ایک معروف کالم نگار نے لکھا تھا کہ ایک جلوس امریکہ کے خلاف نکلا ہوا تھا۔ مقررین دھواں دھار تقریریں کرتے اور جلوس میں شامل عوام'' امریکہ مردہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ اچانک سٹیج سے اعلان ہوا کہ جو لوگ گرین کارڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ جلوس سے نکل کر دوسری طرف کھڑے ہو جائیں۔ سب لوگ جلوس سے نکل کر دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔
حقیقتِ حال کی غمازی کرنے کے باوجود‘ یہ ایک لطیفہ ہی ہے ! اب اصل واقعہ بھی سن لیجیے۔ جمیل کاظمی میرے کالج کے زمانے کے دوست ہیں۔ میں اپنے قصبے سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن کالج میں داخل ہوا۔ جمیل علی گڑھ سے میٹرک کر کے آئے اور اسی کالج میں آن وارد ہوئے۔ کہاں علی گڑھ اور کہاں مغربی پنجاب کا ایک دورافتادہ قصبہ مگر دوستی ہوئی اور ایسی کہ آج اُنسٹھ سال ہو گئے ‘ زمانے کے ہزار پیچ و خم کے باوجود دوستی قائم ہے۔ جمیل اپنے صاحبزادے سے ملنے امریکہ گئے تو کچھ دن کے لیے اپنے ایک عزیز کے ہاں نیو جرسی بھی رہے جو کافی عرصہ سے وہاں مقیم ہیں اور امریکی شہری ہیں۔ یہ عزیز رات دن امریکہ کو کوستے تھے۔ جتنے دن جمیل ان کے ہاں رہے‘ یہ عزیز صبح ہوتے ہی کہانی شروع کر دیتے کہ کس طرح امریکہ نے پاکستانی وزیر اعظم کے خلاف سازش کی اور کس طرح امریکہ ایک شیطان ہے‘ ایک عفریت ہے ایک مُوذی ہے۔ ان کے بقول امریکہ ایک زہریلا اژدہا ہے جو کسی کو بھی ڈس سکتا ہے‘ ان کی رگ رگ سے امریکہ کے خلاف نفرت ابلتی تھی۔ جمیل جو دلیل بھی پیش کرتے اس کا ایک ہی جواب دیتے کہ سازش ہوئی ہے۔ اسی اثنا میں انہیں خبر ملی کہ ان کے ایک قریبی رشتہ دار کی‘ جنہیں یہ اپنے پاس امریکہ بلانا چاہتے تھے‘ گرین کارڈ کی درخواست کو نامنظور کر دیا گیا ہے یا کوئی اعتراض لگا دیا گیا ہے۔ خبر سنتے ہی سارے گھر پر ماتم کی فضا طاری ہو گئی۔ سب کے چہروں پر مردنی چھا گئی۔ ورد وظیفے شروع ہو گئے۔ منتیں مانی گئیں۔ اٹارنی سے مشورے کر کے دوبارہ درخواست داغی گئی۔اب سب کا سانس اٹکا ہوا ہے‘ اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ‘ کہ دیکھیے نئی درخواست کے ساتھ کیا بنتا ہے!
یہ ہے وہ المیہ‘ وہ Dilemmaوہ دامِ بلا جس میں ہم پاکستانی گرفتار ہیں۔ ہم ہر سازشی تھیوری پر ایمان لے آتے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان کے تمام اندرونی اور بیرونی مسائل کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ ہجرت کرنے کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی امریکی سفارت خانے کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ کبھی انٹرویو دینے ایمبیسی جا رہے ہیں۔ کبھی لمبے چوڑے فارم بھر رہے ہیں‘ سالہا سال کی محنت اور شدید جانکاہ انتظار کے بعد گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے اور ہم ‘ ارضِ موعود‘ اپنی Promised Land یعنی امریکہ پہنچتے ہیں۔ پہلے گرین کارڈ ملتا ہے۔ کئی سال کے انتظار کے بعد شہریت ملتی ہے۔ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ایک اجتماعی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں ہم اپنی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھاتے ہیں کہ:
I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty, of whom or which I have heretofore been a subject or citizen
امریکی بہت ہشیارہیں۔ اس حلف نامے میں انہوں نے چار الفاظ ڈالے ہیں:Renounce, abjure, allegiance, fidelity۔ آپ کو بازار میں جتنی انگلش اردو ڈکشنریاں ملتی ہیں دیکھ لیجیےRenounceکا مطلب ہے: لا تعلق ہونا‘ دست بردار ہونا‘ چھوڑ دینا یا ترک کر دینا‘ رد کر دینا‘ پھینک دینا‘ نامنظور‘ مسترد کر دینا‘ طلاق دے دینا‘ انکار کرنا۔Abjureکے معنی ہیں : حلفاً دست بردار یا منکِر ہونا‘ قسم کھا کر انکار کرنا‘ حلفاً مسترد کرنا‘با ضابطہ انکار کرنا‘ تائب ہونا‘ ترک کرنا‘ دست کَش ہونا‘ توبہ کرنا۔Allegiance اور fidelity دونوں کا مطلب ہے: وابستگی‘ وفاداری‘ اخلاص‘ تابعداری۔یعنی میں جس ملک سے آیا ہوں یا جہاں کا شہری تھا اُس سے میری جو بھی وابستگی تھی‘ وفاداری تھی‘ تعلق اور اخلاص تھا اس سے مکمل طور پر‘ کْلّی اعتبار سے ‘ دستبردار ہوتا ہوں ‘ اسے رد کرتا ہوں ‘ مسترد کرتا ہوں‘ قسم کھا کر اس سے انکار کرتا ہوں اور باضابطہ دست کَش ہوتا ہوں!
