''امی کے بچپن کی Funny باتیں بتائیے‘‘ میرے نواسے نے کہا۔
اسے بتایا کہ اس کی امی نے کس طرح سعالین کی پوری شیشی کھا لی تھی۔ باہر کھیل رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آتی اور سعالین کی ایک گولی منہ میں ڈال کر پھر باہر کھیلنے چلی جاتی۔ یوں پوری شیشی کا صفایا کر دیا۔
یہ ایک دائرہ ہے جو گھومتا ہے۔ بچے جوان ہو جاتے ہیں تو ماں باپ ان کے بچپن کی باتیں یاد کرتے ہیں، تذکرے کرتے ہیں۔ ایک ایک واقعہ سنتے اور سناتے ہیں۔ پھر ان کے بچوں کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ اب وہ اپنے بچوں کی باتیں پوتوں نواسوں اور پوتیوں نواسیوں کو سناتے ہیں۔ یہ بچے ذرا بڑے ہوتے ہیں تو خود اپنے ماں باپ کے بچپن کے قصے پوچھتے ہیں اور سُن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پھر ایک مرحلہ وہ آتا ہے جب انسان اپنے دادا اور باپ کے دادا کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتا ہے اور افسوس کرتا ہے کہ جب وقت تھا اور بڑے زندہ تھے تو اُن سے ساری باتیں کیوں نہ پوچھیں؟ یوں یہ دائرہ، نامکمل ہو کر، مکمل ہو جاتا ہے۔ جب تک بہن بھائی ہوتے ہیں اور اپنے ہم عصر، تو مشترکہ یادیں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لی جاتی ہیں۔ ماضی کے واقعات دہرائے جاتے ہیں۔ پھر وہ سٹیج آتی ہے کہ ہر یاد دل میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے۔ بیوی بچوں کو ان یادوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ہم عصر اپنے اپنے گھروں میں مقید! گاؤں کی گلیاں، حویلیاں، پہاڑیاں اور کھیت یاد آتے ہیں مگر یہ یادیں لفظوں کا چولا پہن کر زبان پر نہیں آتیں۔ جس نہاں خانۂ دل سے ابھرتی ہیں، وہیں دفن ہو جاتی ہیں۔ اچانک ایک یاد ابھرتی ہے، کھانا کھاتے ہوئے، گلی میں پیدل چلتے ہوئے، کوئی کام کرتے ہوئے، پرائمری سکول یاد آ جاتا ہے، کیسے چھٹی سے پہلے بستے باندھ کر، آمنے سامنے، دو قطاروں میں کھڑے ہو کر، پہاڑے دہراتے تھے‘ اور دہراتے ہوئے، اوپر کا دھڑ، آگے ہو جاتا تھا جیسے حریف قطار کو نیچا دکھانا مقصود ہو۔ استاد صاحب دونوں قطاروں کی کارکردگی کو غور سے دیکھتے تھے۔ پھر یاد کا گھوڑا جست لگاتا ہے۔ صبح کی اسمبلی یاد آ جاتی ہے۔ طلبہ کے ناخن چیک کیے جاتے تھے۔ ہم ہتھیلیاں نیچے کی طرف کر کے ناخن دکھاتے تھے۔ جس طالب علم کے ناخن بڑھے ہوئے ہوتے تھے، اسے تنبیہ کی جاتی تھی۔ پانی پینے کے لیے کلاس سے باہر جانا ہوتا تھا تو مانیٹر سے پاس لینا ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک وقت میں صرف ایک لڑکا باہر جائے۔ سکول کے اندر ہی، ایک طرف، رہٹ چل رہا ہوتا۔ چاندی جیسا صاف شفاف پانی کیاریوں اور ناندوں میں گر کر رواں ہو رہا ہوتا۔ ہاتھوں سے اوک بنا کر یہ ٹھنڈا میٹھا پانی پیا جاتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے مکان، بہت سے کھیت، بہت سی پہاڑیاں، بہت سے راستے اب معدوم ہو چکے ہیں۔ جن صحنوں میں ہم کھیلے، ان میں دیواریں بنا کر حصے بخرے کر دیئے گئے۔ جہاں کھیت تھے اور کھیتوں کے درمیان چوراہے تھے، جہاں ہم کھیلتے تھے، وہاں اب محلے آباد ہیں۔ پہاڑیاں کاٹ کر سڑکیں بنا دی گئیں۔ راستے تبدیل کر دیئے گئے۔ مگر یادوں کے ذخیرے میں سب کچھ جوں کا توں محفوظ ہے۔ یہ کیسا جادو نگر ہے جہاں سب کچھ اصل حالت میں آج بھی موجود ہے اور جب حقیقت کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو منظر اور ہی ہوتا ہے۔ پھر آنکھیں بند کر کے سوچتے ہیں کہ یہاں پہلے کیا تھا؟ یہاں تو ایک کمرہ تھا۔ پھر اس کے اندر ایک اور کمرہ تھا جسے اگلا اندر کہا جاتا تھا۔ سردیوں میں گھر کے بڑے اس میں بیٹھتے تھے۔ ہم بچے اس میں داخل ہوتے تھے تو اندھیرے کا سامنا کرتے تھے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ہر شے نظر آنا شروع ہو جاتی تھی۔ نانا چارپائی پر نیم دراز نظر آتے۔ نانی جان اپنے تخت پوش پر قبلہ رو دکھائی دیتیں۔ یہ تخت پوش کیا تھا۔ پوری پینٹری تھی۔ چائے، چینی، گُڑ، شکر، الائچی، چورن کے ڈبے ترتیب سے تخت پوش کے سرہانے رکھے ہوتے۔ کام کرنے والی بُوا کو نانی جان پتی اور چینی خود نکال کر دیتیں تاکہ ضیاع نہ ہو۔ کیش کی کمی کا زمانہ تھا۔ ہر چیز کی قدر تھی۔ ماچس کی ایک ایک تیلی کی حفاظت کی جاتی۔ جس گھر میں چولہے میں آگ جل رہی ہوتی، وہاں سے دوسرے گھروں کی عورتیں آکر، انگارہ لے جاتیں جس سے اپنے چولہے میں آگ سلگا لیتیں۔ یوں ماچس کی تیلی بچ جاتی۔ سر شام لالٹین کا شیشہ صاف کیا جاتا۔ یہ شیشہ ٹوٹتا تو فوراً نیا شیشہ نہ آتا۔ اسی کو سریش سے جوڑا جاتا۔ ہمارے ہم عصروں کو یاد ہو گا۔ گلی میں پٹھان آیا کرتا، لوگ اسے ٹوٹے ہوئے چینی کے برتن دیتے جن کو ٹانکا لگا کر وہ پھر سے جوڑ دیتا۔ اس زمانے میں پشاور، ریستورانوں میں قہوہ، ایسی ہی چینکوں اور پیالیوں میں پیش کیا جاتا جن میں ٹانکے لگے ہوتے۔ پھر ایک اور یاد سر اٹھاتی ہے۔ آٹھویں جماعت میں ایک کلاس فیلو، جس کا نام نیاز تھا، بسوں کے عشق میں مبتلا تھا۔ یوں بھی پنڈی گھیب چونکہ جنکشن نہیں تھا اس لیے چند ہی بسیں وہاں سے چلتیں اور چند ہی آتیں۔ سڑک سکول کے ساتھ تھی۔ جیسے ہی بس گزرتی، نیاز نعرہ لگاتا پچیس انچاس راولپنڈی کی طرف چل پڑی۔ پھر کوئی بس گزرتی تو اطلاع دیتا ستر اکاسی تلہ گنگ سے آ گئی۔ صرف یہی نہیں، کرسی پر وہ ڈرائیور کی طرح ٹیک لگا کر بیٹھتا۔ ڈیسک کے نیچے پاؤں فرضی کلچ پر رکھ کر منہ سے بس سٹارٹ کرنے کی آواز نکالتا، پھر پاؤں فرضی ایکسلی ریٹر پر رکھ کر آواز میں شدت پیدا کرتا۔ کیا عجب آج وہ بسوں کا مالک ہو۔ سکول سے نکلے تو اس سے ملاقات آج تک نہیں ہوئی۔
پھر کسی وقت ایک اور یاد سر اٹھاتی ہے۔ سردیوں میں ہر کلاس اپنے لیے ٹاٹ گراؤنڈ میں بچھاتی۔ کمروں میں تو کرسیاں اور ڈیسک تھے۔ باہر صرف استاد صاحب کی کرسی ہوتی۔ گراؤنڈ اتنا وسیع و عریض تھا کہ سارے سکول کی کلاسیں (چھٹی سے دسویں جماعت تک کے کئی کئی سیکشن) گراؤنڈ پر منتقل ہو جاتیں اور درمیان میں اتنا فاصلہ بھی ہوتا کہ ایک کلاس کے استاد کی آواز دوسری کلاس میں نہ سنائی دیتی۔
تو پھر کیا انسان یہ یادیں اپنے اندر ہی رکھے؟ قہرِ درویش بر جانِ درویش؟ وہ لوگ تو میسر نہیں جن کے ساتھ ان یادوں کا اشتراک تھا۔ تو کس کے ساتھ بانٹی جائیں؟ سوداؔ نے بھی یہی سوال پوچھا تھا:
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں! ہے کہ نہیں؟
جی ہاں! اس کا علاج ہے! اور وہ ہے خود نوشت لکھنا۔ اپنی یادوں کو قرطاس و قلم کے سپرد کیجیے۔ لوگ انہیں دلچسپی سے پڑھیں گے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ صرف مشہور لوگ، جیسے سیاستدان، جرنیل، حکمران، سائنسدان یا سیاح ہی خود نوشت لکھیں! حقیقت یہ ہے کہ ایک عام شخص کی خود نوشت، ایک عام قاری کے لیے زیادہ دلچسپ ہوتی ہے۔ آپ خاکے دیکھ لیجیے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے نام دیو مالی کا خاکہ لکھا جو آج بھی ایک شہکار ہے۔ مظہر محمود شیرانی نے زندگی کے عام بلکہ پِسے ہوئے کرداروں کے خاکے لکھے اور کمال کر دیا۔ خود نوشت بھی ایک خاکہ ہی ہے جو بظاہر مصنف کا خاکہ ہے مگر اس میں کئی لوگوں کے خاکے آجاتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں خود نوشت لکھنے کا رواج عام ہے۔ عام لوگ ان عام لوگوں کی خود نوشتوں کو دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ عام قاری کو ایک عام انسان کی خود نوشت میں اپنی آپ بیتی نظر آتی ہے!!