دو دن پہلے صدر پاکستان نے‘ وزیر اعظم کی تجویز پر‘ محمد اجمل گوندل کو نیا آڈیٹر جنرل آف پاکستان مقرر کیا ہے۔
یہ تقرری دو لحاظ سے خوش آئند ہے۔ ایک اس لیے کہ اس آئینی پوسٹ کے لیے ایسے افسر کو منتخب کیا گیا ہے جو آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے محکمے کے اندر موجود تھا اور باقاعدہ ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ دوسرا اس لیے کہ یہ افسر سب سے زیادہ سینئر تھا۔ اور میرٹ پر اسی کا حق بنتا تھا۔ اس سے پہلے کچھ آڈیٹر جنرل ایسے بھی مقرر کیے گئے جو ریٹائر ہو کر گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ وہ تھے جو محکمے سے باہر تھے۔ اور محکمے کی افرادی قوت سے براہِ راست آشنائی نہیں رکھتے تھے۔ اگرچہ ان میں منظور حسین اور تنویر آغا مرحوم جیسے مردم شناس اور قابل آڈیٹر جنرل بھی ہو گزرے ہیں جو اگرچہ ایک مدت محکمے سے باہر رہے مگر کارکردگی اور سیاسی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ منظور حسین نے اپنے عہد میں بدعنوان افسران کو نکال باہر پھینکا۔ یہ اور بات کہ ان کے جانے کے بعد یہ نکالے گئے لوگ‘ سسٹم کی مہربانی سے‘ ایک ایک کر کے واپس آموجود ہوئے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ اجمل گوندل سب سے زیادہ سینئر تھے اس لیے ان کے حق میں جو فیصلہ ہوا ہے‘ وہ خالص میرٹ پر ہوا ہے‘ تو اس میں ایک نکتہ ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ ایک لفظ جسے فرنگی Discretion کہتے ہیں‘ اور ہم اردو والے'' صوابدید‘‘ کہتے ہیں‘ ہمارے ہاں بہت ہی رگیدا گیا ہے۔ اس رگیدنے کا بھی سن لیجیے کہ فرنگی اسے یعنی رگیدنے کو Misuseکرنا کہتے ہیں۔ جب سب سے زیادہ سینئر افسر کے بجائے اس کے جونیئرکو نوازنا ہو تو کہتے ہیں کہ حکومت کی‘‘ صوابدید‘‘ ہے۔ یہ ملمع کاری کی ایک شکل ہے۔ اصول یہ ہے کہ اگر سینئر کو ترقی نہیں دے رہے تو فائل پر اس کی وجوہ لکھئے مگر یہاں صوابدیدی اختیار کو ذاتی پسند ناپسند کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے جو صریح ناانصافی ہے اور ہمارے دو حکمران اس ناانصافی کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سینئر جرنیلوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو عساکر کا سربراہ نامزد کیا۔ بھٹو صاحب فدویانہ ناز و انداز سے گھائل ہو گئے تھے مگر قدرت کا اپنا نظام ہے۔ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو‘ تو یہ اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ حکمران من مانیاں کرتے پھریں اور انہیں سزا نہ ملے۔ آپ حقدار کو محروم کر کے غیر حقدار کو نواز یں گے تو آپ کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ بھٹو صاحب کو اسی جنرل ضیا نے تختۂ دار پر لٹکایا۔ یہی غلطی میاں نواز شریف نے کی اور جسے نیچے سے اوپر لائے‘ اس نے انہیں ناکوں چنے چبوائے۔ خود جنرل پرویز مشرف کا عہد ایسی ناانصافیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اب خاکِ وطن کو ترس رہے ہیں۔ اگر اندر کی آنکھ وا ہو تو انسان یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ قدرت حقدار کی حق تلفی برداشت نہیں کرتی اور آخرت کے علاوہ‘ اس جرم کی سزا دنیا میں بھی دیتی ہے۔
اجمل گوندل گریڈ بائیس کے افسر تھے۔ ان کے علاوہ جن دو دوسرے افسروں کے نام اوپر بھیجے گئے تھے‘ فرخ حامدی اور ڈاکٹر غلام محمد‘ وہ بھی گریڈ بائیس میں ہیں اور لائق اور اچھی شہرت کے مالک ہیں مگر سنیارٹی لسٹ میں گو ندل کا نام ٹاپ پر تھا اس لیے مقامِ شکر ہے کہ یہ فیصلہ درست ہوا اور کسی کی حق تلفی نہیں ہوئی۔ اجمل گوندل ایک محنتی اور فرض شناس افسر ہیں۔ متین اور نجیب! امید کرنی چاہیے کہ وہ اُن محرومیوں کو دور کریں گے جو اس آئینی محکمے کو لاحق ہیں‘میرٹ کا بول بالا کریں گے اور ایک سیاسی خاندان کا حصہ ہونے کے باوجود سیاسی دباؤ کا مقابلہ جرأت اور دانشمندی سے کریں گے۔ بالخصوص سفارت خانوں کے آڈٹ کے لیے جن افسروں اور اہلکاروں کو بیرونِ ملک بھیجا جاتا ہے اس میں میرٹ اور انصاف کی سخت ضرورت ہے۔ آڈیٹر جنرل کے محکمے کی کچھ اسامیاں برطانیہ‘ امریکہ اور دوسرے ملکوں میں بھی موجود ہیں جن کے لیے ماضی میں جوڑ توڑ اور دوڑ دھوپ کی جاتی رہی۔ ان میں بھی انصاف کرنا ہو گا۔ بلند مناصب قدرت کی طرف سے انعام بھی ہوتے ہیں اور امتحان بھی۔ نیک نامی بھی کمائی جا سکتی ہے اور خدا نخواستہ سفید لباس پر داغ بھی لگ سکتا ہے۔ سعدی نے کمال کی نصیحت کی ہے:
خیری کُن ای فلان و غنیمت شمار عمر /زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند
ارے صاحب ! نیکی کیجیے اور وقت کو غنیمت جانیے اس سے پہلے کہ لوگ کہیں کہ آپ کے منصب کی مدت ختم ہو گئی!
