قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش

یادش بخیر ‘ مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک مختصر سا انٹرویو ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر نشر ہوا۔ اسی سے ملتا جلتا بیان اخبارات میں بھی شائع ہوا ہے۔ ( روزنامہ دنیا 27اپریل 2022ء)۔ اس بیان میں انہوں نے مندرجہ ذیل باتیں کی ہیں۔
1 ۔یہ کہ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔
2 ۔یہ کہ وہ سیاست میں بالکل نہیں ہیں۔
3 ۔یہ کہ ریاستِ مدینہ کا تصور عمران خان نے دیا۔
4۔یہ کہ ریاستِ مدینہ کو بنانا ہم نے ‘ یعنی عوام نے تھا۔ جھوٹا جھوٹ چھوڑتا‘ رشوت والا رشوت چھوڑتا‘ دھوکہ دینے والا دھوکہ چھوڑتا‘ ظلم کرنے والا ظلم چھوڑتا‘ فحاشی کرنے والافحاشی چھوڑتا‘ بدکاری کرنے والا بدکاری چھوڑتا‘ لڑنے والے قتل و غارت کی دشمنیاں ختم کر کے صلح کرتے۔اپنانا تو معاشرے نے تھا۔ معاشرے نے یہ تصور قبول نہیں کیا تو عمران خان کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
5 ۔یہ کہ تحائف کے حوالے سے مولانا کو پاکستانی قا نون کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔
ان کے یہ ارشادات پڑھ کر اور سن کر میرے نارسا ذہن میں کچھ سوالات ابھرے ہیں جو میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اول یہ کہ ان کا تعلق‘ بقول ان کے ‘ تبلیغی جماعت سے ہے۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات کا تعلق ہے ‘ تبلیغی جماعت کے بزرگ کسی حکمران کے ہاں کبھی حاضری نہیں دیتے جبکہ موصوف اکثرو بیشتر حکمرانوں کے ہاں تشریف لے جاتے ہیں۔ابھی چند دن پہلے‘ وہ ایوانِ صدر بھی تشریف لے گئے جہاں انہوں نے صدر صاحب سے ملاقات کی۔ جس ''شبِ دعا‘‘ میں شرکت فرمائی وہ بھی کسی مسجد میں منعقد نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کے گھر میں منعقد ہوئی تھی اور شرکت کرنے والے صرف اُسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا تبلیغی جماعت کی پالیسی اس ضمن میں بدل گئی ہے؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ موصوف ایک سیاسی جماعت اور اس کے رہنما کے بارے میں کہتے ہیں کیا وہ جماعت کی طرف سے کہتے ہیں ؟ لگتا ہے کہ وہ اس ضمن میں جماعت ہی کی نمائندگی کرتے ہیں جبھی انہوں نے وضاحت بھی کی کہ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ اس سے بندہ یہ نتیجہ بھی اخذکرنے پر مجبور ہے کہ وہ حکمرانوں کے ہاں حاضری‘ تبلیغی جماعت کے بزرگوں کی اجازت سے دیتے ہیں۔ دوم‘ بقول ان کے وہ سیاست میں بالکل نہیں ہیں۔ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے رہنما ہیں۔ موصوف خود ان کی حمایت کرتے ہیں اور عوام کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو غیر سیاسی کس طرح کہہ سکتے ہیں؟ اگر ان کا موقف یہ ہے کہ یہ حمایت وہ ریاست ِمدینہ کے حوالے سے کر رہے ہیں تو ایک زیادہ دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر میں‘ کسی بھی مسلک کے‘ کسی اور مشہور عالم نے عمران خان کی حمایت نہیں کی۔ یہ راز صرف انہی پر کیوں کھلا کہ خان صاحب کا ریاستِ مدینہ کے حوالے سے دعویٰ سچائی پر مشتمل ہے اور محض مذہب کا سیاسی استعمال نہیں ؟
سوم‘ یہ بات کہ ریاست مدینہ کا تصور عمران خان نے دیا ‘ بہت عجیب ہے اور امر واقعہ کے خلاف ۔ تاریخ کے ایک عام طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ ریاست مدینہ کا تصور اُسی مقدس ہستی نے دیا جس نے ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھی۔ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان ریاست مدینہ کی‘ بزعمِ خود‘ پیروی کرنا چاہتے ہیں۔چہارم ‘ اس سے بھی زیادہ ناقابلِ رشک موقف یہ ہے کہ ریاست مدینہ کے قیام کی ذمہ داری عوام پر تھی‘ حکمران پر یا حکمران جماعت پر نہیں تھی۔