بہت سے کام ہمارے ملک میں مشکل ہیں؛ تاہم ایک کام آسان ہے۔ حد درجہ آسان! اور وہ ہے مرنا!
بیمار ہیں تو نجی ہسپتال جائیں۔ اتنا نچوڑیں گے کہ آپ کی جان نکل جائے گی۔ سرکاری شفا خانے میں جائیں گے تو عدم توجہی سے مارے جائیں گے۔ سڑک پر گاڑی یا موٹر سائیکل چلائیں گے تو کوئی ڈمپر، کوئی ٹریکٹر‘ کوئی ٹرالی، کوئی پانی کا ٹینکر آپ کو کچل دے گا۔ یہ وہ عفریت ہیں جن پر کوئی پابندی نہیں۔ نیم وحشی، چِٹے ان پڑھ، بے حس ڈرائیور ایسے قاتل ہیں جن پر قتل کی دفعہ ہی نہیں لگتی۔ اس سے بھی زیادہ آسان طریقہ مرنے کا یہ ہے کہ بینک سے کچھ لاکھ روپے نکلوائیں اور چل پڑیں۔ پیدل ہیں یا سواری پر، اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ موت کے سوداگر گھیر چکے۔ اب گولی آپ کے سینے میں اور کرنسی نوٹوں کی تھیلی ان کے ہاتھوں میں ہو گی۔ محمد حنیف کے ساتھ یہی ہوا۔ تیس سال سے اخبار فروشی کرنے والے حنیف عباسی کو ڈاکوئوں نے مار ڈالا۔ بینک سے بیس لاکھ کی رقم نکالنے کی حماقت ایک اور شہری نے کی۔ ڈاکو اسے لوٹ رہے تھے کہ حنیف نے ڈاکوئوں پر اینٹوں سے حملہ کر دیا۔ بے وقوف شہری کے تو صرف بیس لاکھ گئے۔ حنیف کی جان چلی گئی۔ بچے اس کے یتیم ہو گئے۔ بیوی اس کی بیوہ ہو گئی۔
ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں؟ دنیا کریڈٹ کارڈ سے بھی آگے نکل چکی۔ ہم ابھی تک کرنسی نوٹ گن رہے ہیں اور نوٹوں کی تھدّیاں تھیلوں میں ڈال کر گھوم پھر رہے ہیں۔ خدا کے بندے! بیس لاکھ اگر کسی کو دینے تھے تو آن لائن ٹرانسفر کرتے۔ ایسا نہیں کر سکتے تھے تو بینک کا چیک دیتے۔ چلو پچاس ہزار نکلوا لو۔ ایک لاکھ نکلوا لو مگر بیس لاکھ؟ یہ علائوالدین خلجی کا دور ہے نہ شیر شاہ سوری کا‘ نہ ہی انگریز بہادر کا کہ کوئی مجرم بچ نہیں سکے گا۔ یہاں تو ایک ایک رات میں بیسیوں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ کار چوری عروج پر ہے۔ گھروں میں کیمرے لگانے کا کام انڈسٹری بن چکا ہے۔ سکیورٹی کمپنیاں الارم لگا کر اربوں کما رہی ہیں۔ گاڑیوں کی انشورنس اور ٹریکر کا سلسلہ آسمان تک پہنچ چکا ہے۔ جس معاشرے میں پانی کے کولر کے ساتھ گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑتا ہے اور راتوں کو کئی بار اٹھ اٹھ کر دروازے چَیک کرنے پڑتے ہیں وہاں آپ بیس لاکھ روپے نقد ہاتھ میں لے کر سڑک پر خراماں خراماں چل رہے ہیں۔ آپ کا دماغ خراب ہے اور آپ کی قسمت بھی! ہمارے ایک قریبی دوست نے چند ماہ پہلے گاڑی بیچی۔ خریدنے والے صاحب روپوں سے بھرا بیگ لائے اور کہا کہ گن لیجیے۔ ہمارے دوست نے بڑے ٹھسے سے جواب دیا کہ اس کام کے لیے میں نے بینک کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ یہ میرا اکاؤنٹ نمبر ہے۔ اس میں جمع کرا دیجیے۔ بینک والے خود ہی گن لیں گے۔ وہ جمع کرا آئے تو انہوں نے فون کر کے بینک سے تصدیق بھی کر لی۔ وہ جو غالب نے کہا تھا: 'رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو!‘ تو بینک کو دعا دیجیے کہ آپ نے کسی کو ادائیگی کرنی ہے یا کسی سے رقم لینی ہے، دونوں صورتوں میں گننے کا کام بینک ہی کرے گا!
جن ملکوں میں چوریاں اور ڈاکے کم ہیں، جہاں گھروں کے گیٹ ہی نہیں، وہاں بھی کرنسی نوٹ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ سو ڈالر کا نوٹ دکان دار کو دیں تو حیران ہوتا ہے۔ پلاسٹک روپیہ (plastic money) کا دور دورہ ہے۔ تین ڈالر کی شے خریدنی ہے یا تین سو ڈالر کی، کارڈ مشین پر رکھیے، کوئی دستخط نہیں، کوئی پِن کوڈ نہیں‘ کوئی پاس ورڈ نہیں‘ بلکہ اب تو کریڈٹ کارڈ کی بھی ضرورت نہیں۔ متعلقہ اَیپ اور فنگر پرنٹس کی مدد سے کریڈٹ کارڈ کو موبائل فون میں ڈالیے۔ اب دکاندار کی مشین پر کریڈٹ کارڈ نہ رکھیے۔ کریڈٹ کارڈ کا جو عکس موبائل فون میں ہے، اُس عکس کو مشین پر رکھیے۔ دوسرے لفظوں میں کریڈٹ کارڈ کو جیب میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔
بجلی، گیس، پانی، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے بل آپ گھر بیٹھے، آن لائن ادا کر سکتے ہیں۔ جس بینک میں بھی آپ کا اکاؤنٹ ہے، وہ بینک اپنی ویب سائٹ، یا ایپ پر، آپ کو بل ادا کرنے کی سہولت مہیا کرتا ہے۔ سودا سلف بھی کریڈٹ کارڈ پر مل جاتا ہے۔ اب تو مرغیاں بیچنے والوں نے بھی کریڈٹ کارڈ کی مشین رکھی ہوئی ہے۔ پارچہ فروشوں نے بھی‘ سپر سٹوروں نے بھی، ہسپتالوں، لیبارٹریوں اور دوا فروشوں نے بھی! نقد رقم جیب میں یا گھر رکھنی بھی ہے تو کم سے کم رکھنی چاہیے۔ زمانہ بدلتا ہے تو اس کے اطوار بھی بدل جاتے ہیں۔ کبھی بارٹر ٹریڈ تھی‘ یعنی مال کے بدلے مال۔ گاؤں میں ہماری نسل نے گندم دے کر دکانوں سے سودا خریدا ہے۔ یعنی گندم کو روپے کا درجہ حاصل تھا۔ پھر سکے آئے۔ پھر کرنسی نوٹ! اس اثنا میں ٹریولر چیک بھی روپے کا کردار ادا کرتے رہے۔ اب پلاسٹک منی کا دور بھی آخری ہچکی لے رہا ہے۔ آن لائن سودا خریدا جانے لگا ہے یا موبائل فون کے ذریعے! دو تین منٹ کے اندر اندر آپ رقم کسی بھی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرا سکتے ہیں۔ اے ٹی ایم پر انحصار بھی کم ہونے لگا ہے۔
سازشی تھیوریاں ہمارا من بھاتا کھاجا ہیں۔ اس معاملے میں بھی سازشی تھیوری میدان میں اتر چکی ہے اور بھنگڑا ڈال رہی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے خریداری کریں گے تو امریکہ میں ہر شے ریکارڈ پر آ جائے گی۔ یہ امریکی سازش ہے۔ اس طرح ہماری قوت خرید انہیں معلوم ہو جائے گی۔ نہیں معلوم یہ مؤقف کتنا درست ہے‘ مگر بات یہ ہے کہ اگر امریکہ کو معلوم ہو بھی جائے کہ جمیل خان نے یا عبدالکریم نے یا اظہارالحق نے گھی کا ڈبہ، چائے کی پتی، کپڑے دھونے کا صابن، آٹا اور دالیں خریدی ہیں تو کیا ہو جائے گا؟ اگر امریکہ اس فکر میں گُھلنا شروع ہو گیا ہے کہ جمیل خان یا عبدالکریم یا اظہارالحق کی قوت خرید کیا ہے تو پھر اسے زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ وہی بات جو دوسری جنگ عظیم میں فوجی بھرتی کے حوالے سے عام ہوئی تھی کہ اگر ملکہ برطانیہ اپنے دفاع کے لیے گامے کمہار کے بیٹے کی محتاج ہو گئی ہے تو پھر اسے ہٹلر سے صلح ہی کر لینی چاہیے۔ سازشی تھیوریاں ہمیں یوں بھی بہت راس آتی ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی ایک عوامی لیڈر تھے۔ بائیں بازو کی ترجمانی کرتے تھے۔ ہر خراب شے کا الزام امریکہ پر لگاتے تھے۔ ان کے بارے میں لطیفہ مشہور تھا کہ کسی نے انہیں بتایا کہ ان کے ہاں، یعنی مولانا بھاشانی کے ہاں، بچے کی ولادت ہوئی ہے۔ فوری ردّ عمل یہ تھا کہ امریکہ کی شرارت ہے۔
ملک کی اکثریت کا تعلق گاؤں سے اور چھوٹے قصبوں سے ہے۔ وہاں پلاسٹک روپیہ تو دورکی بات ہے، ابھی عام بینکاری کا رواج بھی نہیں پڑا۔ پورے پورے گاؤں ایسے ہیں جہاں کسی ایک شخص کا بھی کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں۔ قصور دونوں فریقوں کا ہے۔ بینکوں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ پھر، گاؤں گاؤں برانچ کھولنا ان کے لیے نفع بخش بھی نہیں۔ دوسری طرف گاؤں کے مکینوں کو بینک اکاؤنٹ کھولنے کا شوق ہے نہ ضرورت۔ یوں بھی گاؤں میں سکیورٹی، شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ اجنبی عناصر کا وہاں جا کر مذموم ارادوں میں کامیاب ہونا آسان نہیں۔ ڈاکے، کار چوری، اغوا کا کاروبار شہروں ہی میں پھلتا پھولتا ہے۔