جہلم کا دریا پار کیا تو سامنے سرائے عالمگیر کا قصبہ تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کھاریاں آگیا۔ یہاں سے ہم دائیں طرف مُڑ گئے۔ یہ وہ سڑک ہے جو ڈنگہ کو جاتی ہے۔ معروف مورخ ڈاکٹر صفدر محمود، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اصلاً ڈنگہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ہماری منزل ڈنگہ نہیں تھا۔ ہم نے ڈنگہ سے پہلے ایک گاؤں میں جانا تھا۔ پرانے دوست منظور صاحب ساتھ تھے۔ منظور صاحب دینہ کے ہیں۔ وہ ہماری رہبری کر رہے تھے۔ میجر طارق جاوید ملک بھی ہمراہ تھے۔ ہم کھاریاں ڈنگہ روڈ پر واقع اس بستی میں کیوں جا رہے تھے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک سو بتیس سال پیچھے جانا پڑے گا۔
یہ 1890 کا زمانہ تھا جب اکیس سالہ فتح دین ایک بحری جہاز سے اترا۔ سامنے پرتھ تھا۔ جنوب مغربی آسٹریلیا کا سب سے بڑا شہر! تب برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جنوبی افریقہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک اور آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک ملکہ کی حکمرانی تھی۔ سونے کی چڑیا، ہندوستان پر بھی انہی کا قبضہ تھا۔ آج کا ملائیشیا بھی انہی کے پاس تھا۔ ہانگ کانگ، زنجیبار اور مالٹا پر بھی انہی کا اختیار تھا۔ اس وسیع و عریض انگریزی سلطنت کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہندوستانی کہیں بھی جا سکتے تھے۔ زیادہ رجحان ہندوستانیوں کا جنوبی افریقہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرف تھا۔ آسٹریلیا کے ہولناک صحرا میں ریلوے لائن اور ٹیلیگراف لائن بچھانے کے لیے انگریز سرکار ہندوستان سے دو ہزار اونٹ اور اتنے ہی شتر بان لے گئی تھی۔ یہ شتربان کچھ افغان تھے اور باقی ان علاقوں سے تھے جو آج کے پاکستان میں شامل ہیں‘ مگر سب کو افغان ہی کہا جاتا تھا۔ آج بھی آسٹریلیا کے شمالی کنارے سے جنوبی ساحل تک چلنے والی ٹرین ''غان ایکسپریس‘‘ کہلاتی ہے۔ غان افغان کا مخفف ہے۔ بہت سے ہندوستانی پھیری کا کام بھی کرتے تھے۔ آبادیاں دور دور تھیں۔ پھیری والے، دکانوں سے اشیائے ضرورت خریدتے تھے اور بستی بستی، قریہ قریہ بیچتے تھے۔ اکثر ہندوستانی کچھ عرصہ رہ کر واپس چلے جاتے۔ کچھ آتے جاتے رہتے۔ کچھ نئے وطن ہی میں رہ جاتے۔ آسٹریلیا کے قومی آرکائیوز بتاتے ہیں کہ پہلے بیس برسوں کے دوران فتح دین چار بار ہندوستان واپس گیا اور اتنی ہی بار پھر آسٹریلیا آیا۔
1905 میں جب ایک بار پھر وہ آسٹریلیا کے ساحل پر اترا تو وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ اس کی پندرہ سالہ بیوی فاطمہ بھی تھی۔ آسٹریلیا کے قوانین سخت تھے۔ صرف ایک سال میں تینتیس ہندوستانیوں کو دوبارہ آنے دے روک دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے انگریز حکمرانوں نے اس پر اعتراض بھی کیا۔ ان کے نزدیک ہندوستانیوں کا آسٹریلیا آنا جانا اور بیویوں کو لانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ دونوں ملک ملکہ کے تھے مگر آسٹریلیا کے حکام ان سے اتفاق نہ کرتے۔ فتح دین ایک ہوشیار آدمی تھا۔ ضرورت پڑنے پر قوانین کو جُل بھی دے دیتا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے تھے۔ دوست مشکل وقت میں اس کے کام آتے۔ اسی لیے فتح دین بار بار آنے جانے اور آخرکار بیوی کو لانے میں کامیاب رہا۔ وہ وکیل بھی اچھے اور مشہور کرتا۔ سفید فام وزارت داخلہ کے لیے فتح دین ایک اور دھماکہ بھی کرنے والا تھا۔ ساحل پر اترنے کے چھ ماہ بعد فاطمہ بی بی نے ایک ہندوستانی بچے کو جنم دیا۔ اس کا نام عبدالمجید محمد عیسیٰ رکھا گیا۔ فاطمہ کا کوئی اپنا یہاں نہ تھا مگر فتح دین کے دوستوں کے کنبے فیاض تھے۔ انہوں نے ہر طرح کی مدد کی۔ اٹھارہ ماہ بعد دوسرا بچہ پیدا ہوا۔ یہ عبدالاحمد محمد موسیٰ تھا۔ ہندوستان جانے کی صورت میں دونوں بچے آسٹریلیا واپس آسکتے تھے کیونکہ ان کی پیدائش یہاں کی تھی۔ بڑا بچہ تین سال کا ہوا تو فاطمہ بی بی وطن واپس چلی گئی۔ وہ آسٹریلیا کبھی نہ لوٹی۔ دونوں بیٹوں کو ماں کے پاس چھوڑ کر فتح دین ایک بار پھر بحری جہاز پر سوار ہوا اور آسٹریلیا واپس پہنچ گیا۔
اگلے دس سال میں فتح دین نے اپنی پوزیشن خاصی مستحکم کر لی۔ وہ ایک مستقبل بین شخص تھا۔ انگریزی لباس پہنتا۔ پگڑی اور داڑھی سے احتراز کرتا۔ سرکار سے کام پڑتا تو وکیل کی خدمات حاصل کرتا۔ یوں اس نے اپنے آپ کو ہندوستانی شتربانوں اور پھیری والوں سے الگ، ایک جنٹلمین کے طور پر رکھا اور نسبتاً اونچے طبقے میں شمار ہونے لگا۔ جلد ہی اس نے اپنا بزنس بھی کھڑا کر لیا۔ ایک ''نائٹ واچ کمپنی‘‘ قائم کی۔ اس کے ماتحت چوکیدار پیدل یا سائیکلوں پر سر شام نکلتے، دکانوں میں چراغ جلاتے بجھاتے اور چوروں سے خبردار کرتے۔ یہ ہندوستانی دیہات کا چوکیدارہ نظام تھا جو فتح دین نے آسٹریلیا میں چلا ڈالا۔ وہ اپنے نام کے ساتھ مرزا لکھنے کا اہتمام کرتا۔ مغل تھا اور اس کے ذہن کے ایک گوشے میں یہ احساس ضرور موجود تھا کہ مغلوں کی ہندوستان میں فرماں روائی رہی ہے۔
تیرہ نومبر 1905 کو پرتھ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ زبردست حسن اتفاق تھا کہ فتح دین کے بڑے بیٹے عبدالمجید کی تاریخ پیدائش بھی یہی تھی۔ مسجد کی تعمیر کے لیے مالی امداد دینے والوں کے نام جس رجسٹر میں لکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح دین نے چھ پونڈ دیے۔ پانچ اپنے اور ایک پونڈ اپنے بیٹے عبدالمجید کے نام سے۔ دس سال میں اتنی رقم جمع ہوئی کہ مسجد مکمل ہو سکی۔ رجسٹر سے پتہ چلتا ہے کہ افغان، پنجابی، سندھی، بنگالی، سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ ایک دو ہندوستانی غیر مسلموں نے بھی فیاضی دکھائی۔ افغان اور ہندوستانی مسلمان جو ایک دوسرے سے جھگڑتے رہتے تھے، مسجد کے معاملے میں یکجان ہو گئے۔ آج پرتھ میں بیس کے قریب مسجدیں اور نماز ادا کرنے کے مقامات ہیں مگر پہلی مسجد یہی تھی جس کی بنا ایک سو سترہ سال پہلے رکھی گئی۔ اس کالم نگار کو اس مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا مبارک موقع ملا۔ یہ ایک دلکش اور وسیع عمارت ہے۔ بیرونی طرف ایک خوبصورت آنگن (Patio) ہے جہاں ایک بڑا سا درخت کھڑا ہے۔ ایک لمحے کے لیے وہاں مسجد قرطبہ یاد آ گئی جس کے بیرونی اطراف میں ایسے ہی باغ نما آنگن ہیں۔
فاطمہ بی بی اس سارے عرصہ کے دوران ہندوستان ہی میں رہی۔ دونوں بیٹے اس کے پاس تھے۔ 1925 میں بڑا بیٹا عبدالمجید بیس سال کا ہوا تو آسٹریلیا واپس آیا۔ پرتھ پہنچا تو امیگریشن والوں نے اس بات کا ثبوت مانگا کہ یہ وہی بچہ ہے جو بیس سال پہلے پرتھ میں پیدا ہوا تھا۔ یہ ایک جائز سوال تھا اور اس کا جواب مشکل تھا۔ یہاں فتح دین کی کامیاب سوشل لائف کام آئی۔ دو سفید فام عورتوں نے گواہی دی کہ یہ وہی بچہ ہے۔ یہ دونوں پرتھ میں ایک چائے خانہ چلا رہی تھیں۔ ان سے دلیل مانگی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ فتح دین ان کے پاس اٹھتا بیٹھتا ہے اور جب بھی اس کے بیٹے کی تازہ تصویر ہندوستان سے آتی تو وہ انہیں ضرور دکھاتا۔ یوں تصویری لحاظ سے عبدالمجید ان کے سامنے ہی بڑا ہوا ہے۔ یہ گواہی مان لی گئی اور یوں سترہ سال ہندوستان میں گزارنے کے بعد یہ لڑکا ایک بار پھر پرتھ میں آموجود ہوا۔ پرتھ ہی اس کی جنم بھومی تھی۔ اس کی والدہ فاطمہ بی بی، جو آسٹریلیا کبھی واپس نہ آئی، کینسر میں مبتلا ہو کر اپنے گاؤں میں وفات پا گئی۔ فاطمہ کے دوسرے بیٹے کا بھی، جو پرتھ میں پیدا ہوا تھا، گاؤں ہی میں انتقال ہوا۔ تیسرا بیٹا انور تھا۔ بڑا بھائی عبدالمجید آسٹریلیا سے اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ ہم آپ کی خدمت میں کل عرض کریں گے۔