زرداری صاحب کی خواہش ہے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنتا دیکھیں۔ میاں نواز شریف یہی خواب مریم بی بی کے بارے میں دیکھ رہے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب ایسے ہی خواب کی تعبیر پا بھی چکے ہیں کیونکہ حمزہ شہباز کا نام تاریخ میں چیف منسٹر پنجاب کے طور پر آچکا ہے۔ رہے شریف برادران خود‘ تو دونوں کئی کئی بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ بڑا بھائی وفاق میں تو چھوٹا پنجاب میں حکمران رہا اور دونوں بیک وقت رہے۔ اب شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر بیٹھ کر تاریخ کا ایک دائرہ مکمل بھی کر لیا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے خاندان سے نکلنے کو تیار نہیں۔ دونوں پارٹیوں میں بڑے بڑے جہاندیدہ اور لائق سیاستدان موجود ہیں۔ رضا ربانی‘ کائرہ صاحب‘ ندیم افضل چن‘ شیری رحمن‘ سید خورشید شاہ‘ شہلا رضا۔ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی‘ صدیق الفاروق‘ مفتاح اسماعیل‘ اقبال ظفر جھگڑا‘ مہتاب عباسی۔ ظاہر ہے یہ فہرست مکمل نہیں۔ تعجب ہے کہ ان میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ بلاول‘ حمزہ اور مریم کی جگہ لے سکے!
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خلقِ خدا ان خاندانوں سے اور ان کی بادشاہت سے اُکتا چکی ہے۔ اس قدر اُکتا چکی ہے کہ اب انہیں عثمان بزدار بھی قبول ہے۔ اب وہ مانیکا فیملی کے اقتدار کو بھی برا نہیں سمجھتے! اب انہیں وہ چالیس ارب بھی یاد نہیں رہے جو قومی خزانے میں ڈالنے کے بجائے ایک بزنس ٹائیکون کی جیب میں ڈال دیے گئے۔ اب قادر یونیورسٹی کے معاملات بھی ووٹ ڈالنے والوں کو شفاف نظر آتے ہیں۔ اب مسلمانوں کو یہ بات بھی دین کے خلاف نہیں لگتی کہ قبر میں ان سے پوچھا جائے گا کہ امپورٹڈ حکومت کے خلاف جد و جہد کیوں نہیں کی۔ ان خاندانوں سے لوگ اس قدر اُکتا چکے ہیں کہ انہیں‘ عمران خان صاحب اپنی شدید منتقم مزاجی‘ بیسیوں وعدہ خلافیوں اور بے شمار سوالات کے باجود قبول ہیں۔ ایسے سوالات جن کے جواب سامنے آنے ازحد ضروری ہیں! مگر عمران خان ان کے بارے میں مسلسل خاموش ہیں!
عمران خان نے ایک نفسیاتی جنگ لڑی اور بے حد کامیابی کے ساتھ لڑی۔ وہ ایک خلافِ حقیقت بات کو اس تواتر کے ساتھ کہتے ہیں‘ اتنا دہراتے ہیں کہ سننے والوں کی یاداشت میں وہ بات کھد جاتی ہے اور وہ اسے حقیقت مان لیتے ہیں۔ وہ ایک ڈرل مشین چلاتے ہیں جو ذہنوں میں سوراخ کرتی ہے۔ جب وہ کسی کو وِلن بنا کر پیش کرتے ہیں تو ایک نہ ختم ہونے والی مہم چلا دیتے ہیں جس کے مقابلے میں اس شخص کی ساری صفائیاں اور سارے مثبت پہلو‘ صفر ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں یہ ہنر کسی کو نہیں آتا۔ اس میدان میں ان کے مخالفین ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے! اس نفسیاتی جنگ میں عمران خان اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت کر دیتے ہیں! وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں! کس طرح؟ صرف ایک بات کو سینکڑوں ہزاروں بار دہرا کر! یہ ایک فن ہے! یہ ایک تکنیک ہے! اس سے وہ لوگوں کی آرا کو اپنے حق میں موڑ دیتے ہیں! گزشتہ ہفتے‘ چودہ جولائی کو دنیا ٹی وی پر کامران شاہد صاحب کے پروگرام میں اس فقیر نے برملا اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ عمران خان پچاس فیصد سے زیادہ نشستیں لے جائیں گے۔
عمران خان اس ملک کے پہلے سیاست دان ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کو ایک پلاننگ کے ساتھ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور کمال کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ تاریخ میں ہمیشہ وہی حملہ آور کامیاب ہوئے ہیں جن کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے۔ بابر کی توپوں کے سامنے ابراہیم لودھی کے ہاتھی بے بس ہو گئے۔ جنوبی ہند میں جب فرانسیسی اُترے تو ان کے پاس جدید ترین بندوقیں تھیں۔ مقامی حکمران ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ان فرانسیسی سپاہیوں کو کرائے پر لیتے تھے۔ ان کے ہتھیار‘ ایک لاکھ کی سپاہ کو ایک ہزار کے سامنے ڈھیر کر دیتے تھے۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی جنگ میں جب جہازوں کو خشکی پر چلوایا تو یہ ایک اچھوتی جنگی چال ہی تو تھی۔ ایک نیا ہتھیار ہی تو تھا۔ آج کی لڑائیاں مختلف قسم کے ہتھیار مانگتی ہیں۔ کامیاب وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی آرا بدل دے اور زیادہ ووٹ حاصل کر لے۔ سوشل میڈیا عمران خان کا وہ توپخانہ تھا جس کے سامنے حریفوں کے ہاتھی کچھ نہ کر سکے اور پانی پت کا یہ میدان عمران خان کے ہاتھ رہا۔ پی پی پی ہو یا نون لیگ یا جے یو آئی‘ سو شل میڈیا کے حوالے سے تحریک انصاف کے مقابلے میں صفر ثابت ہوئے اور کھیت رہے۔
عمران خان ملک کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں اور وزیراعظم دفتر میں سوشل میڈیا کے جوانوں اور ٹیموں کو بلایا‘ وی لاگرز کو بلایا‘ ان سے خطاب کیا‘ انہیں اہمیت دی اور اپنے لیے اس طرح استعمال کیا جیسے جنگ میں فضائیہ کو برتا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے سکواڈرن کے سکواڈرن نکلے اور عمران خان کے حریفوں پر وہ بمباری کی کہ ہر طرف آگ بھڑک اٹھی۔ یہ وہ ڈرل مشینیں تھیں جنہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو ڈرل کر کے ان میں عمران خان کا بیانیہ بھر دیا۔ یاد رہے کہ اقتدار کی جنگ حق اور باطل کی جنگ نہیں ہوتی۔ اس میں سچ اور جھوٹ نہیں دیکھا جاتا۔ اس میں صرف برتری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ تیمور نے جب عثمانی خلیفہ پر حملہ کیا تو کیا یہ حق و باطل کی جنگ تھی؟ کیا شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو اصولوں کی بنیاد پر حکومت سے بے دخل کیا اور کیا اورنگ زیب کے بھائی مسلمان نہیں تھے؟ جس کی جنگی چالیں کامیاب ہوئیں وہ جیت گیا۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ لوگوں کی آرا ہیں جو فیصلہ کرتی ہیں اور لوگ سچ یا جھوٹ نہیں دیکھتے۔ ان پر سوشل میڈیا اثر کرتا ہے اور ان کی رائے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
مذہب کا استعمال عمران خان کا ایک اور جنگی ہتھیار ہے۔ وہ معاملے کو‘ جیسا کہ قاسم سوری صاحب نے انہیں کہا‘ اسلامی ٹچ دیتے ہیں۔ پاکستان میں تجارت اور سیاست کے لیے ہمیشہ مذہب کو استعمال کیا گیا ہے۔ مگر عمران خان اس استعمال کو آخری حدوں تک لے گئے۔ ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگایا۔ عمرے پر جانے والوں پر اعتراض کیا اور کسی عالم دین نے اس دیدہ دلیری پر گرفت نہ کی۔
ایک اور بڑا عامل‘ عمران خان کا عام آدمی کی سطح پر اُتر کر اسے محظوظ (Entertain)کرنا ہے۔ ہمارے عوام پست سطح کی للکار‘ زبان اور لہجہ پسند کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ عمران خان جب اوئے کہہ کر حریفوں کو مخاطب کرتے ہیں‘ ان کے نام رکھ کر ان کی تحقیر کرتے ہیں‘ ان کی تضحیک کرتے ہیں‘ ان کی بھد اُڑاتے ہیں‘ یہاں تک کہ انہیں گھٹیا تک کہہ دیتے ہیں‘ تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے اس پہلو کی وجہ سے بھی لوگ ان کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ تحقیر کا یہ انداز بھٹو صاحب نے بھی آزمایا تھا مگر عمران خان صاحب اس فن کو اس کی بلندیوں تک لے گئے ہیں۔
یہ سب عوامل کار فرما ہیں مگر عمران خان کی مقبولیت اور کامیابی کی فیصلہ کن وجہ ایک اور ہے۔ اس پر بات اگلی نشست میں ہو گی۔