جنگیں صرف بندوقوں سے نہیں جیتی جاتیں! جیت تب ہوتی ہے جب جیتنے کے بعد کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں! یہ سبق ماضی کی تاریخ کا نہیں! یہ سبق اُس تاریخ کا ہے جو ہمارے سامنے ہے! ہم، آپ نے یہ تاریخ اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھی ہے! اِس تاریخ کا تازہ ترین واقعہ زمانے کے صفحے پر دو دن پہلے رقم ہوا ہے۔ صرف دو دن پہلے!!
اُس قلاش کی تیرہ بختی کا اندازہ لگائیے جس کے گھر پر گاؤں کا چوہدری قبضہ کر لے۔ وہ مقابلہ کرے! سخت مقابلہ! عزیمت اس کی بے مثال ہو! شیر دلاور کی طرح لڑے۔ مقابلے میں گھر کے کئی افراد کام آ جائیں! ایک طویل مزاحمت کے بعد وہ چوہدری کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے مگر اس فتح کے بعد اسی چوہدری سے روٹی بھی مانگے، کپڑا بھی، دوا بھی اور پیسے بھی! اور ستم ظریفی کی انتہا یہ کہ اپنے آپ کو فاتح بھی سمجھے!
طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طویل جنگ لڑی۔ ہزاروں افغان کھیت رہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔ یتیموں اور بیواؤں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہوا۔ زمینیں پامال ہوئیں۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوئے۔ کھیتیاں جل گئیں۔ باغ بنجر ہو گئے۔ بالآخر امریکہ نے خود ہار مانی۔ سامان اٹھایا اور نکل گیا‘ مگر امریکہ کو معلوم تھا کہ یہ ہار میدان میں ہوئی ہے۔ اصل جنگ تو اس کے بعد ہونی ہے۔ وہ میز پر لڑی جانی ہے۔ اس میں افغان نہتے ہوں گے اور امریکی سر تا پا مسلح! اس میں امریکی زور آور ہوں گے اور افغان زیر دست! یہ بھی کیا ستم ظریفی ہے تاریخ کی! پہاڑوں، گھاٹیوں، غاروں، کھائیوں، درّوں اور ریگ زاروں میں آتش و آہن سے جیتی جانے والی بیس سالہ جنگ میز پر ہار دی جائے! دو دن پہلے افغان وزیر خارجہ پاکستان کے دارالحکومت میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اثاثے منجمد ہونے کے باعث تنخواہیں نہیں دی جا سکیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ منجمد اثاثوں تک رسائی کی اجازت دی جائے۔ یہ اجازت امریکہ بہادر نے دینی ہے۔ وہی امریکہ جو میدان میں ہارا ہے! مگر افغان وزیر خارجہ نے اس کے بعد ایک ایسی بات کہی جو ان کی بے بسی کو ظاہر کرتی ہے۔ کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کون سا ایسا عمل کریں جس سے امریکہ سمیت دیگر ممالک ہمیں تسلیم کریں۔ دھیان اُس عمل کی طرف جاتا ہے جو نقش بنا کر کیا جاتا ہے۔ مختار صدیقی نے کہا تھا:
پیر، فقیر، اوراد، وظائف اس بارے میں عاجز ہیں
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا
مگر بے بسی سے زیادہ وزیر خارجہ کے اس بیان میں اور اظہارِ حیرت میں بے خبری کا عنصر نمایاں ہے۔ بے خبری نہیں بلکہ تجاہل عارفانہ! جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ دنیا کیا چاہتی ہے۔ گیارہ نومبر کو، یعنی افغان وزیر خارجہ کے اس بیان سے صرف دو دن پہلے اسلام آباد میں سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں امریکہ‘ چین اور روس کے نمائندوں نے شرکت کی۔ چونکہ اس میں پاکستان بھی تھا اس لیے اسے Troika Plus کہا گیا۔ ان چار نے مشترکہ بیان میں افغانستان سے مطالبہ کیا کہ
1: طالبان پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں۔
2: بنیادی انسانی حقوق، غیر ملکی شہریوں اور اداروں کے تحفظ اور حقوق کے لیے بین الاقوامی قانونی ذمہ داریاں پوری کریں۔
3: امداد کی فراہمی کیلئے بشمول خواتین، بلاروک ٹوک رسائی یقینی بنائیں۔
4: تمام دہشت گرد گروپوں سے تعلقات منقطع کریں۔
5: ان گروپوں کو فیصلہ کن انداز میں ختم کریں۔
6: کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو جگہ دینے سے انکار کریں۔
