اگر عمران خان کے سر پر اقتدار کا ہما ایک بار پھر بیٹھتا ہے تو جن سوراخوں سے وہ پہلے ڈسے گئے‘ کیا ان سے بچنے کی کوشش کریں گے؟ یہ تو طے ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دوبارہ نہیں بھیجیں گے مگر جن غلطیوں کا ابھی انہوں نے اعتراف نہیں کیا‘ کیا ان سے بھی احتراز کریں گے؟
ان کے حامی جس الزام پر سب سے زیادہ بے بسی کا سامنا کرتے ہیں وہ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ان کا اتحاد تھا۔ اپنے مخالفین کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو چور کہتے تھے‘ مگر وہ خود بھی تو کہتے تھے کہ فلاں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے۔ پھر اس سے اتحاد کر لیا۔ کیا دوبارہ اقتدار میں آ کر وہ ایسا ہی کریں گے؟ کیا شیخ رشید ہی کو وہ اپنا وزیر داخلہ مقرر کریں گے؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عثمان بزدار ہی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ تعینات کریں گے؟ کیا آئی جی اور چیف سیکرٹری کو ہر چند ہفتوں بعد تبدیل کر دیا جائے گا؟ کیا عثمان بزدار سرکاری بجٹ سے بنی ہوئی کسی عمارت پر دوبارہ اپنے والد صاحب کا نام کَندہ کرائیں گے؟
سابق وزیر اعظم‘ دوبارہ وزیر اعظم بنے تو دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے کیا سرکاری خرچ پر ہیلی کاپٹر کا استعمال پھر سے شروع کریں گے؟ ان کے لیے حکومت کی طرف سے سرکاری قیام گاہ موجود ہے۔ اگر وہ اس میں رہتے تو قومی خزانہ اٹھانوے کروڑ کے اخراجات سے بچ سکتا تھا! چلیں کراچی تو ایک دور افتادہ مقام ہے۔ اس کے لیے انہوں نے جہاز چارٹر کرایا جس کا کرایہ مبینہ طور پر انتیس لاکھ روپے تھا‘ مگر ان کا گھر تو ان کے دفتر سے زیادہ دور نہ تھا۔ اگر وہ گاڑی میں آتے جاتے تو کیا عجب راستے میں پڑتی آبادیوں کی قسمت بدل جاتی۔
کیا وہ دوبارہ سٹیٹ بینک کو حکومت پاکستان کے بجائے آئی ایم ایف کا دست بستہ چاکر بنا دیں گے؟ کیا دوبارہ آئی ایم ایف کے کسی تنخواہ دار ملازم کو درآمد کر کے سٹیٹ بینک کا گورنر بنائیں گے؟ اور اتنی ہی تنخواہ اور اتنی ہی مراعات پر؟ خان صاحب کی حکومت نے سٹیٹ بینک کے گورنر کے لیے جو تنخواہ اور جو مراعات منظور کی ہیں ان کی تفصیل کالم نگار کے اُس کالم میں پڑھی جا سکتی ہے جو روزنامہ دنیا میں اِسی سال چودہ فروری کو چھپا۔ اگر آپ کے اعصاب نسبتاً کمزور ہیں تو یہ تفصیل پڑھنے سے اجتناب کیجیے۔ عمران خان نے جو مشاہیر اور تجربہ کار افراد اپنی کابینہ میں رکھے تھے‘ کیا انہی کی مدد سے دوبارہ اپنی حکومت کی تشکیل کریں گے؟ کیا عمر ایوب خان‘ اعظم سواتی‘ فہمیدہ مرزا‘ خسرو بختیار‘ فردوس عاشق اعوان‘ ڈاکٹر عشرت حسین‘ زبیدہ جلال‘ حفیظ شیخ‘ اور شوکت ترین کے بغیر ان کی اُس حکومت کی کابینہ مکمل ہو جائے گی جو انہیں قدرت دوسری بار عطا کرے گی؟
عمران خان دوبارہ حکمران بنے تو کیا وہ اتنے ہی منتقم مزاج ہوں گے؟ کیا ان کا تکیہ کلام وہی ہو گا کہ چھوڑوں گا نہیں! بندوق کے نشانے پر رکھوں گا! کیا اپنے مخالفین کو وہ دوبارہ جیل یاترا کرائیں گے؟ کیا صحافیوں‘ اینکروں‘ اور میڈیا ہاؤسز کے مالکوں سے گن گن کر بدلے لیں گے؟ کیا ایف آئی اے کے سربراہ کو طلب کر کے پھر وہی احکام دیں گے کہ فلاں کو پکڑو اور فلاں کے خلاف مقدمہ کھڑا کرو۔ کیا دوسری بار وزیر اعظم بن کر ان کے تکبر کا وہی عالم رہے گا جو پہلی بار بننے کے بعد ان پر غالب رہا؟ کیا وہ اپنے مخالفین سے بات کرنے اور ہاتھ ملانے سے تب بھی انکار کریں گے؟ ان کا موقف یہ تھا کہ ہاتھ ملانے کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی چوری کو قبول کر لیا۔ عمران خان دنیا بھر میں گھومتے پھرتے رہے۔ انہوں نے کئی ہندوئوں‘ کئی یہودیوں اور کئی مسیحیوں سے ہاتھ ملایا ہو گا۔ کیا ان سے ہاتھ ملانے کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے ان کا مذہب قبول کر لیا؟ آخر چودھری پرویز الٰہی سے بھی تو ہاتھ ملاتے رہے۔ رہا معاملہ بات نہ کرنے کا تو ہمارے رسولﷺ اور ان کے اصحاب تو کفار سے بھی بات چیت کرتے رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمانؓ کو تو مکہ بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ کفار سے بات چیت کریں۔ عمران خان کے عہدِ اقتدار میں جو اپوزیشن کے ارکان تھے‘ وہ جتنے بھی گنہگار ہوں‘ مسلمان تو تھے۔ اگر مکہ کے کفار سے بات ہو سکتی تھی تو اپوزیشن ارکان سے کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟ اگر عمران خان دوسری بار حکمران بنے تو کیا دوبارہ وہ اپنے مخالفین کے برے برے نام رکھیں گے؟ اور کیا مفتی تقی عثمانی صاحب اور چودھری شجاعت حسین دوبارہ ان کی توجہ سورۃ الحجرات کی طرف مبذول کرنے کی ناکام کوشش کریں گے؟
سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ دوسری بار تخت نشین ہو کر کیا وہ اپنی تقریروں سے وہ حصے ختم کر دیں گے جنہیں سن سن کر خلقِ خدا عاجز آ گئی تھی۔ یہ کہ انہوں نے ورلڈ کپ جیتا۔ یہ کہ وہ آخری بال تک کھیلیں گے۔ یہ کہ مغرب اور ہندوستان کو جتنا وہ جانتے ہیں اتنا کوئی اور نہیں جانتا۔ یہ کہ فلاں فلاں اور فلاں چور‘ ڈاکو اور لٹیرے ہیں اور یہ کہ انہوں نے بائیس سال جدوجہد کی! اور ہاں دوسری بار سریر آرائے سلطنت ہو کر کیا وہ انہی شعلہ صفت حضرات کو اپنا ترجمان مقرر کریں گے جن کی زبان کی تلواریں ہر چہار طرف مار کرتی تھیں‘ میدان لاشوں سے پٹ جاتے تھے اور کشتوں کے پشتے لگ جاتے تھے۔ کیا دوبارہ حکومت ملنے کی صورت میں سابق وزیر اعظم پھر دوست نوازی کا مظاہرہ کریں گے؟ فنڈز اکٹھا کرنے والے پرانے خدمت گاروں کو کیا ایک بار پھر اعلیٰ مناصب پر فائز کریں گے؟
اور آخری سوال یہ کہ کیا دوبارہ برسرِ اقتدار آ کر عمران خان صاحب امورِ خارجہ کو اسی طرح نمٹائیں گے جس طرح وہ پہلے نمٹاتے آئے ہیں؟ مثلاً یورپی یونین کے بارے میں انہوں نے جو ڈسکشن کی یا جو بحث کی‘ وہ جنوبی پنجاب کے ایک عوامی جلسے میں کی۔ اس جلسے میں حاضرین کی بہت بڑی تعداد کو شاید یہ بھی نہ پتا ہو گا کہ یورپی یونین کیا چیز ہے۔ خارجہ امور کی جو حساس حیثیت ہے‘ اس کے پیش نظر دوسرے ملکوں کے سربراہانِِ حکومت اور صدور وغیرہ لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہیں تاکہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہ رہے اور بعد ازاں توضیحات کی ضرورت نہ پیش آئے۔ عمران خان صاحب خارجہ امور کی نزاکت کو سامنے رکھے بغیر دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کو اس طرح ڈسکس کرتے تھے جیسے امورِ خانہ کا ذکر کر رہے ہوں۔ یہ معاملہ تو وزارتِ خارجہ کے ساتھ مل کر‘ ان کی ہدایات کی روشنی میں طے کرنا چاہیے۔ وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو کیا وہ اسی طرح خارجہ امور نمٹائیں گے؟ ہمارے خارجہ تعلقات ان کے دور میں مڈل ایسٹ کے ممالک کے ساتھ بھی اچھے نہیں رہے‘ ترکی کو بھی انہوں نے ایک دفعہ شرمندہ کیا‘ مہاتیر محمد کے ساتھ بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے۔
چونکہ تادم تحریر خان صاحب نے ان اقدامات کو غلطیوں میں شمار نہیں کیا‘ اس لیے منطق کہتی ہے کہ یہ سب کام دوبارہ ہوں گے۔