یہ وہ زمانہ تھا جب تاتاریوں نے مسلمان ملکوں میں قتل و غارت پھیلا رکھی تھی۔ ان کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک تاتاری دس دس پندرہ پندرہ مسلمانوں کو ہانکتا لے جا رہا ہوتا تھا۔ ایسے ہی دن تھے جب ایک عمر رسیدہ شریف آدمی کو ایک تاتاری نے پکڑ لیا اور غلام کے طور پر فروخت کرنے کے لیے منڈی میں لے گیا۔ ایک گاہک نے دس ہزار اشرفیوں کی پیشکش کی۔ قیدی نے تاتاری کو متنبہ کیا کہ اتنا سستا نہ بیچو‘ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تاتاری خوش ہوا کہ اس سے بھی زیادہ دولت ہاتھ آئے گی۔ اتنے میں ایک اور گاہک نے قیدی کو بھوسے کی بوری کے بدلے میں خریدنا چاہا۔ قیدی نے کہا: بھوسے کی بوری لے لو‘ میری حیثیت تو اس سے بھی کم ہے۔ اس پر تاتاری بھنّا اٹھا اور قیدی کو تہ تیغ کر دیا۔ (بعض روایتوں میں بھوسے کی بوری کے بجائے گھاس کے گٹھے کا ذکر ہے)
یہ شہر نیشا پور تھا جو آج کل ایران کے شمال مشرق میں، مشہد سے پچھتر کلومیٹر دور واقع ہے۔ معمر قیدی فریدالدین عطار تھے جو شاعروں کے شاعر اور صوفیوں کے صوفی تھے۔ سال 1221 تھا‘ یعنی دہلی میں قطب الدین ایبک کے تخت نشین ہونے اور سلاطین کا دور شروع ہونے کے تیرہ سال بعد۔ عطار کے قتل کی یہ روایت، بہر طور، متنازعہ ہے تاہم بزرگوں کے جو محیرالعقو ل اور ناقابل یقین واقعات مشہور ہیں ان کے مقابلے میں یہ روایت کم از کم مافوق الفطرت نہیں۔ یہاں تو عجیب و غریب واقعات سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں۔ کبھی کتابیں پانی میں بھیگتی نہیں! کبھی پہاڑ سے گرتی ہوئی چٹان ہاتھ سے روک لی جاتی ہے۔ کبھی انسان ہوا میں اُڑ رہا ہے۔ جبھی تو شاعر کو کہنا پڑا:
خود پیر تو نہ اُڑ سکا، پر لے اڑے مرید
بیٹھے بٹھائے پیر کو طائر بنا دیا
یوں بھی غور کرنے کا مقام ہے۔ ہم اپنے بزرگوں کو داستانوں اور روایتوں میں ہوا میں اڑاتے رہے۔ اس کے مقابلے میں اہل مغرب نے ہوائی جہاز بنایا اور سچ مچ اُڑنے لگے۔
منطق الطیر حضرت خواجہ فرید الدین عطار کی متعدد تصانیف میں سے مشہور ترین تصنیف ہے جو مثنوی کی صورت میں ہے۔ ویسے عطار کی ذہانت کے کیا ہی کہنے! قرآن پاک سے کیا ہی زبردست عنوان لیا ہے۔ یہ سورۃ النمل کی سولہویں آیت ہے: اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے، اور کہا‘ اے لوگو ہمیں منطق الطیر سکھائی گئی! یعنی پرندوں کی بولی سکھائی گئی! عطار کیمیا دان تھے اور طبیب۔ تصوف کی طرف کیسے مائل ہوئے؟ اس ضمن میں بھی ایک روایت مشہور ہے۔ عطار اپنی دکان پر کاروبار میں مصروف تھے۔ ایک فقیر آیا اور صدا لگائی۔ عطار مصروف تھے۔ کوئی توجہ نہ دی۔ فقیر نے پوچھا: کیسے مرو گے؟ آپ نے تنک کر جواب دیا: جیسے تم مرو گے۔ فقیر نے پوچھا: کیا میری طرح مرنا چاہو گے؟ یہ کہہ کر فقیر نے لکڑی کا پیالہ، جو اس کی کُل متاع تھا، سرہانے رکھا، زمین پر دراز ہوا، کلمہ پڑھا اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔ عطار نے یہ منظر دیکھا تو دل کی دنیا درہم برہم ہو گئی۔ دنیا اور اس کے علائق کو ترک کیا اور اُس راہ پر نکل گئے جس کی وجہ سے آج تک ان کا نام اور کام زندہ ہے ورنہ کیمیا دان اور طبیب تو لاکھوں کروڑوں ہوئے۔ خواجہ فرید الدین عطار کا مقام تصوف اور ادب دونوں لحاظ سے بہت بلند ہے۔ عطار اس مقام تک پہنچے کہ رومی نے بھی کہا:
ہفت شہرِ عشق را عطار گشت
ما ہنوز اندر خمِ یک کوچہ ایم
کہ عطار عشق کے سات شہروں کو سر کر چکے اور ہم ابھی گلی کے موڑ پر ہیں۔
عطار کی یہ مثنوی علم و حکمت کے جواہرات کا ذخیرہ ہے۔ مشرق و مغرب میں اس کی دھوم ہے۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے۔ ادب میں علامت کا استعمال ہمیشہ رہا ہے مگر جس طرح عطار نے ہُد ہُد کو اور اساطیری پرندے سیمرغ کو اور باقی پرندوں کو علامتوں کے طور پر استعمال کیا ہے اس کی مثال ہے نہ جواب! پرندے ہُد ہُد کی قیادت میں اپنے ان دیکھے بادشاہ سیمرغ کی جستجو میں سفر کرتے ہیں۔ ان میں توتا ہے اور چکور، تیتر ہے اور بلبل، مور ہے اور بٹیر، فاختہ ہے اور قمری، باز ہے اور مرغِ زریں‘ اور سارے جہان کے پرندے! یہ جان جوکھوں کا سفر ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے سات دشوار گزار وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلی وادی طلب کی ہے۔ دوسری وادی عشق کی ہے۔ تیسری وادی معرفت کی ہے۔ چوتھی وادی استغنا کی ہے۔ پانچویں وادی توحید کی ہے۔ چھٹی وادی حیرت کی اور ساتویں وادی فقر و غنا کی ہے۔ ان وادیوں اور گھاٹیوں کی صعوبتوں سے بہت سے پرندے جان سے گئے۔ کچھ دریاؤں میں ڈوب گئے۔ کچھ پیاسے مر گئے۔ بعض کو درندوں نے مار دیا۔ کچھ لا پتہ ہو گئے۔ کچھ تھکاوٹ کے مارے پیچھے رہ گئے۔ آخر میں صرف تیس پرندے منزل پر پہنچے۔ مگر منزل پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ تیس پرندے خود ہی سیمرغ تھے۔ (سیمرغ کا لغوی معنی بھی تیس پرندے ہی ہے) یعنی انسان جب ذات و صفات میں گم ہو جاتا ہے تو اپنے آپ کو پا لیتا ہے۔ عطار کے الفاظ میں
''جب تم تیس پرندے ہماری درگاہ میں حاضر ہوئے تو اس آئینے میں تم نے تیس پرندے دیکھے۔ تم بہت زیادہ مسافت طے کر کے آئے ہو لیکن یہاں آ کر تم نے اپنی ہی ہستی دیکھی ہے۔ تم نے گویا اپنے آپ ہی کو تلاش کیا ہے۔ آخر کار وہ پرندے ہمیشہ کے لیے اُس کی ذات میں غائب ہو گئے یعنی سایہ دھوپ میں گم ہو گیا اور بس‘‘
چار ہزار سے زیادہ اشعار کی یہ طویل نظم دنیا کے کلاسکس میں سے ہے۔ کوئی ترجمہ یا تلخیص اصل کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
عطار کا ذکر یوں چھڑ گیا کہ بُک کارنر جہلم سے عزیزم گگن شاہد نے منطق الطیر کا ضخیم مگر دیدہ زیب، نیا چھپا ہوا، خوبصورت تحفہ بھیجا ہے۔ یہ ایک قیمتی تحفہ ہے۔ قیمتی اُس قیمت کے اعتبار سے نہیں جو کتاب کی پشت پر درج ہے بلکہ اُس خزانے کے اعتبار سے جو کتاب کے 327 صفحات میں چھپا ہے۔ فارسی سے نابلد شائقینِ ادب کے لیے یہ ایک خوانِ یغما ہے۔ یہ ترجمہ محبوب کاشمیری صاحب نے کیا ہے اور محنت اور جانکاہی سے کیا ہے؛ تاہم، جیسا کہ کلامِ پاک میں فرمایا گیا ہے، فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْـمٌ۔ ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے۔ اگر پروفیسر معین نظامی یا پروفیسر شعیب احمد جیسے زعما، جو فارسی زبان و ادب پر غیر متنازعہ اتھارٹی ہیں، یہ کتاب ایک نظر دیکھ لیتے تو بہتر ہوتا۔ صرف ایک مثال دینا واضح کردے گا کہ یہ تجویز کیوں دی جا رہی ہے۔ دیباچے میں قوّت اور قُوت ہم معنی برتے گئے ہیں۔ مگر قوّت اور قُوت جو بظاہر ایک ہی لفظ لگتے ہیں، دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ قوت میں واؤ پر تشدید ہے۔ اس کا معنی طاقت ہے مگر قوت، حور، نور اور دور کے وزن پر ہے یعنی Qoot اس کا مطلب خوراک ہے۔ اسی سے قوتِ لا یموت بنا ہے۔ یعنی اتنی سی غذا جو بس موت سے بچائے رکھے۔ بہر طور مترجم اور ناشر دونوں تبریک کے مستحق ہیں۔