آڈیٹر جنرل کا عہدہ‘اور ادارہ‘انگریز بہادر نے قائم کیا۔ ہمارے اپنے بادشاہ آڈٹ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کبھی کسی کا منہ موتیوں سے بھر دیا۔ کبھی کسی کو سونے میں تلوا دیا۔ کبھی کسی کو پورا ضلع جاگیر میں دے دیا۔ سرکاری خزانہ بادشاہ کا ذاتی خزانہ تھا۔ شاہ جہان کا تخت ِ طاؤس سات سال میں بنا۔ کروڑوں روپے خرچ ہوئے اور یہ وہ زمانہ تھا جب ایک روپے میں چار یا پانچ بکریاں ملتی تھیں۔ وہ پانچ کروڑ روپے کے زیورات کا مالک تھا اور ایک ایک ہار‘ جو گلے میں پہنتا تھا‘ آٹھ آٹھ لاکھ روپے کا تھا۔ آج کے مسلمان بادشاہوں کے ہاں بھی یہی نظام کار فرما ہے۔ 1857 ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد جب برطانیہ نے برصغیر کی حکومت براہِ راست سنبھالی تو ہندوستان میں آڈیٹر جنرل بھی مقرر کیا جس کی منظوری کے بغیر مالیات میں کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتاتھا۔ ملٹری اکاؤنٹس اور آڈٹ کی بنیاد ایسٹ انڈیا کمپنی اس سے بھی ایک سو سال پہلے رکھ چکی تھی۔ کلائیو نے مدراس کی فوج کے لیے ایک لاکھ روپے کا ایڈوانس ملٹری اکاؤنٹس سے لیا تھا جس کا ریکارڈ‘ غالباً آج بھی موجود ہو گا۔ اسی رقم سے پلاسی کی جنگ لڑی اور جیتی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے1973ء میں دو کام ایسے کیے جن کے عواقب ملک آج تک بھگت رہا ہے۔ ایک تو بیورو کریسی کے سر سے آئینی حفاظت کی چھتری ہٹا دی۔اس کے بعدافسر شاہی‘ ریاست کی نہیں‘ حکومت کی ملازم ہو گئی۔ اس کا درجہ کنیز کا ہو گیا۔پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ2005ء میں ایک وفاقی وزیر نے ایک سینئر بیورو کریٹ کو تھپڑ دے مارا۔ اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے چرمی دام چل رہے تھے۔ اس نے وزیر کو کچھ بھی نہ کہا۔ وزیر اعلیٰ بھی اپنے افسر کی داد رسی نہ کر سکا۔ دوسرا کام بھٹو نے یہ کیا کہ بیورو کریسی کو سیاسی تقرریوں کی نذر کر دیا۔ اس سے پہلے مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والے افسر اپنے نام کے ساتھ اپنے اپنے شعبے کا نام لکھتے تھے۔ جیسے پی ایس پی یعنی پولیس سروس آف پاکستان یا پی اے اینڈ پی ایس۔( PA&AS)یعنی پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس مگر سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر آنے والے ایسا نہیں لکھ سکتے تھے۔ وہ تو چھلنی سے گزر کر نہیں‘ بلکہ '' اوپر‘‘ سے آتے تھے اس لیے فیصلہ ہوا کہ نام کے ساتھ سروس کا لاحقہ کوئی بھی نہیں لگائے گا یعنی کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔وزارتِ خزانہ کے منہ سے دانت ہی نکل گئے۔ جنرل ضیا الحق ترکی میں تھے۔ کوئی فنکار تھا یا کھلاڑی‘ ترک صدر نے بتایا کہ یہ بیمار ہے‘ میں اسے علاج کے لیے امریکہ بھیجنا چاہتا ہوں مگر وزارتِ خزانہ مانتی نہیں۔ پاکستانی صدر نے وہیں پر اس کے بیرونِ ملک علاج کی منظوری دے دی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
( یہ واقعہ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے کالم میں لکھا تھا)