اگرریاست مدینہ صرف عوام کے جھوٹ‘ فریب کاری اور دیگر برائیاں چھوڑنے سے بننا تھی تو مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ سب کام تو مکہ میں بھی ہو سکتے تھے۔ ریاستِ مدینہ میں حکمران سب سے پہلے معاشرے کے لیے نمونہ بنے۔ انصاف قائم کیا۔ راتوں کو جاگ جاگ کر‘ گلیوں میں پھِر پھِر کر ‘ عوام کی حالت کا خود براہ راست مشاہدہ کیا۔ حکمران اگر دن کے ایک بجے ہیلی کاپٹر پر سوار ہر کر دفتر پہنچے اور شام کو ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر تین سو کنال کے گھر میں واپس جا بیٹھے اور ریاست مدینہ کے قیام کی تمام ذمہ داری عوام پر یا معاشرے پر ہو تو پھر حکمران کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ مولانا نے تو حکمران کو سو فیصد بری الذمہ قرار دے دیا۔
حضرت مولانا سے بہتر کون جانتا ہے کہ تبلیغ میں امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر کا بھی وجود لازم ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد جب حکمران جماعت نے ریاست مدینہ کا نام لیا اور جب مولانا نے حمایت کی اور عوام کو حمایت کی تلقین کی تو اس کے بعد اگر نہی عن المنکر کا فرض ادا کیا جاتا تو حالات اس نہج پر نہ پہنچتے جس پر پہنچے۔ جب عثمان بزدار کو تعینات کیا گیا اور تحریک انصاف کے ارکان سمیت پورے ملک نے تعجب اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ‘ جب ادویات کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں اور ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی‘ جب سعودی عرب‘ امریکہ اور برطانیہ سے دوستوں اور فنڈ ریزنگ کرنے والوں کو بلا بلا کر اعلیٰ عہدوں پر بٹھا یا گیا‘ جب انتقام کی چکی میں ایک ایک مخالف کو پیسا جاتا رہا‘جب ہاتھ ملانے سے انکار کر کے ‘ ہاتھ منہ پر پھیرا جاتا رہا کہ چھوڑوں گا نہیں تو نہی عن المنکر کا فرض کیوں نہ ادا کیا گیا؟ ہاں اگر ریاستِ مدینہ کی تفہیم ہی یہ ہو کہ سارا کام معاشرے نے کرنا ہے اور حکمران نے کچھ بھی نہیں کرنا تو پھر حکمران کو منکرات پر روکنے اور ٹوکنے کی ضرورت ہی کیا ہے!!
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیوکہ ہاں کیوں ہو !!
رہی یہ بات کہ تحائف یا توشہ خانے کے حوالے سے پاکستانی قوانین کا علم ہی نہیں تو اسے تجاہلِ عارفانہ کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے ! یہ قوانین تو اسی دن بن گئے تھے جب پوچھا گیا تھا کہ حکمران کا کرتا کیسے بنا؟کیا امیر المومنین کا جواب یہ تھا کہ یہ سیکرٹ ہے اور بتایا نہیں جا سکتا؟ میاں نواز شریف کا یہی جواب تھا۔ اگر عمران خان نے بھی یہی جواب دینا تھا تو پھر ریاست مدینہ کی پیروی کہاں گئی ؟ نہی عن المنکر کا فریضہ کدھر گُم ہو گیا؟
بہت کچھ اور بھی عرض کرنے کوہے مگر حدِ ادب مانع ہے۔ بس اتنی گزارش ہے کہ لوگ سمجھدار ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں۔ ریاست مدینہ کی حقیقی تاریخ سے بھی آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاستِ مدینہ کی تعریف کیا ہے۔انہیں معلوم ہے کہ اہل بیت عظام سے لے کر امام ابو حنیفہؒ‘ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ تک اور مجدد الف ثانیؒ تک ‘ اہل ِحق نے کیا کیا تکلیفیں جھیلیں اور کیا کیا سزائیں برداشت کیں ! اگر خلق ِخدا ادب کی وجہ سے یا مروت کے سبب کچھ نہیں کہتی اور مصلحتاً منہ دوسری طرف کر لیتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حقیقت سے آگاہ نہیں ! اختلاف تو اس بات پر ہے کہ مردے سنتے اور دیکھتے ہیں یا نہیں؟ جو لوگ زندہ ہیں ان کے دیکھنے‘ سننے اور جاننے پر تو کوئی اختلاف نہیں۔ یوں بھی اصل بات علامہ اقبال کر گئے ہیں ؎
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں