عجیب و غریب واقعات رونما ہورہے ہیں۔ یقین کرنا مشکل ہے۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ ' بسی نا دیدنی را دیدہ ام من‘ وہی صادق آتا ہے یعنی ایسی چیزیں جو اس لائق نہیں تھیں کہ دیکھی جاتیں‘ دیکھنا پڑ رہی ہیں۔ میر نے کہا تھا:
زار رونا چشم کا کب دیکھتے
دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے
ایک معروف اینکر نے اس خاتون کا تازہ ترین انٹرویو نشر کیا ہے جس سے ایک وڈیو لے لی گئی تھی۔ یہ وڈیو کس نے بنائی تھی؟ کس کی بنائی تھی؟ یہ اسی خاتون نے بنائی جس کا انٹرویو وائرل ہوا پڑا ہے۔ وہ ایک طاقتور شخصیت کے پاس کسی معاملے میں انصاف مانگنے گئی تھی۔ طاقتور شخصیت نے‘ بقول خاتون کے‘ کچھ اور مطالبہ کر دیا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ وڈیو بنانے پر مجبور ہو گئی کہ اس کے پاس مطالبے کا ثبوت ہو۔ پھر وہ ایسی شخصیت کے پاس انصاف مانگنے گئی جو پہلے والی شخصیت سے زیادہ طاقتور تھی۔ وہاں سے وڈیو الیکٹرانک میڈیا پر آ گئی۔ خاتون کے بقول‘ اس وڈیو کو زیادہ طاقتور شخصیت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس سارے انٹرویو میں ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ وہ یہ کہ خاتون اور اس کا میاں ڈیڑھ ماہ وزیراعظم ہاؤس میں رہے! کیوں؟ اس کے بارے میں انٹرویو خاموش ہے۔
دوسری عجیب بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنے سابق ساتھی حامد خان صاحب سے دوبارہ تعلق استوار کیا ہے۔ حامد خان کو دسمبر 2019ء میں پارٹی سے نکالنے کے لیے شو کاز نوٹس بھیجا گیا تھا جس کا انہوں نے بہت دلچسپ اور مدلل جواب دیا تھا۔ جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ پارٹی کو کسی صورت میں نہیں چھوڑیں گے۔ ''پارٹی میرا پسینہ اور خون ہے۔ اس کی سوچ اور سمت کے لیے میں نے ہزاروں گھنٹے صرف کیے۔ کوئی موقع پرست‘ کوئی زمین ہڑپ کرنے والا‘ کوئی شوگر یا کوئی اور کرپٹ مافیا مجھے پارٹی سے نہیں نکال سکتا‘‘۔ جو شو کاز نوٹس پارٹی نے انہیں بھیجا تھا اس کی کوالٹی پر حامد خان کا تبصرہ بہت دلچسپ تھا۔ ''اگر حکومت کی ساری قا نونی ٹیم مل کر بھی چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا درست نوٹیفکیشن نہیں تیار کر سکی جیسا کہ معزز سپریم کورٹ نے رائے دی‘ تو میں ایک درست شو کاز نوٹس نہ لکھ سکنے پر کیا الزام دوں!‘‘۔ حامد خان صاحب نے عمران خان سے حالیہ ملاقات کے بعد دو باتیں بہت اہم بتائی ہیں۔ پہلی یہ کہ عمران خان نے مانا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف محاذ آرائی غلط تھی۔ دوسری یہ کہ حامد خان صاحب کے خیال میں تسلیم نورانی صاحب نے 2016ء میں پارٹی کے اندرونی انتخابات کی بہت عمدہ تیاری کی تھی مگر اس الیکشن کو جہانگیر خان اور علیم خان نے سبو تاژ کیا۔
حامد خان جیسی فعال اور سنجیدہ شخصیت کی تحریک انصاف میں واپسی نیک فال ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان پارٹی کے اندرونی الیکشن کو میرٹ پر ہونے دیں گے تو ہم دعا گو ہیں کہ ان کی امید بر آئے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر جسٹس وجیہ الدین اور تسلیم نورانی کو بھی پارٹی میں واپس لے لیا جائے۔ اور اگر عمران خان سلیٹ کو بالکل صاف کرنا چاہتے ہیں تو عثمان بزدار کی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے پنجاب سے معافی مانگیں۔ ملک سے بھاگنے والوں کو بھی ہدایت دیں کہ وہ فرار ہو کر عمران خان کی شخصیت کو نقصان نہ پہنچائیں اور واپس آکر جو کچھ ہونا ہے‘ اس کا سامنا کریں۔
مسلسل یہ دعویٰ کرنا کہ روس سے تیل کا معاہدہ ہو گیا تھا‘ ایک ایسی بات ہے جو بغیر ثبوت کے کہی جا رہی ہے اور درست نہیں ہے۔ جو لوگ وزارتوں میں کام کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دو ملکوں کے درمیان کوئی بھی معاہدہ ہو‘ تجارتی‘ ثقافتی‘ تعلیمی یا جو بھی‘ اچانک نہیں ہو جاتا۔ یہ ایک طویل عمل ہوتا ہے جس میں مہینے اور کبھی کبھی سال لگ جاتے ہیں۔ پہلے مرحلے پر معاملات بیوروکریٹ اور ٹیکنو کریٹ کی سطح پر چلتے ہیں۔ دفود آتے ہیں۔ جاتے ہیں۔ شرائط طے ہوتی ہیں۔ مذاکرات ہوتے ہیں۔ کئی ڈرافٹ (مسودے) تیار ہوتے ہیں۔ ان میں ترامیم کے لیے دو طرفہ مذاکرات جاری رہتے ہیں۔ پھر جب آخری اور فائنل متن تیار ہو جاتا ہے تو تب سربراہی سطح پر دستخط ہوتے ہیں۔ اس موقع کی تصاویر میڈیا میں آتی ہیں۔ عام طور پر طرفین کے سیکرٹری یا وزیر دستخط کرتے ہیں۔ سربراہان پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ کالم نگار جب وفاقی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا تو پاکستان اور جنوبی کوریا کے درمیان ثقافتی معاہدہ ہوا تھا جو ایک طویل عمل اور مسلسل بات چیت کے بعد فائنل ہوا تھا۔ جو معاہدہ عمران خان صاحب نے کیا وہ عجیب معاہدہ تھا! کیا دستخط کرنے کی تقریب کی کوئی تصویر کسی نے دیکھی ہے؟ کیا متعلقہ وزارتوں کے افسران ان کے ہمراہ گئے تھے؟ کیا اس معاہدے کا کوئی ثبوت ہے؟ سچ یہ ہے کہ متعلقہ وزارت میں ایسی کوئی دستاویز موجود ہی نہیں۔ معاہدہ تو دور کی بات ہے‘ وزارت میں اس حوالے سے کوئی روسی پیشکش موصول ہی نہیں ہوئی۔ ماسکو میں سربراہی سطح پر جو میٹنگ ہوئی اس کے منٹس میں ایسا کوئی ذکر ہی نہیں کہ روس نے ایل این جی یا تیل تیس فیصد رعایتی قیمت پر دینے کی پیشکش کی ہو۔ سابق وزیر حماد اظہر صاحب نے رواں سال تیس مارچ کو ایک خط ضرور لکھا جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ 2017ء میں کیے گئے معاہدے کی روشنی میں تعلقات کو طویل المیعاد بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے۔ اس خط میں بھی کوئی ایسا ذکر نہ تھا جس سے معلوم ہو کہ روس نے تیس فیصد ڈسکاؤنٹ کی پیشکش کی ہے۔ پٹرولیم کی وزارت نے وزارتِ خارجہ سے بھی پوچھا کہ کیا روس نے کوئی ایسی پیشکش کی ہے؟ وزارتِ خارجہ نے جواب دیا کہ روس کی طرف سے ایسا کوئی خط موصول نہیں ہوا جس میں ایسی کسی بات چیت کا ذکر ہو۔ 24مئی کو ایک معاصر نے اس پر تفصیلی خبر دی تھی۔ وزارت کے ترجمان کا حوالہ بھی موجود ہے۔
عمران خان جن عوامی جلسوں میں بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ روس سے تیس فیصد سستا تیل خریدنے والے تھے‘ ان جلسوں کے حاضرین کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں کہ دو ملکوں کے درمیان معاہدے کس طرح طے پاتے ہیں اور یہ کہ ایسی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی! رہی یہ بات کہ بھارت روس سے سستا تیل لے رہا ہے تو بھارت کے روس کے ساتھ ستر سال سے قریبی تعلقات چل رہے ہیں۔ بھارت کے سیاسی استحکام اور بہت بڑی منڈی نے اسے روس اور امریکہ دونوں کی آنکھوں کا تارا بنایا ہوا ہے۔ بھارت کو تو وہ اقتصادی پابندیاں بھی متاثر نہیں کرتیں جو امریکہ نے ایران پر لگائی ہوئی ہیں۔ وہ امریکہ کو بلیک میل کرتا ہے کہ اگر ایران سے سستا تیل نہ ملا تو وہ چین کا مقابلہ کیسے کرے گا۔ امریکہ نے چین کے ڈر سے ہمیشہ بھارت کی پرورش کی ہے! حقیقت یہ ہے کہ روس اور امریکہ‘ دونوں چین کی روز افزوں معاشی قوت سے خوف زدہ ہیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ روس پاکستان کو خوش آمدید کہے گا۔ پاکستان چین کا قریبی دوست ہے۔ دونوں کے مفادات اس دوستی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اور یہ دوستی روس اور امریکہ دونوں کو بے چین رکھتی ہے۔
سیاست دانوں کو چاہیے کہ کم از کم خارجہ امور کی نزاکتوں کا تو خیال کریں اور ایسے ایشوز عوامی جلسوں میں نہ چھیڑیں۔ ایسی باتوں سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