اب ہم امریکی شہری بن گئے۔ ہم نے آسمانی کتاب پر ہاتھ رکھ کر پاکستان سے ہر قسم کی وفاداری اور وابستگی ترک کر دی۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے نئے ملک کی زمین پر پاؤں جماتے‘ اپنے حلف کی پاسداری کرتے مگر اب ہم پاکستانی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے امریکہ کی برائیاں کرتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ ہمارے پاؤں کسی زمین پر نہیں جمتے! پاکستان سے دفاداری ترک کرنے کی قسم اُٹھا چکے۔ نئے ملک کے فوائد اٹھاتے ہیں مگر پاؤں اس کی زمین پر نہیں رکھتے۔ کیا یہ قسم جھوٹ موٹ میں اٹھائی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو نفرین ہے ہماری منافقت اور فریب کاری پر۔ اگر سچے دل سے اٹھائی ہے تو پھر کیسا پاکستان اور کون سا پاکستان!
بھائی اب جہاں رہ رہے ہیں ‘ جہاں کے فوائد سمیٹ رہے ہیں‘ وہیں کے بن کر رہیں۔ بہت سے اس کی افواج میں کام کر رہے ہیں۔ بچے‘ بیٹیاں امریکہ کی پولیس میں ہیں‘ خفیہ اداروں میں ہیں۔ یہاں کے معیارِ زندگی سے متمتع ہو رہے ہیں۔ وال مارٹ میں شاپنگ کرتے ہیں۔ سرکاری علاج اور دیگر مراعات حاصل ہیں۔ بڑھاپے میں ریاست دیکھ بھال کرتی ہے۔ امریکی پاسپورٹ پر دنیا بھر میں ویزے کے بغیر جا سکتے ہیں۔ تو پھر دل سے امریکی بنیں۔ کسی کے ساتھ تو نبھائیں۔ جس شہریت کے لیے پاکستان سے وفاداری ختم کرنے کی قسم اٹھائی ‘ اس سے تو وفا کریں۔ اور اگر امریکہ نے سازش کی ہے تو پھر لعنت بھیجیں امریکہ اور اس کی مراعات پر۔ واپس آجائیں۔ مگر ایسا ہم کبھی نہیں کریں گے۔ مزے امریکی زندگی کے اڑانے ہیں اور چسکے پاکستانی سیاست کے لینے ہیں۔ رہتے ورجینیا کے محل میں ہیں اور فکر پاکستان کی ہے!
اس کالم نگار نے بیرونِ ملک مقیم اپنے قریبی عزیزوں سے بھی یہی کہا ہے کہ جہاں گئے ہو وہاں کی زمین پر قدم جماؤ۔ وہاں کی سیاست میں حصہ لو۔ وہاں کے منتخب ایوانوں میں جا کر بیٹھو۔وہاں کی حکومت میں اعلیٰ مناصب پر پہنچو۔ حلف اٹھایا ہے تو اسے نبھاؤ۔ رہا پاکستان تو جو یہاں رہ رہے ہیں‘ یہ ان کا دردِ سر ہے۔ جو یہاں کی ٹریفک میں زندہ ہیں‘ جو یہاں کی لوڈ شیڈنگ میں جی رہے ہیں‘ جو یہاں گیس کنکشن کے لیے برسوں انتظار کرتے ہیں‘ جو یہاں کے تھانوں اور کچہریوں کو جھیل رہے ہیں ‘ وہ یہاں کے مسائل بھی حل کر لیں گے۔ جو پاکستان کی سختیوں سے نجات حاصل کر کے کسی اور ملک میں جا بسے ہیں‘ وہ اُسی ملک کے مسائل کی فکر کریں۔ وہیں کی حکومت کو ٹھیک کریں !
رہی یہ بات کہ ہم ڈالربھیجتے ہیں تو اپنے اعزہ اور اقارب کو بھیجتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری خزانے کو نہیں بھیجتے۔ جن کے ماں باپ یا بہن بھائی نہیں ہیں‘ کیا وہ پاکستانی بیت المال کو بھیج رہے ہیں؟اب سمندر پار سے گالیوں کی جو بوچھاڑ آئے گی ‘ وہ اس کالم نگار کو پہلے سے معلوم ہے۔ اوریہ بھی معلوم ہے کہ دلیل دینے کے بجائے دشنام طرازی سہل ہے!