وہ جو1922ء میں پیدا ہوئے‘ ان میں سے آج کتنے موجود ہیں؟
1932ء میں جو پیدا ہوئے ان میں سے کچھ افراد اس وقت زندہ ہوں گے۔ اس حکمت پر غور کیجیے کہ ایک وقت میں پیدا ہونے والے سب لوگ ایک وقت میں ختم نہیں ہوتے۔ یہ آہستہ آہستہ رخصت ہوتے ہیں۔ کچھ ساٹھ سال کی عمر میں! کچھ ستر یا اس سے زیادہ کی عمر میں! کچھ بچپن‘ لڑکپن اور شباب کے دوران گزر جاتے ہیں۔ یوں زمانے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ نئی نسل کو‘ گزشتہ حالات سے روشناس کرانے والے موجود رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب ایک ایک کر کے‘ آہستہ آہستہ جاتے ہیں۔ اس طرح بہت کچھ نئی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے۔ لباس اور خوراک کا تسلسل بھی جاری رہتا ہے۔ آج جو ساٹھ یا ستر سالہ شخص دنیا سے گیا ہے‘ اس کے لباس اور اس کے بیٹے یا پوتے کے لباس میں کچھ خاص فرق نہیں۔ مگر جب بیٹا دنیا سے رخصت ہوگا اس وقت کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور رو نما ہو چکی ہو گی۔ بیٹے کا پوتا اپنے پردادا کے لباس سے مختلف لباس پہنے گا۔ میرے دادا جان ہمیشہ تہمد باندھتے تھے۔ سفر میں بھی اور گھر میں بھی! نانا جان شلوار پہنتے تھے مگر بہت کم! آج دو نسلوں کے بعد تہمد تقریباً معدوم ہو چکا! میں اس لیے بنگالی لُنگی استعمال کرتا ہوں کہ ڈھاکہ میں رہا۔ ورنہ میرے اکثر ہم عمر تہمد ( دھوتی) سے بے نیاز ہو چکے۔ عزیزم طاہر علی بندیشہ نے ڈھاکہ سے لُنگیاں منگوا کر دیں جو تعداد میں کچھ زیادہ ہی تھیں! ایک بزرگ‘ کرنل صاحب کو‘ جو میرے علاقے سے تھے‘ فون کیا کہ آپ کی خدمت میں ڈھاکہ کی دھوتی بھیج رہا ہوں۔ کہنے لگے: میں تو پہنتا ہی نہیں! اب گاؤں میں بھی شاید ہی کوئی تہمد میں نظر آئے! ہاتھ سے بنے ہوئے جوتے‘ جن کی نوک آگے سے اُٹھ کر دہری ہوئی ہوتی تھی‘ ختم ہو چکے! پگڑی بھی خال خال ہی رہ گئی ہے! شلوار قمیص کے اوپر کوٹ پہنا جاتا تھا جو گھٹنوں تک ہوتا تھا۔ اب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے لڑکپن میں ایک رنگ کی شلوار قمیص‘ یعنی سوٹ کا رواج نہ تھا۔ سفید شلوار پر قمیص کسی بھی رنگ کی پہن لیتے تھے۔ بوسکی کی قمیص اور لٹھے کی سفید شلوار مقبول لباس تھا۔ آج کی نسل گھر کے اندر‘ زیادہ تر شرٹ اور ٹراؤزر پہنتی ہے! شہروں میں ایسے نوجوان کثیر تعداد میں ملیں گے جو شلوار قمیص کبھی نہیں پہنتے۔ لباس کی یہ تبدیلیاں فطری ہیں۔ ہمیشہ سے رونما ہوتی آئی ہیں اور رونما ہوتی رہیں گی! ان تبدیلیوں کو بزور روکا نہیں جا سکتا! قوموں کا اختلاط بھی ان تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ مفتوح قومیں‘ فاتحین کا لباس پہن کر اپنے احساسِ کمتری کو دباتی ہیں۔ کبھی کبھی فاتحین اپنا لباس‘ اپنی زبان‘ بزور نافذ کرتے ہیں۔ عرب فاتح تھے تو عرب لباس اور عرب زبان ملک ملک پھیلی۔ بر صغیر میں انگریز کی حکومت آئی تو آہستہ آہستہ مغربی لباس اپنی جگہ بنانے لگا۔ روسی وسطی ایشیا میں آئے تو پوری ریاستی طاقت کے ساتھ لباس اور رسم الخط بدلا۔ اب روایتی لباس وہاں صرف عجائب گھروں میں رہ گیا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ عروج پر تھی تو مسلم دنیا میں ترکی ٹوپی کا بہت رواج تھا۔ ترکی ٹوپی کا اصل نام Fez Cap ہے۔ کیونکہ یہ مراکش کے قدیم شہر فَیز میں بنتی ہے۔ اس کا سرخ رنگ درختوں کے پتوں سے نکالا جاتا ہے۔ فَیز شہر کا مراکشی نام فاس ہے۔ میں نے فاس میں ترکی ٹوپیوں کی دکانیں دیکھی ہیں۔ اس ٹوپی کو طربُوش بھی کہا جاتا ہے۔
خوراک کا معاملہ زیادہ دلچسپ ہے۔ مغلوں کے زمانے میں باجرے کی کھچڑی کا بہت زیادہ چلن تھا۔ اس میں اتنے تجربے کیے گئے اور اتنی اقسام لائی گئیں کہ بریانی کے مقابلے میں آگئی۔ میدانِ جنگ میں یہ تیار بھی جلد ہو جاتی تھی۔ انگریز آئے تو ساتھ ہی کیک‘ پیسٹری اور ڈبل روٹی آگئی۔ اکبر الہ آبادی نے طنز کیا کہ:
چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
خوراک میں نئی نئی چیزوں کا اضافہ‘ بجائے خود ایک دلچسپ داستان ہے۔ آج کل بھارتی حکومت ہر شے کو اصلاً بھارتی کہنے اور کہلوانے پر تلی ہے۔ پہلے آگرہ اور الہ آباد کے نام تبدیل کیے۔ اب حیدر آباد دکن کا نام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اسی ترنگ میں آکر کچھ عرصہ پہلے بی جے پی اور اس کے حامیوں نے یہ احمقانہ دعویٰ کیا کہ سموسہ اور اس میں پڑنے والا آلو اصلاً بھارتی ہیں اور دنیا کو یہ تحفہ بھارت نے دیا ہے۔ بھارت کے معروف محقق سہیل ہاشمی صاحب نے اس دعوے پر شدید گرفت کی۔ سہیل ہاشمی نے تاریخ پر کئی فلمیں اور ڈاکیو منٹریز بنائیں۔ دلّی کی تاریخ کے وہ ماہر ہیں اور دلّی کی سیر کے لیے بہترین گائیڈ ہیں۔ ایک مدت سے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کو وہ دلّی کی سیر کرا نے کے ساتھ ساتھ دلّی پر لیکچر بھی دیتے ہیں۔ بھارتی دعوے کے رَد میں انہوں نے ڈاکیومنٹریز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ بینگن‘ گنے‘ چاول‘ آم اور کیلے کے سوا کوئی شے بھی اصلاً بھارتی نہیں۔ آلو پرتگالی لائے۔ مہاراشٹر میں اسے بٹاٹا کہتے ہیں جو پرتگالی زبان کا لفظ ہے۔ رہا سموسہ تو وہ وسط ایشیا سے آیا۔ آج بھی تاشقند کے بازاروں میں سموسہ فروخت ہو رہا ہے۔ مرچ کا اورنگ زیب کے عہد تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ یہ جنوبی امریکہ کا پودا ہے۔ پرتگالی ہندوستان آتے تو اس کی باڑ (Hedge) لگاتے تھے کیونکہ کئی رنگوں کی مرچیں باڑ میں خوبصورت لگتی تھیں۔ ان کے گھروں میں مقامی لوگ جو کام کرتے تھے انہوں نے مرچ کو کھانے میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اٹھارہویں صدی میں جب جنوب کے مرہٹے مار دھاڑ کرتے دہلی پہنچے تو مرچ بھی ساتھ لائے۔ یوں مرچ شمالی ہند میں پہنچ گئی۔ یاد رہے کہ ایران‘ افغانستان اور وسط ایشیا میں مرچ ابھی تک نہیں کھائی جاتی۔ طفیل ہاشمی یہ بھی کہتے ہیں کہ انگور‘ سیب اور خوبانی‘ ہندوستان میں شہنشاہ بابر لایا۔ گنے سے کھانڈ ہندوستان ہی میں بننا شروع ہوئی۔ اسی سے مصریوں نے کرسٹل چینی بنائی جو ہندوستان میں واپس آئی تو مصری کہلائی۔ کھانڈ اور گُڑ بیچنے والوں کو ''کھنڈ ساری‘‘ کہا جاتا تھا۔ کھانڈ وسط ایشیا میں گئی تو قند کہلانے لگی۔ یورپ میں یہی لفظ کینڈی بن گیا۔ سکندر اعظم کے ساتھ یونانی ہندوستان آئے تو کیلے کے درخت کو دیکھ کر حیران ہوئے کہ اس میں لکڑی نہیں ہے۔ تنا بھی پتوں کا مجموعہ ہے۔ یونانی ہی ہندوستان میں قینچی لائے۔ اور کپڑے کی کٹائی اور سلائی شروع ہوئی۔ اس سے پہلے تمام ہندوستانی ملبوسات اَن سلے کپڑوں پر مشتمل تھے۔ ساڑھی‘ دھوتی‘ تہمد‘ لُنگی‘ لنگوٹ‘ پگڑی‘ سب سلائی کے بغیر ہیں۔
آج برگر‘ پِزا‘ نوڈلز اور چین اور کئی دوسرے ملکوں کے کھانے ہمارے دسترخوان کا حصہ ہیں۔ عرب مَندی بھی مقبول ہو رہی ہے۔ انٹرنیٹ پر ساری دنیا کے پکوانوں کی تراکیب دستیاب ہیں۔ فلم‘ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ملبوسات کو بین الاقوامی حیثیت دے دی ہے۔ پچاس یا سو سال بعد یہ دنیا جس میں ہم آج رہ رہے ہیں‘ معدوم ہو چکی ہو گی۔ جس طرح کائنات ہر لمحہ پھیل رہی ہے‘ اسی طرح انسانی دنیا ہر لحظہ بدل رہی ہے۔ اس تبدیلی کا احساس روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ مگر جب بہت سے دن‘ ہفتے‘ مہینے اور سال اکٹھے ہو جاتے ہیں تو تغیر صاف نظر آتا ہے۔ ہمارے جسم کی بھی یہی کہانی ہے۔ جو ہمیں ہر روز دیکھتا ہے اسے نہیں پتا چلتا مگر جو کئی سال بعد ملتا ہے‘ بعض اوقات پہچان ہی نہیں پاتا۔