مری کے اندوہناک معاملے میں بظاہر تین فریق ہیں۔ سیاح، اہلِ مری اور حکومت۔ مگر ذرا غور کیجیے تو سیاح اور اہلِ مری ایک ہی کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہر دو کا تعلق مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے ہے۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ ہر جگہ اچھے اور برے‘ دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے مدد بھی کی‘ مگر انسان کی فطرت کی خاصیت ہے کہ منفی پہلو کو زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ اس کی تشہیر خوب ہوتی ہے۔ سن کر اور پڑھ کر جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے اور متاثرین کی حالت زار کا سن کر ذہن پر غم کے بادل چھا جاتے ہیں۔
مری کے کچھ کاروباری حضرات کا رویہ یقینا ناقابل رشک رہا۔ کمروں کے کرائے اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں ظلم کی حد تک بڑھا دیں۔ مجبور مسافروں کا استحصال کیا۔ لڑکے بالے گاڑیوں کو دھکا لگانے کے بھی دام لیتے رہے۔ ایک خاندان کو اپنی خاتون کے زیور دے کر کمرہ حاصل کرنا پڑا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا؛ تاہم ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مری ایک جزیرہ ہے؟ کیا یہ باقی پاکستان سے کٹا ہوا ہے؟ کیا کسی اور پاکستانی شہر میں ایسا بالکل نہ ہوتا؟ کیا خود غرضی کا یہ مظاہرہ ملک بھر میں صرف اہلِ مری نے کیا ہے؟ نہیں! جناب نہیں! مری کے لوگ اگر دیگ کا چاول ہیں تو ہم سب، بحیثیتِ قوم، یہ دیگ ہی تو ہیں! دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہمارا قومی شعار ہے۔ رمضان میں کیا ہوتا ہے؟ غیر مسلم ملکوں میں رمضان اور عید پر سیل لگتی ہے مگر اسلام کے اس قلعے میں قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ جب لوگوں نے تہوار منانے اپنے آبائی گھروں کو جانا ہوتا ہے تو بسوں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کیا ہم لوگوں کی زندگیوں سے نہیں کھیل رہے؟ خوراک میں ملاوٹ کا تو ذکر ہی کیا، ادویات جعلی بنا کر ہم لوگوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتار رہے؟ کیاجعلی سٹنٹ نہیں بن رہے اور کیا بغیر ضرورت کے لوگوں کے دلوں میں جعلی سٹنٹ نہیں ٹھونسے جا رہے؟ ایک معروف اینکر کو راولپنڈی کے ایک مشہور، بڑے اور پرانے ہسپتال میں بتایا گیا کہ دل کا معاملہ نازک ہو رہا ہے، سٹنٹ ڈالنے پڑیں گے۔ انہیں دوا دی گئی تاکہ دو دن دوا کھانے کے بعد آکر سٹنٹ ڈلوائیں۔ انہوں نے اس کالم نگار سے رابطہ کیا۔ دو عزیزوں کو، جو امراضِ قلب کے ماہر ہیں‘ ان کی رپورٹیں بھیجی گئیں۔ ایک بیرون ملک اور دوسرے اندرون ملک۔ دونوں نے کہا کہ کسی سٹنٹ کی ضرورت نہیں۔ چار سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا‘ وہ صاحب تندرست اور سلامت ہیں! یہ فریب کاری عام ہے۔ بیمار کے لواحقین کی ہڈیاں تک بھنبھوڑ لی جاتی ہیں۔ کون سا موقع ہے جب استحصال نہیں کیا جاتا؟ کون سا شعبہ ہے جہاں مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا؟ کیا ہم وہی نہیں جو تیل کا ٹینکر الٹنے پر گھروں سے دیگچیاں اور پتیلے لے کر لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں؟ جس ملک میں چوری شدہ گاڑیوں کے تاوان، گاڑیوں کے اصل مالکوں سے، قابلِ احترام جگہوں پر بیٹھ کر، وصول کیے جاتے ہیں، اس ملک کے لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ مَری یا کسی بھی دوسرے شہر کو نشانے پر رکھ لیں! مصطفی زیدی نے کہا تھا:
حدیث ہے کہ اصولاً گناہگار نہ ہوں
گناہگار پہ پتھر سنبھالنے والے
اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں
کسی کی آنکھ سے کانٹے نکالنے والے
سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کوئی حکومت ہے یا نہیں؟ دنیا کے مہذب ملکوں میں جب بھی طوفان آنے کی پیشگوئی کی جاتی ہے، خواہ یہ طوفان سمندری ہو یا برف کا ہو یا آندھی ہو، حکومتیں اس تواتر سے وارننگ دیتی ہیں کہ یہ وارننگ عوام کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے اور عوام، چاہیں یا نہ چاہیں، اس پر عمل کرتے ہیں۔ پھر ٹریفک کو کنٹرول کرنا، برف کو ہٹانا اور طوفان آنے کی صورت میں ایک ایک سیاح کو محفوظ مقام پر پہنچانا، یہ سب حکومتوں کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ جو صورت حال پیش آئی، مری کی انتظامیہ کو اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہونا چاہیے تھا۔ کہاں تھی یہ انتظامیہ؟ کون تھا اس کا سربراہ؟ کیا اب تک اسے کٹہرے میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ تئیس اموات کے بعد (کون جانے اصل تعداد کیا ہے) وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر پر دورہ کرنا ایک مضحکہ خیز عمل کے سوا کچھ نہیں! پھر اس موقع پر مری کو ضلع بنانے کا اعلان اور بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ خدا کے بندو! جب تحصیل نہیں سنبھالی جا رہی تو ضلع کون سنبھالے گا؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے مڈل سکول نہیں چل رہا تو اسے ہائی سکول بنا دیا جائے۔ جس سے کھوکھا نہیں چل رہا اسے سپر سٹور پر بٹھا دیا جائے! مری جانے کے سینکڑوں راستے تو نہیں، کراچی‘ فیصل آباد‘ لاہور‘ گوجرانوالہ اور کے پی کے اکثرو بیشتر اضلاع سے آنے والے ایک ہی راستے سے مری میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مری میں داخل ہونے والی اور واپس آنے والی گاڑیوں کا حساب رکھنا ناممکن نہیں! اسلام آباد ہی میں گاڑیوں کو روک دینا چاہیے تھا تاکہ وہیں سے سیاح متبادل مقامات کا رُخ کر جاتے۔ یہ اعداد و شمار پبلک کے لیے آن لائن میسر ہونے چاہئیں تھے۔
معاشرے میں اس قدر گھٹن ہے اور تفریح کا اتنا قحط ہے کہ جہاں ذرا سی فراخی کا امکان ہو، لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ گھر سے باہر ایک ہی تفریح ہے، کسی ریستوران میں جا کر کھانا کھا آئیے۔ بس! ماحول میں شدت پسندی ہے۔ ایک خاص قسم کا مائنڈ سیٹ عام ہو رہا ہے یا عام کیا جا رہا ہے! کچھ کرتے ہوئے، کچھ کہتے ہوئے، خوف آتا ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے۔ بات کرتے ہوئے بھی لوگ ڈرتے ہیں۔ گھر کے اندر کسی مذہبی یا مسلکی مسئلے پر بحث چھِڑ جائے تو ماں باپ گڑگڑا کر بچوں کی منت کرتے ہیں کہ خدا کے لیے باہر، بازار، دفتر یا کارخانے میں کسی قسم کی بحث کرنی ہے نہ بحث میں حصہ لینا ہے۔ عدم برداشت کا جو بیج پینتیس چالیس پہلے بویا گیا تھا آج وہ تناور درخت بن چکا ہے۔ سکیورٹی کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ خواتین کو گھورنے کی مکروہ بیماری عام ہے۔ بچے اپنی گلی میں بھی نکلیں تو ماں باپ فکرمند ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں جب کوئی شام خوشگوار موسم کی نوید سنائے یا مری میں برفباری کا امکان دکھائی دے تو لوگ، جوق در جوق، بالکل اسی طرح باہر نکل پڑتے ہیں جیسے شدید قحط کے دوران خبر ملے کہ کھانے پینے کی چیزیں بٹ رہی ہیں تو بھوکی خلقت ٹوٹ پڑتی ہے۔
ازدحام کی صورت حال مری میں ہر عید کے موقع پر پیدا ہوتی ہے۔ بارہ کہو کے تنگ بازار میں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں۔ مقامی لوگ الگ عذاب میں پڑتے ہیں۔ شریف حکومت نے اوور ہیڈ پُل کا وعدہ کیا تھا مگر پورا نہ کیا۔ موجودہ حکومت نے بھی اس ضمن میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ وزیر اعظم کے دفتر کی عین بغل میں واقع یہ آبادی غیر ملکیوں سے اٹی پڑی ہے۔ سکیورٹی صفر ہے۔ اور یہی راستہ مری کا ہے۔ بنی گالا بھی، جہاں وزیر اعظم رہتے ہیں، اسی راستے میں پڑتا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی مشکل تو آسان کر لی۔ ہیلی کاپٹر پر آتے جاتے ہیں۔ رہے عوام! تو حالیہ اموات کے بعد وہ اپنا نفع نقصان خود سوچ لیں کہ گھر سے نکلنا چاہیے یا نہیں!!!