شام کے کھانے میں کھچڑی اور دہی دیا گیا مگر قے ہو گئی۔ مریض کی حالت یہ تھی کہ سادہ سے سادہ خوراک بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ تیماردار خوراک بدل بدل کر دے رہے تھے۔ ناشتے میں کبھی دلیا کبھی ٹوسٹ۔ دوپہر کے کھانے میں چپاتی اور شوربہ۔ یہ بھی ہضم نہ ہوتا تو اُبلے ہوئے چاول اور دال کھلائی جاتی۔ مگر مریض کچھ بھی نہ ہضم کر سکتا۔ تیماردار احمق تھے یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم! سارا زور خوراک بدلنے پر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مسئلہ کھانے پینے کا ہے۔ ضرور کوئی ایسی غذا ہے جو ہم آزما نہیں رہے! جیسے ہی وہ غذا دریافت ہو گئی‘ مریض تندرست ہو جائے گا۔ دوسرے ملکوں کے کھانے بھی آزمائے گئے۔ کبھی چینی‘ کبھی اطالوی‘ کبھی لبنانی‘ کبھی مراکشی‘ کبھی جنوبی ہند کا دوسہ اور چٹنیاں! مگر بات نہ بنی۔ پھر ایک سیانا آیا! اس نے کہا بے وقوفو! عقل کے اندھو! خوراک کا مسئلہ نہیں! مسئلہ مریض کے معدے میں ہے۔ معدے کا علاج کرو! معدہ ٹھیک ہو گیا تو جو غذا بھی دو گے‘ راس آجائے گی!
یہ جو بحث چل رہی ہے کہ صدارتی نظامِ حکومت بہتر ہے یا پارلیمانی تو یہ بالکل وہی بات ہے کہ خرابی معدے میں ہے اورمعدے کا علاج کرانے کے بجائے خوراک بدل بدل کر دی جا رہی ہے! خدا کے بندو! صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی‘ بادشاہی ہو یا جمہوریت‘ جب تک رُول آف لا نہیں ہو گا‘ جب تک امرا کے غلبے (پلوٹوکریسی) سے جان نہیں چھوٹے گی‘ جب تک قانون ناداروں کے لیے سخت اور مالداروں جاگیرداروں کے لیے نرم رہے گا‘ نظام بدلنے سے کوئی فائدہ نہیں! اور اگر ان نحوستوں کا خاتمہ کر دیا جائے تو ہر نظام کامیابی سے چلے گا!
تین ملکوں کی مثال لے لیجیے۔ برطانیہ میں پارلیمانی نظام ہے۔ امریکہ میں صدارتی نظام ہے اور یو اے ای میں موروثی بادشاہت کا نظام ہے۔ تینوں نظام کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ان ملکوں میں ہر کچھ سال کے بعد یہ بحث نہیں چلائی جاتی کہ نظام بدلا جائے اس لیے کہ تینوں ملکوں میں رُول آف لا ہے‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ سفارش کلچر عنقا ہے۔ صدر کلنٹن کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ حبشی غلاموں کا بیٹا ملک کا صدر بن گیا۔ سفید فاموں نے اس کی اطاعت کی۔ افریقی نژاد کونڈولیزا رائس طاقتور وزیر خارجہ بنی۔ کون سی کونڈولیزا رائس؟ جس نے اپنی تصنیف (ڈیموکریسی: سٹوریز فرام دی لانگ روڈ ٹو فریڈم) میں خود لکھا ہے کہ:
My great-great-grandmother Zina on my mother's side bore five children by different slave owners, and my great-grandmother on my father's side, Julia Head, carried the name of the slave owner.