7: ہم وطن افغانوں کے ساتھ مل کر ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل کے لیے اقدامات کریں جو تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کرے۔
8: افغان معاشرے کے تمام پہلوؤں میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کے لیے مساوی حقوق فراہم کریں۔
9: امداد کی فراہمی کیلئے، خواتین سمیت، ہر ایک کی معاونت کریں۔
10: عورتوں اور لڑکیوں کو معاشرے کے تمام پہلوؤں میں شرکت کے مساوی مواقع مہیا کریں۔
افغان کابینہ میں تا حال کسی خاتون کا کوئی نام و نشان نہیں۔ حکومت نے شروع شروع میں یہ کہا تھا کہ حالات ٹھیک ہونے تک دفتروں میں ملازمت کرنے والی خواتین گھروں ہی میں رہیں۔ انہیں تنخواہ وہیں پہنچائی جائے گی۔ معلوم نہیں اب تک وہ گھروں ہی میں ہیں یا معمول کے مطابق ڈیوٹی پر آ رہی ہیں؟ عام تاثر یہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھی بہت کم خواتین باقی رہ گئی ہیں۔ رہا جامع حکومت کا مطالبہ تو صورت حال دلچسپ ہے۔ افغان حکومت کا موقف ہے کہ جو ہمارے مخالف ہیں اور جو ہمارے خلاف لڑتے رہے‘ انہیں حکومت میں کیسے شامل کر سکتے ہیں؟ انہوں نے مثال دی کہ کیا جو بائیڈن اپنی حکومت میں ٹرمپ کو شامل کریں گے؟ شاید یہ دلیل زیادہ طاقت ور نہ ہو۔ محترم وزیر خارجہ نے اس پہلو پر توجہ نہیں دی کہ امریکہ یا دوسرے جمہوری ملکوں میں حزب مخالف، حکومت کا حصہ تو نہیں ہوتی مگر ایک منتخب ایوان میں بیٹھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے۔ اس کی رائے سنی جاتی ہے۔ منتخب ایوانوں میں ہر بل کے حق یا مخالفت میں ووٹ ڈالتی ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں حکومت بھی سنبھال سکتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر افغان حکومت، ایسی مجلس شوریٰ تشکیل دے جس میں مخالفین بھی موجود ہوں، انکے خیالات سنے جائیں اور سب ملکر کاروبارِ مملکت چلائیں۔
کیا افغانستان میں دہشت گرد گروہ موجود ہیں؟ اس سوال کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔ اس ضمن میں افغان وزیر خارجہ کے ایک بیان پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ ایک معروف پاکستانی اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ امارت اسلامی پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کر رہی ہے اور چونکہ افغان حکومت کا کردار ثالث کا ہے اس لیے کسی فریق کی طرف جھکاؤ ظاہر کرنا مناسب نہیں۔ بادی النظر میں یہ بات منطقی نظر آ رہی ہے؛ تاہم اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک کالعدم گروہ کو ایک حکومت کے برابر سمجھا جا رہا ہے! ایسی حکومت کے برابر، جو افغانستان کو تسلیم کرانے کیلئے اور اس کی تنہائی ختم کرانے کیلئے دنیا بھر سے اپیلیں کر رہی ہے!
پس نوشت: (بلا تبصرہ) ایک تقریب میں طالبان کے خود کش حملہ آوروں کے خاندانوں کو مدعو کیا گیا اور ان میں رقم اور تحائف تقسیم کیے گئے۔
اس تقریب میں افغانستان کے وزیر داخلہ نے شرکت کی اور ان خود کش حملہ آوروں کو سراہتے ہوئے کہا کہ 'یہ ہمارے اور قوم کے ہیرو ہیں‘۔ طالبان حکومت کی جانب سے ان حملہ آوروں کے خاندانوں کو دس ہزار افغانی (افغان کرنسی) کے ساتھ ساتھ ایک پلاٹ دینے کا بھی وعدہ کیا گیا۔ جس ہوٹل میں ان خود کش حملہ آوروں کو قوم کا ہیرو قرار دیا گیا اسی ہوٹل کو طالبان کی جانب سے ایک نہیں بلکہ دو بار خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ جس میں درجنوں افغان شہری ہلاک ہوئے۔ ایک ستائشی ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں طالبان کیلئے خود کش حملے کرنے والوں کی تصاویر اور نام تھے اور جس میں ان حملوں میں استعمال ہونے والی خود کش جیکٹس کی نمائش کی گئی۔
پس نوشت 2: افغانستان کے سپریم لیڈر کے حکم پر طالبان نے ملٹری کورٹ کی تشکیل کا فیصلہ کر لیا۔ فوجی عدالت، دفاع، داخلہ‘ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے خلاف شکایات کی تحقیق کرے گی۔