''جناح ایونیو (ڈھاکہ) میں ہماری خاص پسندیدہ جگہ بے بی آئس کریم تھی۔ جب کبھی ہوسٹل وارڈن کی رضا مندی اور اپنی قسمت کے ستارے مل جاتے تو ہم وہاں جانے کا پروگرام ضرور بنا لیتے تھے۔ بے بی آئس کریم میں ہماری نظر ہر دفعہ ایک نوجوان پر ضرور پڑتی تھی جو ہمیشہ دور کونے میں خاموشی سے بیٹھا ہوا پایا جاتا تھا۔ وہ شخص کافی خوش شکل تھا۔ آنکھیں بھوری تھیں۔ دبلا پتلا اور خوش لباس تھا۔ عجیب بات ہے کہ وہ شخص آئس کریم کھانے کے بجائے بس چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا۔ شاید وہ وہاں کا منیجر تھا‘ یا شاید نہیں کیونکہ ہم نے کبھی اسے انتظامات کرتے یا گاہکوں سے بات کرتے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ نرگس نے کہا: یہ کوئی پراسرار آدمی ہے۔ میں نے جواب دیا: ممکن ہے بے چارہ بولنے سے قاصر ہو۔ انہی دنوں پاکستان میں ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تھا اور پاکستان کے چند شہروں میں تجرباتی سٹیشن بنائے گئے تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن ڈھاکہ کے پائلٹ پروگراموں کا نشریاتی سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ مختصر دورانیہ کی ان نشریات میں اردو، بنگالی اور انگریزی کی خبریں پیش کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ بنگالی اور کبھی کبھار اردو نغمے بھی نشر کیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ رات کے وقت کھانے کے بعد نرگس، شاہینہ اور میں خلاف معمول ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئیں۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ٹی وی سکرین پر وہ خاموش طبع پراسرار شخص گانا گاتا ہوا نظر آیا۔ نرگس نے چلا کر کہا: وہ دیکھو بے بی آئس کریم والا بندہ‘ میں یہ دیکھ کر حیران تھی کہ یہ شخص نہ صرف بول سکتا ہے بلکہ بہت اچھا گانا بھی گا رہا ہے۔ کمال ہے۔ قریب بیٹھی ہوئی ایک بنگالی لڑکی نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا: بھئی! یہ تو مشہور گلوکار نذیر بیگ ہے! بعد میں یہی گلوکار نذیر بیگ اداکار ندیم بنا اور جلد ہی پاکستانی فلم انڈسٹری پر چھا گیا‘‘۔
یہ اقتباس سلمیٰ علی خان کی نئی تصنیف 'دوپٹہ ڈھاکے کی ململ کا سے‘ ہے۔ سلمیٰ آپا ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہم سے سینئر تھیں۔ ہم جب1967 میں گئے تو سلمیٰ اس سے ایک سال پہلے تعلیم مکمل کر کے واپس آ چکی تھیں۔ ڈھاکہ میں بسنے والے اڑیسہ کے ایک خاندان میں ان کی شادی ہوئی۔ اگر آپ بر صغیر کے نقشے پر اڑیسہ دیکھیں اور پھر سلمیٰ کا گاؤں چونڈہ (سیالکوٹ)، تو آپ کو اس کہاوت پر یقین آ جائے گا کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ سلمیٰ اس سے پہلے اپنے والد کی سوانح 'پدرم حکیم بود‘ کے عنوان سے لکھ کر داد وصول کر چکی ہیں۔ اس کے بعد ان کی یہ تصنیف پڑھ کر سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اپنی خود نوشت لکھیں تو کیا ہی دل پذیر کتاب ہو گی۔ اس میں اڑیسہ سے لے کر ڈھاکہ تک، چونڈہ سے لے کر ملتان تک، لاہور سے لے کر پشاور تک، اور اس کے ساتھ ساتھ، دنیا کے کئی ملکوں کے تذکرے ہوں گے۔ سلمیٰ کا اسلوب اتنا دلچسپ ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر چین نہیں آتا۔ آغازِ شباب کی نرم ہلکورے لیتی یادیں، سہیلیوں کے ساتھ گزارے گئے وقت کے قیمتی ٹکڑے، اجنبی دیاروں کی جھلکیاں، دوران تعلیم پیش آنے والے واقعات‘ جو اُس وقت کے مشرقی پاکستان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں، پھر طرز تحریر کی بے ساختگی، یہ سارے عوامل مل کر کتاب کو بے حد دلچسپ اور Readable بنا رہے ہیں۔ نئی نسل صرف اس پاکستان سے واقف ہے جو کبھی مغربی پاکستان تھا۔ ہم لوگ جنہوں نے اصل پاکستان کو دیکھا ہے، جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ثقافت، لینڈ سکیپ اور تاریخ کے حوالے سے کتنا بڑا خزانہ تھا۔ سلمیٰ آپا کی یہ کتاب ہمارے لیے نوسٹیلجیا اور نئی نسل کے لیے معلومات کا قیمتی خزانہ ہے۔ خاص طور پر چٹا گانگ، کاکسس بازار، سلہٹ، کُھلنا، میمن سنگھ کے تذکرے! کیا کہنے! پھر کتاب کا عنوان 'دوپٹہ ڈھاکے کی ململ کا‘ جس میں ایک طرف صنف نازک کی دلبری ہے تو دوسری طرف وہ لہو ہے جو ململ بنانے والے کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ کر بہایا گیا تھا۔
ایک اور نئی کتاب فرخ یار کی 'دو راہے‘ ہے جو مقامات، بھاشا، اساطیر اور عقائد پر مشتمل ہے۔ فرخ یار جدید نظم کا ایک اہم نام ہے۔ فرخ فیوڈل اور بینکار ہونے کے باوجود، اصلاً دانشور ہیں اور علمِ بشریات کے ماہر! کتاب کا دیباچہ انہوں نے خود لکھا ہے۔ سترہ صفحات کا یہ دیباچہ، بر صغیر کی تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تشکیل کا بہترین تجزیہ ہے اور کئی کتابوں پر بھاری! تاریخ اور ثقافت کے طالب علم کے لیے یہ مضمون ایک ریفرنس بُک سے کم نہیں!
فرخ بہت سی اصطلاحات اور عوامی بولیوں (سلینگ) کی اصل بتاتے آگے گزرتے جاتے ہیں۔ بونگا، ہندی لفظ بھونگا کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کا معنی بے وقوف کے ہیں۔ پُٹھار، پُٹھ سے نکلا ہے جس کا معنی سرین ہے۔ ابھری ہوئی جگہ۔ اونچا اٹھا ہوا زمین کا رقبہ! اسی سے پوٹھوہار بنا۔ نیلام، انناس، پادری، پیپا، سنگترہ، تولیہ اور بیرل کے الفاظ پرتگالی سے اردو میں آئے ہیں۔ پھٹیچر پھٹ اور چیر کا مرکب ہے۔ خستہ حال، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص۔ تلنگا، جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کا شہری، وہ شخص جو تلگو زبان بولتا ہو۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں مرہٹے شمالی ہند پر چڑھ دوڑے اور پنجاب میں بھی اودھم مچا دیا۔ ان میں بہت سے لوگ تلنگانہ سے تھے؛ چنانچہ پنجاب میں تلنگا کی اصطلاح آوارہ اور منہ زور شخص کے طور پر رواج پا گئی۔ سکول ماسٹر کا پس منظر یوں ہے کہ یورپ میں بورڈنگ سکول ایک نجی کاروبار تھا۔ اس کے مالک سکول ماسٹر کہلاتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ لفظ ٹیچر کے لیے استعمال ہونے لگا۔ باجرا آج کی شہری نسل نے دیکھا تک نہیں۔ سو سال پہلے یہ جنوبی ایشیا کا مقبول کھاجا تھا۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں باجرے کی کھچڑی کا ذکر کیا ہے۔ اورنگ زیب عالم گیر کی خوراک ہی یہی تھی۔ اب تو گیت ہی رہ گیا۔ باجرے دا سٹہ اسی تلی تے مروڑیا۔ بائی کا لفظ سنسکرت میں معزز عورت کے لیے تھا‘ جیسے جودھا بائی‘ لکشمی بائی۔ مغلوں کے عہد زوال میں یہ لفظ اعلیٰ درجے کی طوائفوں نے بھی اپنا لیا۔ پنجاب میں یہی لفظ مائی ہو گیا۔ جاگیردار خواتین اور سیدانیوں کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ ڈاک کا لفظ ڈک سے نکلا ہے۔ پراکرت میں ڈک کا مطلب ہے روکنا۔ پہلے سرکاری خطوط کو فوراً پہنچانے کے لیے معینہ مقامات پر تازہ دم گھوڑوں والی چوکیاں بنائی جاتی تھیں۔ ہرکارہ پچھلی چوکی سے پہنچتا تو اسے روک کر تھیلا دوسرے ہرکارے کو دے دیا جاتا۔ آہستہ آہستہ خطوط پہنچانے کے اس عمل کو ڈاک کہا جانے لگا۔ ٹنچ بھاٹہ راولپنڈی کا گنجان علاقہ ہے۔ انگریزی دور شروع ہوا تو یہاں اینٹوں کے بھٹے لگائے گئے۔ اینٹوں کے لیے مٹی کی ضرورت تھی؛ چنانچہ نالیاں اور خندقیں کھودی گئیں۔ کھائی یا خندق کے لیے انگریزی میں ٹرینچ (Trench) کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹرینچ بھاٹہ سے ٹینچ بھاٹہ ہو گیا۔ مقامی لوگ صرف ٹنچ بھی کہتے ہیں۔ الغرض فرخ کی یہ کتاب بہت سے عقدے کھولتی ہے۔
برادرم خالد مسعود خان کی تین کتابیں بیک وقت نازل ہوئی ہیں۔ سفر کے زائچے، زمستاں کی بارش اور سفر دریچے۔ تینوں تصانیف کمال کی ہیں۔ جتنی صحت مند اندر سے ہیں اتنی ہی باہر سے سمارٹ! بس ایک ذرا کمزور ہے۔ اس کمزوری کی واحد وجہ یہ کہ اس کا دیباچہ اِس بے بضاعت نے لکھا ہے۔ تینوں میں سے یہ کون سی ہے؟ یہ آپ خود ڈھونڈ لیجیے!