'' بھائی میں اس ملک کو چھوڑ کر جارہا ہوں اور کوشش کروں گا کہ فیملی کے لیے مجھے نہ آنا پڑے‘ میں اپنی فیملی کو کسی کے ساتھ بلوا لوں گا۔ یہاں رہنا میرے حساب سے اپنے آپ کو سزا دینے کے برابر ہے کیونکہ جہاں انسان کی سلامتی نہیں‘ جہاں انسان کے پیسے کی سلامتی نہیں‘ جہاں انسانیت کی سلامتی نہیں اس ملک میں رہنا بیکار ہے۔ اوورسیز پاکستانیز! ( ہاتھ جوڑتے ہوئے) خان صاحب کے کہنے پر پلیز مت آئیے گا۔ ہمارے پی ایم صاحب کہہ تو دیتے ہیں کہ
We are welcoming Overseas Pakistanis but you are not welcome in Pakistan......
آپ اوور سیز پاکستانیوں کو کیوں منع کر رہے ہو بھائی؟ میں خود اوورسیز پاکستانی ہوں۔ میں چار سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اپنے ملک میں رہنے کے لیے۔ غلطی ہو گئی سر! (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) بہت بڑی غلطی ہو گئی جس کا خمیازہ بھی بھگت لیا۔
یہ گفتگو ایک صاحب کی ہے جو کراچی کی متنازع عمارت کے متاثرین میں سے ہیں۔ وڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ تا دم تحریر اس وڈیو کو چار لاکھ اکتیس ہزار افراد دیکھ چکے ہیں۔ ستائیس ہزار بار یہ وڈیو شیئر ہو چکی ہے۔ سترہ سو کمنٹس آ چکے ہیں جن میں سے ننانوے فیصد کمنٹس میں ان بھائی صاحب کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے۔
ہم اس وڈیو کے مندرجات سے اتفاق یا اختلاف نہیں کر رہے۔ ہم تو صرف صورت حال کی ایک جھلک دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ صورت حال ایک کلّیت یعنی تمامیت (Totality) پر مشتمل ہے۔ جو کچھ یہ صاحب اس وڈیو پر کہہ ر ہے ہیں وہ اس کلّیت کا صرف ایک حصہ ہے۔ ہم ہر پہلو سے اور ہر لحاظ سے پراگندگی کا شکار ہیں۔ ہر طرف ابتری دکھائی دے رہی ہے۔ صورت حال کا دوسرا پہلو وہ شرائط ہیں جو‘ قرض لیتے ہوئے‘ سعودی عرب کے ساتھ طے ہوئی ہیں یا مجبوراً ہمیں طے کرنا پڑی ہیں۔ جس معاشی دلدل میں اس وقت پاکستان دھنسا ہوا ہے اس کے پیش نظر سعودی قرض غنیمت ہے‘ مگر شرائط پریشان کُن ہیں۔ اول‘ کوئی وجہ بتائے بغیر یہ قرض بہتر گھنٹوں کے اندر اندر واپس مانگا جا سکے گا۔ دوم‘ اگر دونوں ملکوں کے درمیان‘ اس قرض کے حوالے سے‘ کوئی تنازع کھڑا ہو گیا تو یہ سعودی قانون ہے جس کا اطلاق ہو گا۔ ماضی قریب میں جس طرح مالی اور سیاسی حوالے سے پاکستان کو سبکی اٹھانا پڑی‘ اس سبکی کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ شرائط کسی بھی وقت مزید سبکی کا باعث بن سکتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس چوائس کیا ہے؟ ہاتھ میں کاسہ ہو تو چوائس ہو بھی کیا سکتا ہے!
اس ملک کو جن خطوط پر چلایا جا رہا ہے وہ ہمیں دریوزہ گر بنانے کے علاوہ کچھ اور بنا بھی نہیں سکتے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے ملک ایک کلّیت کا نام ہوتا ہے۔ یہ ایک Totality ہوتی ہے جس کے تمام حصے ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ معاشی فیصلے سیاسی استحکام پر منحصر ہوتے ہیں۔ سیاسی استحکام کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک میں قانون کی حکومت ہے یا نہیں؟ اگر مختلف طبقات کے لیے قانون مختلف ہے تو ملک سیاسی استحکام اور معاشی خود مختاری دونوں سے محروم ہوتا ہے۔ رُول آف لا نہ ہو تو سب سے بڑا نقصان ملک کو یہ پہنچتا ہے کہ پڑھی لکھی مڈل کلاس ملک چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ پیچھے صرف دو طبقے رہ جاتے ہیں‘ اعلیٰ ترین طبقہ اور پست ترین طبقہ۔ یہی مثال دیکھ لیجیے‘ بیرون ملک سے آیا ہوا شخص جس واقعہ کا زخم خوردہ ہے وہ واقعہ رُول آف لا سے ہی متعلق ہے۔ شمال کے شہر اور جنوب کے شہر میں ایک جیسی بے ضابطگی سرزد ہوتی ہے مگر دونوں یکساں بے ضابطگیوں سے مختلف اندازمیں نمٹا جاتا ہے۔ مشہور امریکی کہانی کار او ہنری نے ''بنانا ری پبلک‘‘ کی اصطلاح 1904ء میں تراشی تھی۔ بنانا ری پبلک کی متعدد خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت پلوٹوکریسی ہے یعنی امرا کی حکومت۔ ارسطو نے پلوٹوکریسی کے لیے اولی گارکی (Oligarchy) کا لفظ استعمال کیا‘ اگرچہ آج کل اولی گارکی اس حکومت کو کہتے ہیں جو چند لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ غور کریں تو پلوٹوکریسی اور اولی گارکی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ ایک مختصر گروہ کی حکومت جو امرا پر مشتمل ہو۔ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ بیوروکریسی بھی وہی مراعات رکھتی ہے جو امرا رکھتے ہیں۔ چونکہ حکومت ان کی ہوتی ہے اس لیے ان پر قانون کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ ہفتے منڈی بہاؤالدین میں جو کچھ ہوا وہ اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ ہمارا ملک (1) پلوٹوکریسی کے نرغے میں ہے اور (2) شدید لاقانونیت کی دلدل میں گلے تک دھنسا ہوا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے عدالت کے ساتھ گستاخانہ رویہ روا رکھا۔ روزنامہ دنیا کے رپورٹر کے مطابق‘ ان دونوں کو سیکرٹری پنجاب اسمبلی نے سپیکر پنجاب اسمبلی سے سفارش کرا کر تعینات کرایا تھا۔ ہمارے رپورٹر کے مطابق یہ افسران عوام کے ساتھ بھی بد تمیزی سے پیش آتے تھے۔ یہ شدید توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے تو عدالت نے انہیں تین تین ماہ قید کی سزا سنائی۔ پولیس نے مجرموں کو جیل لے جانے کے بجائے ڈی سی ہاؤس منتقل کر دیا تھا جس کے بعد دونوں افسران اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر لاہور چلے گئے۔ مگر اصل کھلواڑ قانون کے ساتھ یہ ہوا کہ صوبے کے چیف سیکرٹری نے مداخلت کی۔ ہمارا نمائندہ بتاتا ہے کہ جب یہ خبر لاہور پہنچی تو چیف سیکرٹری پنجاب فوری طور پر ایک اجلاس سے اُٹھ کر مال روڈ پر موجود ایک اہم شخصیت سے ملے اور ڈی سی اور اے سی کی گرفتاری پر ''تحفظات‘‘ کا اظہار کیا۔ چیف سیکرٹری ہی کی مداخلت پر دونوں مجرموں کو ہتھکڑی نہ لگنے دی گئی۔ سزا بھی معطل کرا دی گئی۔ ہنسی آتی ہے جب ریاست مدینہ کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ میں تو فریادی مصر کے گورنر کے بیٹے کو کوڑے مارتا ہے۔ خود خلیفہ دوم کے صاحبزادے کو کوڑے مارے گئے۔ مگر یہاں سترہ اٹھارہ اور انیس گریڈ کے افسروں پر بھی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عدالت انہیں ہتھکڑی نہیں لگوا سکتی۔ جیل میں بھیجے جانے کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
امید ہے یہ نکتہ واضح ہو گیا ہو گا کہ کسی ریاست کی کامیابی تمام شعبوں کی کامیابی سے عبارت ہے اور ہر شعبہ دوسرے شعبے سے جُڑا ہوا ہے۔ کراچی کے شہری کا رونا پیٹنا ہو یا بیرونی قرضوں کی ایسی شرائط ہوں جو ہماری خود مختاری پر زد لگا رہی ہوں یا طاقت ور افراد قانون کو جوتوں کے نیچے روند رہے ہوں‘ سب ایک ہی تصویر کے مختلف رُخ ہیں۔ جن مغربی ملکوں نے اقتصادی ترقی کی ہے ان میں سے کوئی ایسا نہیں جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ امریکہ یا برطانیہ میں ‘ یا جرمنی یا جاپان میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے صوبے کا چیف سیکرٹری مداخلت کرے گا؟
مریض کی حالت دگرگوں ہے۔ دل‘ گردے‘ پھیپھڑے‘جگر‘ معدہ‘ سب جواب دے رہے ہیں۔ سب کی کارکردگی ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ معاشی خود مختاری رُول آف لا کی سگی بہن ہے!