دبئی میں مقیم عزیزم طاہر علی بندیشہ کا اصرار ہے کہ سب رنگ ڈائجسٹ کی کہانیوں پرضرور لکھوں! اسے سمجھایا کہ رؤف کلاسرا اور ڈاکٹر شاہد صدیقی جیسے نامور لکھنے والے یہ کام کر چکے ہیں اور دوسرے یہ کہ میں کہانیوں کا بہت بڑا شائق بھی نہیں‘ خاص طور پر وہ کہانیاں جو مغرب سے چلیں اور تراجم کے دروازے سے ہمارے دالان میں داخل ہو گئیں ! مگر پھر سوچا کہ جو بھی خیالات ہیں‘ ان کا اظہار کر دیا جائے۔
ہزار ہا افراد کی طرح مجھے بھی سب رنگ کا انتظار رہتا تھا۔ وہ جو رسوائے زمانہ کہانی تھی‘ بازی گر‘ جس میں بٹھل اور بابر زمان کے کردار تھے‘ اس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شاید اس لیے کہ نفسیاتی طور پر ہر اُس شے سے گریزاں ہوں جس پر عوام ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جیسے ارطغرل ڈرامہ! کہ بقول شاعر
ازان کہ پیرویٔ خلق گمرہی آرد
نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست
لوگوں کے پیچھے چلنے کا نتیجہ گمراہی ہے۔اسی لیے ہم اُس راستے پر نہیں چلتے جس پر قافلہ گیا ہے۔
یوں بھی جس ذوق و شوق سے اس قوم نے ارطغرل ڈرامے پر جان واری ہے اس سے ایک ہی چیز واضح ہوتی ہے کہ اپنے پلے کچھ نہیں ! کسی قطب الدین ایبک پر‘ کسی خلجی پر‘ کسی تغلق پر‘ کسی مغل حکمران پر کوئی ڈ رامہ نہیں بن سکا۔ ایک بچہ کیسے اکبر اعظم بن گیا‘ کیا اس سے زیادہ دلچسپ کسی ڈرامے کی کہانی ہو سکتی ہے ؟ چلیے یہ تو بادشاہوں کا زمانہ تھا۔ پاکستان کی تاریخ پر ہی کوئی ڈرامہ بنا دیتے۔1857ء سے لے کر سرسیداحمد خان سے ہوتے ہوئے حصولِ پاکستان تک‘ایک زبردست ڈرامہ بن جانا چاہیے تھا۔ مگر جب ارطغرل پر بن گیا تو پاکستان کے ہیرو کیوں نظر آئیں !
سب رنگ ڈائجسٹ کے تین بڑے کنٹری بیوشن ہیں۔ اول:اس نے مقبولیت کے لیے وہ مبتذَل راستہ نہیں اپنایا جس پر ڈائجسٹوں کی اکثریت چل رہی تھی۔ بعض ڈائجسٹوں کے تو ناموں ہی سے کراہیت ٹپکتی تھی۔ گھروں کے گھٹے ہوئے ماحول میں جکڑی عورتیں ان غیر معیاری ڈائجسٹوں سے خواب کشید کرتی تھیں۔ شاید اب بھی کرتی ہیں۔خالاؤں‘ پھپھیوں‘ نندوں‘ بھابیوں‘ ساسوں اور بہوؤں کے جھگڑے‘ خاندانی سازشیں‘ ٹوٹی ہوئی منگنیاں اور ناکام شادیاں‘ یہی ان پست سطح کے ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیوں کے موضوع تھے۔ یہ جو آج کل ٹی وی چینلوں پر اُبکائی لانے والے ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں‘ یہ وہی فصل ہے جو ان ڈائجسٹوں نے کاشت کی ہے اور آج ہم کاٹ رہے ہیں۔ ان ڈائجسٹوں نے خواتین لکھنے والیوں کا ایک گروہ پیدا کیا ہے جن کے ضخیم ناول اُسی قسم کے مرد اور عورتیں پڑھتی ہیں جو ان مبتذَل ڈائجسٹوں پر فریفتہ تھیں۔ وہی گھروں کی چاردیواری کے اندر ہونے والے جھگڑے اور سازشیں! پستی کے اس سمندر میں سب رنگ ڈائجسٹ نے‘ عام روش سے ہٹ کر‘ بالکل نیا کام کیا۔اس نے مغرب کے کہانی کاروں کی کہانیاں شائع کیں جن میں موضوعات کا تنوع تھا۔ یہ کارپوریشنوں اوربینکوں کی دنیا تھی۔ سفر کے واقعات تھے۔ جنگوں کے دوران نئی محبتوں اور نئے رشتوں کی کہانیاں تھیں۔اخلاقی سبق بھی تھے اور عبرت کے سامان بھی ! دوم: سب رنگ ڈائجسٹ نے زبان کی صحت کا خاص خیال رکھا۔ اردو معیاری تھی اور بلند پایہ! کہانیوں کے عنوانات اچھوتے تھے جیسے نایافت‘نہاں دیدہ‘ طلسمِ قارون‘ تخمِ زر۔بے شمار افراد نے اچھی اردو سب رنگ سے سیکھی۔ سوم: سب رنگ کا سب سے بڑا کارنامہ ''جانگلوس‘‘ کی تخلیق تھا۔ شوکت صدیقی کے اس شہکار ناول کا بیشتر حصہ سب رنگ ہی میں قسط وار شائع ہوا۔بعد میں یہ تین ضخیم جلدوں میں چھپا۔ یوں تو شوکت صدیقی کا ناول ''خدا کی بستی‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے مگر جانگلوس پاکستانی سماجیات پر حرف ِآخر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شوکت صدیقی لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ کراچی میں رہے مگر پنجاب کے جاگیردارانہ دیہی معاشرے کی جو تفصیل انہوں نے جانگلوس میں بیان کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص نے یہ کہانی بُنی ہے جو پنجاب کا جَم پل تھا۔ جزئیات نگاری اس ناول میں عروج پر ہے۔ پاکستانی بیورو کریسی اور تھانے کچہری کی صحیح تصویر بھی کمال مہارت سے کھینچی ہے۔جانگلوس کی اگلی قسط کے انتظار کا مطلب تھا سب رنگ کے نئے شمارے کا انتظار۔ جیسے ہی پرچہ ہاتھ لگتا‘ سب سے پہلے جانگلوس پڑھا جاتا۔
لیکن ان زبردست خصوصیات کے ساتھ ساتھ سب رنگ ڈائجسٹ کے کچھ پہلو ایسے بھی تھے جو نظر ثانی کے محتاج تھے۔اول یہ کہ ادبِ عالیہ سے تعلق رکھنے والی کہانیاں نسبتاً کم تھیں۔ یہ درست ہے کہ موپساں‘ ایچ جی ویلز‘ سارتر‘ کافکا‘ پوشکن‘مارک ٹوئین‘ آلