوں کی تعمیر باپ کے پیسے سے نہیں‘ قوم کے خزانے سے کرتے ہیں! پھر ہم یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ دنیا ہمارے سبز پاسپورٹ کی عزت نہیں کرتی ! کس قدر مضبوط اعصاب ہیں ہمارے ! واہ !