کہ میری پرنانی کی ماں 'زینا‘ کے پانچ بچے تھے اور پانچوں مختلف آقاؤں سے تھے۔ (آقاؤں سے مراد غلاموں کے مالکان ہیں)! اور میری پردادی‘ جُولیا ہیڈ‘ کا نام اپنے مالک کے نام پر تھا۔
تو کیا یہ سب کچھ صدارتی نظام کی برکت ہے؟ نہیں! یہ میرٹ اور صرف میرٹ کا سسٹم ہے جس نے غلام زادوں کو حکمران کر دیا۔ برطانیہ میں جو کچھ ہوتا ہے‘ جس کی ہم صرف حسرت کر سکتے ہیں وہ پارلیمانی نظام کی وجہ سے نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ چند اُمرا اور ان کے خاندان ملک کو ہائی جیک نہیں کر سکتے۔ بس ڈرائیور کی بیٹی ہاؤس آف لارڈز کی رکن بنتی ہے۔ ایک بس ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بن جاتا ہے۔ ایک اور بس ڈرائیور کا بیٹا ملک کا وزیر داخلہ ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیا اس کی وجہ پارلیمانی نظام ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر برطانیہ میں یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ وہاں بھی تو پارلیمانی نظام ہے؟ رُول آف لا کا اور میرٹ کا تعلق پارلیمانی یا صدارتی نظام سے نہیں ہے۔ یو اے ای میں بادشاہت ہے مگر رُول آف لا ہے۔ سفارش نہیں چلتی! شاہی خاندان کے افراد کے بھی چالان ہوتے ہیں۔
یہاں صدارتی نظام بھی وہی نتائج دے گا جو پارلیمانی نظام دے رہا ہے۔ متوقع وزیر اعظم بیرون ملک جا رہے ہوتے ہیں تو ان کے ہمراہ جانے والے کا نام ای سی ایل سے فوراً ہٹا دیا جاتا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا سربراہ کس کو اور کیسے لگایا گیا‘ کوئی راز کی بات نہیں! رِنگ روڈ سکینڈل ہو یا کوئی اور سکینڈل‘ یا پنڈورا پیپرز‘ کابینہ سے کوئی استعفیٰ دیتا ہے نہ حکومت کسی کو ہٹاتی ہے نہ پارٹی! پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے‘ ایسے میں صدارتی نظام کیا کر لے گا؟
امریکہ میں صدارتی نظام ہے۔ اس صدارتی نظام میں کسی پارٹی پر کسی خاندان کا قبضہ نہیں۔ پارٹیوں کو ان کی ''نیشنل کمیٹیاں‘‘ چلاتی ہیں۔ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور ری پبلکن نیشنل کمیٹی۔ یہ نیشنل کمیٹیاں فنڈ اکٹھے کرتی ہیں۔ پارٹی کی پالیسی اور حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ ہر چار سال کے بعد ملک گیر کنونشن کا انعقاد کرتی ہیں جہاں صدارت کا امیدوار چنا جاتا ہے۔ ان کمیٹیوں کا ڈھانچہ اور نیٹ ورک نچلی سطح تک ہے۔ ہر کاؤنٹی میں اور ہر ریاست میں پارٹی انتخابات ہوتے ہیں۔ گزشتہ بائیس برسوں کے دوران ری پبلکن نیشنل کمیٹی کے گیارہ سربراہ آئے اور گئے۔ یہی حال ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کا ہے۔ ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے کسی پارٹی کی لیڈرشپ ہی نہیں بدلی۔ مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جے یو آئی‘ کہیں بھی پارٹی کے اندر الیکشن نہیں ہوتے۔ آئندہ بھی بظاہر کوئی امکان نہیں۔ ایم کیو ایم‘ جب ایک تھی تو ایک فرد کے قبضے میں رہی۔ اب تو اس کے یوں بھی حصے بخرے ہو چکے۔ جماعت اسلامی کے اندر الیکشن ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے قومی سطح پر انتخابی سیاست میں آزاد حیثیت سے جماعت کوئی کردار نہیں ادا کر سکتی۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ پارلیمانی نظام کا ہم نے حشر کیا کیا! بیس‘ تیس برسوں میں برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے درجنوں سربراہ آئے اور گئے۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں نواز شریف‘ زرداری صاحب‘ مولانا صاحب اور عمران خان ہی پارٹیوں کی مستقل شناخت ہیں۔ جو پارلیمانی نظام ہمارے ہاں رائج ہے‘ وہ لولا لنگڑا‘ اپاہج پارلیمانی نظام ہے۔ صدارتی نظام لے آئیے۔ ایسا ہی لولا لنگڑا اپاہج ہو گا۔ گھوڑوں کی خرید و فروخت جاری رہے گی۔ موسمی پرندے جھیلوں کے کناروں پر آکر بیٹھیں گے اور اُڈاری مار کر غائب ہوتے رہیں گے۔ پلوٹوکریسی ہی کا غلبہ رہے گا یعنی امرا کی حکومت! پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور قاف لیگ کی نئی نسل جو اسمبلیوں میں پہنچی ہے یا سیاسی پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے‘ ارب پتی ہے۔
ایک لاحاصل بحث چھیڑ دی جاتی ہے۔ جو سیاست دان پارلیمانی نظام کی حمایت کر رہے ہیں‘ اصل اور خالص پارلیمانی نظام نافذ کیا جائے تو ان کا اصل روپ بھی سامنے آ جائے گا۔ جن سے ٹریفک کا نظام نہیں درست ہو سکتا‘ تھانوں اور کچہریوں کا نظام دیانت اور امانت سے نہیں چلایا جا سکتا‘ وہ پارلیمانی اور صدارتی نظام کیسے چلا سکتے ہیں؟ ہمارا مسئلہ نظام کا نہیں نیت کا ہے۔ قاتلوں کو جیل خانوں سے ''ہسپتالوں‘‘ میں منتقل کر دیا جاتا ہے‘ مریضوں پر حملہ آور ہونے والے جتھوں کا آپ بال بیکا نہیں کر سکتے‘ چوک پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک کے سپاہی کو سردار کی گاڑی کچل دیتی ہے اور کچھ بھی نہیں ہوتا‘ اور باتیں کرتے ہیں آپ صدارتی اور پارلیمانی نظام کی! سچ پوچھیے تو آپ ہنساتے بہت ہیں!