کچھ غور طلب باتیں

اس بار بھی سلیم صاحب نے رمضان المبارک میں مصمم ارادہ کیا!
یکم رمضان کو انہوں نے الماری کی سب سے اونچی شیلف سے قرآن پاک کا ذاتی نسخہ اتارا۔ ذاتی اس لیے کہ یہ انہوں نے‘ کئی سال پہلے‘ صرف اپنے لیے خریدا تھا۔اس کا کاغذ بہترین تھا۔ جلد خوبصورت تھی۔ طباعت کا جواب نہیں تھا۔ ریشمی غلاف ان کی بیگم نے اپنے ہاتھوں سے سیا تھا۔ غلاف پر گرد دیکھ کر انہیں شرمندگی ہوئی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ملامت کی!'' نہیں ! اس بار ایسا نہیں ہو گا‘‘۔مگر اس بار بھی ایسا ہی ہوا! انہوں نے ہر روز ایک پارہ کی تلاوت کی۔ آخری روزے کو ختم کیا۔ پھر مصمم ارادہ کیا کہ پورا سال باقاعدگی سے تلاوت کریں گے۔ ہر روز ایک پارہ پڑھیں گے۔ عید کے بعد پہلے دس دن باقاعدگی سے ہر روز ایک پارہ پڑھا۔ پھر درمیان میں ناغہ ہونے لگا۔ ہفتے میں تین چار دن ہی پڑھ پائے! پھر ہفتے میں ایک دن ! پھر دو ہفتے میں ایک دن ! پھر دنیا کے افکار و حوادث میں ایسے گھِرے کہ اگلے رمضان ہی میں تلاوت نصیب ہوئی !
یہ صرف سلیم صاحب کے ساتھ نہیں‘ ہم میں سے اکثر کے ساتھ یہی ہوتا ہے ! عام طور پر ہماری خواتین سارا سال باقاعدگی سے تلاوت کرتی ہیں! سب خواتین نہیں تو اکثریت کو یہ سعادت ضرور حاصل ہوتی ہے! مگر مرد باقاعدگی میں خواتین کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہر رمضان میں اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں۔ پھر ارادہ باندھتے ہیں کہ اب کے رمضان کے بعد بھی تلاوت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ مگر ہم میں سے اکثر اس ارادے کی تکمیل میں ناکام رہتے ہیں۔ مکروہاتِ دنیا کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ زندگی میں افراتفری بڑھ رہی ہے۔ہر شخص بیل کی طرح ہل میں جُتا ہے۔ رات کو دیر سے سونا ہمارے کلچر کا جزو بن چکا ہے۔ صبح اٹھ کر کام پر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ اخبار دیکھنے کی تڑپ دل میں زیادہ ہوتی ہے۔ بہت سے دیگر عوامل بھی ہیں جو رمضان میں باندھے گئے اس ارادے کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں !
ہمارے ایک اور دوست ہیں ! انہوں نے اس مشکل کا حل نکالا ہے۔ ہم نفسیاتی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ تلاوت صبح کی نماز کے بعد ہی کرنی چاہیے اور یہ کہ کم از کم ایک پارہ ہی ہو۔ اگر ایسا ہو سکے تو کیا کہنے ! مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آج صبح کے وقت تلاوت نہیں ہو سکی تو اب کل صبح کا انتظار کیا جائے۔ ہمارے دوست نے چند سال پہلے ہر روز ایک پاؤ ( یعنی ایک پارے کا چوتھا حصہ) تلاوت شروع کی۔کبھی ظہر کی نماز کے بعد! کبھی عصر یا مغرب کی نماز کے بعد۔ گاڑی کوئی اور چلا رہا ہے تو گاڑی میں تلاوت کر لی۔ پورے ایک پارے کے لیے وقت نہ ہو تو نہ پڑھنے سے بہتر ہے کہ پارے کا چوتھائی ہی پڑھ لیا جائے! مسجد پہنچ گئے ہیں۔ ابھی جماعت میں کچھ وقت باقی ہے تو اس وقت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ عرب ممالک میں شاید ہی مسجد میں کوئی فارغ بیٹھ کر جماعت کا انتظار کرتا ہو۔ جو آتا ہے‘ قران پاک کا نسخہ اٹھاتا ہے اور جتنی تلاوت کر سکتا ہے‘ کر لیتا ہے! بجائے اس کے کہ سارا سال نہ پڑھیں‘ ہمارے یہ دوست ایک ایک پاؤ پڑھ کر سال میں تین بار ختم کر لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ انہیں یہ ہے کہ وہ ایک پاؤ ترجمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ایک پارہ بغیر سمجھے پڑھنے سے یہ بہتر ہے کہ کم پڑھ لیا جائے مگر مطلب اور مفہوم سمجھ کر ! کتنی بدقسمتی ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ساری زندگی تلاوت کرتے رہیں مگر یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کریں کہ جو پڑھ رہے ہیں‘ اس کا مطلب کیا ہے؟ ایک رکوع بھی مطلب کے ساتھ‘ سمجھ کر ہر روز پڑھ لیا جائے تو محض تلاوت کرنے سے بہتر ہے !
قرآن پاک ہدایت کی کتاب ہے۔ اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے ہماری موجودہ زندگی بھی سنور سکتی ہے اور آئندہ زندگی بھی! مگر ہماری حالت یہ ہے کہ اس کے مطالب و مفاہیم سے نہ صرف نا آشنا ہیں بلکہ اس بہت بڑے نقصان کا احساس تک نہیں! فرض کیجیے ہمارے والد یا استاد یا مرشد ہمیں خط لکھتے ہیں جس میں وہ ہمیں کچھ کام کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔اگر ہم وہ خط سمجھے بغیر‘ ہر روز پڑھ کر‘ چوم کر رکھ دیں تو ہم سے بڑا احمق کون ہو گا؟
ماہر القادری کی مشہور نظم'' قرآن کی فریاد‘‘ اُس سلوک کو واضح کرتی ہے جو ہم اس عظیم الشان کتاب کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں‘ آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں‘ دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جُزدان حریر وریشم کے‘ اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے‘ خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جیسے کسی طوطا مینا کو‘ کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں
اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول وقسم لینے کے لیے
تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے
ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں
آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسہ میں‘ پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں‘ کس عُرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں‘ مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
اقبال نے بھی ہمیں سرزنش کی :
بہ آیاتش ترا کاری جُز این نیست
کہ از یٰسین او آسان بمیری
تجھے قرآن پاک کی آیات کا ایک ہی استعمال آتا ہے کہ مرتے وقت سورہ یٰسین پڑھی جائے تا کہ جان آسانی سے نکلے !
ہم میں سے کتنوں کو نماز کا مطلب معلوم ہے جو ہم ساری زندگی دن میں کئی بار ادا کرتے ہیں ؟ ساری زندگی ہر ہفتے جمعہ کا خطبہ سنتے ہیں۔ کبھی اس کے مطلب پر غور کیا نہ مطلب جاننے کا تجسس ہی ہوا۔انکم ٹیکس کا نیا حکم نامہ آئے اور سمجھ میں نہ آئے تو پانچ آدمیوں سے رہنمائی لیتے ہیں۔ بچے ناظرہ قرآن پاک ختم کر لیں تو اطمینان ہو جاتا ہے کہ ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ نہیں! جناب نہیں! ذمہ داری یہ ہے کہ بچوں کو قرآن پاک کے احکام معلوم ہوئے یا نہیں! قرآن پاک کے تقاضے سمجھے یا نہیں۔لاکھوں روپے لگا کر بچوں کو کیمبرج سسٹم کا او لیول اور اے لیول کرا لیا جاتا ہے۔ پھر جوں توں کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھی بھیجتے ہیں مگر یہ نہیں کر سکتے کہ ہفتے میں‘ ایک دن‘ یا دو دن‘ دو رکوع‘ یا ایک سورت کے مضامین سے ہی انہیں روشناس کر ا دیں! ہر رمضان میں قرآن پاک ختم کرنے کے باوجود ہمارا فہم ِقرآن اُس شخص سے زیادہ نہیں جو گھبرایا ہوا ایک عالِم کے پاس آیا اور کہا کہ پیر صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا ہے۔عالم نے پوچھا کس نے بتایا ہے ؟ کہنے لگا قرآن پاک میں لکھا ہے۔ عالم نے ایک لمحہ کے لیے سوچا اور بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ پھر اُسے بتایا کہ اے بے وقوف ! یہ پیر صاحب نہیں تھے۔ پیغمبر تھے۔ اور بیٹی نہیں تھی‘ پیغمبر کا بیٹا تھا‘ اور کتا نہیں تھا‘ بھیڑیا تھا۔اور بھیڑیے نے کھایا نہیں تھا‘ بھائیوں نے جھوٹ گھڑا تھا!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں