دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا تو یورپ زخم زخم تھا۔
مسلسل بمباری سے شہر مجروح ہو چکے تھے۔ لاکھوں افراد مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین تھے۔ خوراک کی سخت قلت تھی۔ ریلوے، پُل، بندرگاہیں ناقابل استعمال تھیں۔ سامان سے بھرے بحری جہاز ڈبو دیئے گئے تھے۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔ اس صورت حال میں امریکہ آگے بڑھا۔ یورپ، خاص طور پر مغربی یورپ کے ساتھ امریکہ کی ہمدردیاں مذہبی بنیادوں کے علاوہ اس لیے بھی تھیں کہ کمیونزم مشترکہ دشمن تھا۔ امریکہ نے مارشل پلان کے نام سے ایک بہت بڑا منصوبہ بنایا جس کا مقصد یورپ کی اقتصادی بحالی تھا۔ اس نے تیرہ ارب (اُس زمانے کے تیرہ ارب) ڈالر یورپ کو دیئے تاکہ شہروں کی تعمیرِ نو ہو، صنعت کو جدید کیا جائے، بزنس کے ماڈرن طریقے اپنائے جائیں اور مجموعی پیداوار میں اضافہ ہو۔ اٹھارہ یورپی ممالک مارشل پلان سے فیض یاب ہوئے۔ برطانیہ، فرانس اور مغربی جرمنی ان میں سر فہرست تھے۔ جارج مارشل اُس وقت امریکہ کا وزیر خارجہ تھا۔ اس نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک تقریر کے دوران تباہ حال یورپ کی تعمیرِ نو کا تصور پیش کیا۔ اسی تصور نے مارشل پلان کی صورت اختیار کی۔ منصوبے کی تیاری میں زیادہ حصہ بھی وزارت خارجہ کے حکام ہی کا تھا۔
مارشل پلان نے یورپ کی قسمت بدل ڈالی۔
1948 سے 1952 تک کا عرصہ تیز ترین رفتارِ ترقی کا تھا۔ صنعتی ترقی کی شرح 35 فیصد رہی۔ زرعی پیداوار بھی بڑھ گئی۔ غربت اور بھوک کا بہت حد تک خاتمہ ہو گیا۔ اگلے دو عشروں کے دوران مغربی یورپ نے معیار زندگی میں حیرت انگیز اضافہ دکھایا۔ ستر کی دہائی کے وسط تک یورپ کی مجموعی آمدنی میں بیس فیصد اضافہ ہو رہا تھا۔ مشرقی یورپ بہت پیچھے رہ گیا۔ مغربی یورپ کی شکل ہی بدل گئی۔ مغربی یورپ کے ملکوں میں ایک لحاظ سے ہم آہنگی بھی پیدا ہوئی۔ کچھ مؤرخ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اسی ہم آہنگی نے یورپی یونین کی بنیاد رکھی۔
اس ساری روداد کا موازنہ افغانستان کی موجودہ صورت حال سے کیجیے۔ پچپن مسلم ملکوں میں سے کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ مارشل پلان کے خطوط پر تباہ شدہ افغانستان کے لیے کوئی منصوبہ پیش کرتا۔ مشرق وسطیٰ کے امیر ممالک میں سے کوئی ایک بھی اس کام کا بیڑہ اٹھانا چاہتا تو اٹھا سکتا تھا۔ ایک نہیں، تو کچھ ریاستیں مل کر ہی کنسورشیم (Consortium) بنا لیتیں! پاکستان دنیا بھر کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا لگا کر منت سماجت کر رہا ہے کہ افغانستان کے استحکام کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں تھا کہ پاکستان کا پلاننگ ڈویژن افغانستان کے لیے ایک جامع معاشی منصوبہ تیار کرتا اور پاکستان کے وزیر خارجہ اپنے طویل تجربے اور تعلقات کی بنیاد پر دوسرے ملکوں کو اس منصوبے میں شامل ہونے پر آمادہ کرتے! آپ مسلم ملکوں کی بے حسی اور لاتعلقی دیکھیے کہ امریکہ نے افغانستان کے اثاثوں کو منجمد کر رکھا ہے اور افغانستان سے شکست کھا کر بھی اس کو گلے سے پکڑ رکھا ہے‘ مگر کسی مسلم ملک نے یہ نہیں کہا کہ ہم سب مل کر اس نقصان کی تلافی کریں گے اور افغانستان کو امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونے دیں گے۔ انڈونیشیا اور برونائی سے لے کر مراکش تک پھیلی ہوئی آزاد خود مختار مسلم ریاستوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی! اس کے باوجود ہماری مستقل مزاجی کا یہ عالم ہے کہ امت مسلمہ کے موضوع پر ہمارے خطیب گھنٹوں تقریریں کر سکتے ہیں! ہمارے دینی اور سماجی جریدے اتحادِ امت کی برکات پر لکھے گئے مضامین سے بھرے ہوتے ہیں! ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچے بچیاں‘ ہر مباحثے میں یہ شعر ضرور پڑھتے ہیں:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
مگر عملاً کچھ بھی نہیں ہوتا۔ مسلم حکومتیں اپنے اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہیں یا غیروں کے بچھائے ہوئے جال میں گرفتار! ایک ادارہ او آئی سی ہے۔ اسلامی کانفرنس! افغانستان کو موجودہ مشکل صورت حال سے نکالنے کے لیے اس کے کتنے اجلاس ہوئے؟ اس کا کیا کردار ہے؟ کیا اس نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا ہے؟
چلیے، مسلم حکومتوں کو چھوڑ دیجیے۔ اسلامی کانفرنس کو بھی مرفوع القلم سمجھیے! مسلم ملکوں کے بزنس مین، صنعت کار، بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان، مل کر اپنے طور ہی کچھ کر لیتے۔ ایک نجی اشتراک ہی قائم کر لیتے۔ مسلم ملکوں میں ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی کوئی کمی نہیں۔ عرب ہیں یا افریقی، پاکستانی ہیں یا بنگالی، ملائیشیا کے ہیں یا انڈونیشیا کے، ان کی جائیدادیں یورپ اور امریکہ میں ہیں۔ ان کے بینک بیلنس سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے تفریحی جزیرے خرید رکھے ہیں۔ ایک ایک یاچ ان کی کروڑوں ڈالر کی ہے۔ آسٹریلیا اور امریکہ میں ان کے فارم (Ranch) ہیں۔ ذاتی جہاز ہیں۔ انہوں نے لندن اور پیرس جیسے شہروں میں بڑے بڑے سپر سٹور، فائیو سٹار اور سیون سٹار ہو ٹل خرید رکھے ہیں۔ ان کھرب پتیوں میں سے ہی کچھ مل کر ایک تنظیم بنا لیتے جو افغانستان کی تعمیر نو میں سرگرم حصہ لیتی! کیا پتہ ان کی کوششوں کو دیکھ کر مسلم حکومتوں میں سے کچھ کو شرم آجاتی اور وہ بیدار ہو جاتیں ! حکومتیں نہیں، مگر ہر مسلمان، انفرادی طور پر تو امت سے جُڑا ہوا ہے! مغربی ممالک میں بڑے بڑے ادارے حکومتوں کے نہیں، افراد کے بنے ہوئے ہیں‘ جو حکومتوں سے زیادہ کام کرتے ہیں!
پانچ ارب روپے کا امدادی پیکیج‘ جو حکومت پاکستان نے افغانستان کے لیے منظور کیا ہے، اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ یوں بھی اس کا بوجھ پاکستانی امرا پر پڑے گا نہ حکومت پر! یہ بوجھ تنخواہ دار طبقہ اٹھائے گا یا ایک عام پاکستانی! تنخواہ دار طبقہ ٹیکس سے کسی صورت نہیں بچ سکتا۔ عام آدمی جو شے بھی خریدتا ہے اس پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ موبائل فون کا کارڈ ہو یا چینی یا دوا، اس کی قیمت میں ٹیکس شامل ہے۔ امرا کو اس ٹیکس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ خود پاکستان کی حالت یہ ہے کہ قرض پر قرض لیے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ اِن دنوں ہونے جا رہا ہے وہ پاکستان کے مستقبل کو نہ صرف پا بہ زنجیر کرکے رکھ دے گا بلکہ طویل اقتصادی غلامی کا پیش خیمہ ہو گا! اب ایسے قرضے لیے جا رہے ہیں جن سے اثاثوں میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران 3.8 ارب ڈالرز کے نئے قرضے حاصل کیے گئے ہیں۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینا ہوں گے۔ اس صورت حال میں افغانستان کے لیے پانچ ارب کا امدادی پیکیج، جس کا بار عام پاکستانی پر پڑے گا، پاکستانی عوام کی طرف سے قیمتی تحفے سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان افغانستان کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے۔ نہ صرف اقتصادی میدان میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی پاکستان اپنی بساط سے بڑھ کر افغانستان کی مدد کر رہا ہے یہاں تک کہ اس مدد کے منفی اثرات بھی مترشّح ہو رہے ہیں جو پاکستان کو بھگتنا ہوں گے!
ہمارے سامنے مغربی ملکوں اور مشرق بعید کے ملکوں نے کئی اتحاد بنا کر اور چلا کر دکھا دیے۔ مارشل پلان کے بعد نیٹو بنا۔ یورپی یونین کرشمے سے کم نہیں! اس نوع کے اتحاد کے لیے جس ذہنی پختگی، جس سیاسی بلوغت، جس اصل جمہوریت اور جس تعلیم و ترقی کی ضرورت ہے، مسلم ممالک اس سے کوسوں دور ہیں !
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی