سرما آتا ہے تو دل کا ہر تار گٹار بن جاتا ہے۔اسلام آباد میں یوں بھی خزاں ہمیشہ دلکش رہی ہے۔ بہت سے درختوں کے پتے سرخ ہو جاتے ہیں۔ بالکل لہو کی طرح۔ نظریں ان سے ہٹانے کو دل نہیں کرتا۔ جھڑی لگی ہو تو اس کا اپنا مزا ہے۔لڑکپن میں جب شادی اور نوکری‘ دونوں سے آزاد تھے تو رضائی اوڑھ کر‘ آگ تاپتے ہوئے کتابیں پڑھنے میں کتنا مزا آتا تھا۔ ڈاکٹر ژواگو اور'' گان وِد دی وِنڈ‘‘ جیسے ناول ایسی ہی سردیوں میں پڑھے۔تب گلوبل وارمنگ کا فتنہ برپا نہیں ہوا تھا۔دار الحکومت کی شاہراہوں پر صبح سویرے منجمد پانی کے صاف شفاف ٹکڑے عام نظر آتے تھے۔ بارش میں سٹریٹ لائٹس لرزتی دکھائی دیتی تھیں۔ ہم ان لوگوں میں سے تھے جنہیں سرما میں جاں بخش مشروب اور گراں قدر خشک میوے میسر نہیں تھے مگر ہم سرما سے امرا کی نسبت کہیں زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے۔ہم تو یہ حسرت بھی کرتے تھے کہ کاش اس شہر پر برف گرتی اور ہم اُس انگریزی اور روسی ادب کا زیادہ مزا لیتے جس میں برفباریوں کے تذکرے تھے۔
سرما کے تین رنگ ہیں اور تینوں دلکش ! تیز دھوپ ہو تو چارپائی پر دراز ہو کر غنودگی کے دریا میں غوطے کھانے کا کیا ہی لطف ہے۔ اس سے پہلے اگر گھنی لسی کے بھی ایک دو گلاس چڑھا لیے جائیں تو نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ شاید اسی حالت کو جون ایلیا حالتِ حال کہتے تھے! دنیا وما فیہا سے بے خبری‘ لاتعلقی اور بے نیازی ! بیٹی نے بطخیں پال رکھی ہیں۔ ان کی‘ سماعت کو چیر دینے والی‘ تیز‘ قَیں قَیں بھی اس غسلِ آفتابی میں خلل نہیں ڈال سکتی! دوسرا رنگ وہ ہے جب سورج بادلوں کے پیچھے چھپا ہو۔ بارش ہو یا محض گھٹا‘ دونوں صورتوں میں گرم کمرہ اور رضائی بہترین پناہ گاہ ہیں بشرطیکہ کھڑکی کے شیشوں سے گھٹا‘ یا بارش‘ نظر آرہی ہو! بقول منیر نیازی:
مینہ‘ ہوا‘ طوفان‘ رقصِ صاعقات
آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوئے
اور مری کھڑکی کے نیچے کانپتے پیڑوں کے ہات!
تیسرا رنگ وہ ہے جب دھوپ ہو مگر بہت ضعیف! ہم اٹک والے ایسی نحیف دھوپ کو چِٹکا کہتے ہیں! اس دھوپ کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا بشرطیکہ گرم چادر اوڑھی ہوئی ہو! گرم چادر ! سبحان اللہ ! سرما میں گرم چادر کیا ہی قیمتی نعمت ہے ! آج کل کے فیشنی لوگوں کو کیا معلوم کہ کسی بھی کوٹ یا جیکٹ کی نسبت گرم چادر سردی سے زیادہ بچاتی ہے۔ ہماری نسل نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب نانیاں دادیاں سوتی چادریں تیار کرتی تھیں جنہیں کھیس کہا جاتا تھا۔ کپاس گھر کی ہوتی تھی یعنی اپنے کھیتوں سے۔ چرخے پر اس روئی کو کات کر دھاگہ بنایا جاتا تھا۔ پھر وہ جولاہے کو دیا جاتا تھا جو کھڈی پر کھیس بنتا تھا۔ بڑے بوڑھے یہ کھیس اوڑھ کر بیٹھتے تو کھیس کے کناروں پر لٹکتے ہوئے دھاگوں کو بل دے دے کر بٹتے رہتے۔ یوں کھیس دونوں طرف سے پائدار ہو جاتا۔ ایک ماہیا بھی اس حوالے سے مشہور ہے
دھاگے کھیساں دے
کھنب پئے چھنڈ دِن پَکھی بیگانیاں دیساں دے
اس کالم نگار کو اس کی دادی جان نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا کھیس دیا تھاجو ان کی وفات کے بعد بہت زیادہ عزیز تھا۔ ایک دن دفتر سے آیا تو اہلیہ پریشان دکھائی دیں۔ لباس تبدیل کر کے آرام سے بیٹھ چکا تو انہوں نے تمہید باندھی کہ بعض اوقات ایسے حادثے پیش آتے ہیں کہ ہمیں عزیز از جان چیزوں سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ یوں ذہنی طور پرتیار کر کے بتایا کہ بڑی بیٹی نے کپڑے استری کرتے وقت اس کھیس کو میز پر بچھایا کہ وہی نزدیک پڑا تھا۔ پھر جانے کیا ہوا اور کیسے ہوا کہ کھیس استری سے جل گیا اور درمیان میں اچھا خاصا سوراخ ہو گیا۔صدمہ تو گہرا تھا مگر کیا ہو سکتا تھا۔یوں بھی بچوں کو‘ خاص طور پر بیٹیوں کو‘ کسی مادّی یامالی نقصان پر عمر بھر کبھی نہیں ڈانٹا۔ دادی جان بار بار تصور میں چرخا کاتتے نظر آتیں۔ چند دن کے بعد دفتر میں اچانک خیال آیاکہ شاید رفوگر کے پاس اس فٹ بال جتنے بہت بڑے سوراخ کا کوئی علاج ہو۔ اُن دنوں ایک شاہ جی دن کے وقت گھر آکر کام وام کر دیا کرتے تھے۔ انہیں فون کیا کہ کھیس دفتر لے آئیں۔ شاہ جی آئے تو انہوں نے جو خبر دی وہ اہلیہ کے اس قول پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی تھی کہ انسان کو عزیز ترین اشیا سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ شاہ جی نے کھیس سائیکل کے پچھلے کیرئیر پر رکھا تھا۔ کیرئیر کی گرفت ڈھیلی تھی۔ کھیس راستے میں کہیں گر گیا۔ یوں رفو گر کے پاس جانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ اب رفو گری کا ذکر ہوا ہے تو دو شعر اس مضمون کے یاد آرہے ہیں۔ ایک تو مصحفی کا شہرہ آفاق شعر ہے اور کیا غضب کا شعر ہے ؎
مصحفی! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
دوسرا شعر معین نظامی کا ہے ؎
ہماری خوب گزرتی تھی موسمِ گْل میں
رفو گروں کے محلے میں گھر ہمارا تھا
گئے وقتوں میں کاریگروں کے اپنے اپنے محلے ہوتے تھے۔ کہیں زین سازوں کا محلہ تھا تو کہیں آہن گروں کا! کہیں قالین بافوں کا کوچہ تھا تو کہیں ظروف سازوں کا۔ رفو گروں کا بھی الگ محلہ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی دارالحکومت میں بتیس پیشوں والے رہا کرتے تھے تا کہ شہر کے مکینوں کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں!
سرما کا ایک مزا یہ بھی ہے کہ اس موسم میں سیر خوب ہو سکتی ہے اور طویل بھی۔ گر می میں سیر کرنا گناہِ بے لذت سے کم نہیں ! ہاں سرما میں سیر کے دوران‘ پارکوں اور باغوں میں پاؤں کے نیچے آتے‘ ہوا میں اُڑتے‘ خشک پتے دل میں درد کا شدید احساس پیدا کرتے ہیں۔یہ پتے اپنی اپنی شاخوں سے ٹوٹتے ہیں۔ اس کے بعد زمانہ انہیں چین نہیں لینے دیتا۔ کبھی ہوا ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینکتی ہے۔ کبھی چلنے والوں کے پیروں تلے آ کر چٹختے ہیں اور زبانِ حال سے اپنی در بدری کا رونا روتے ہیں۔ ہم جیسے سر پھرے کم ہی ہوں گے جو اِن خشک‘ بے گھر پتوں کا دکھ سمجھتے ہیں اور ان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہی '' خشک پتے‘‘ ہے!
جب ذرا تیز ہوا آتی ہے/ خشک پتوں کی صدا آتی ہے / خشک پتّے مرے عمروں کے رفیق / خشک پتے مری تنہائی کے پھول / خشک پتے مری غیرت کے اصول !!
ان پتوں سے قصور کیا ہوا؟ یہی کہ اپنی ٹہنی سے ٹوٹے۔ اپنے گھر کو چھوڑا۔ جو اپنی اصل کو چھوڑ دے‘ اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ مسلسل ہجرتیں! نقل مکانیاں! کوئی اور سرزمین اپناتی نہیں! پاسپورٹ مل جاتا ہے مگر پوچھنے والے پوچھ کر اور جان کر رہتے ہیں کہ اصلاً کہاں سے ہو؟ ''نژاد‘‘ کا لفظ نسلوں کی جان نہیں چھوڑتا!
اب تو صحن نہیں رہے۔ وہ منظر کتنا دل دوز ہوتا تھا جب آدھی رات کو کمرے سے باہر نکلتے تھے اور صحن چاندنی میں نہا رہا ہوتا تھا۔شکیب جلالی نے کسی ایسی ہی رات کو یہ شعر کہا ہو گا ؎
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں؟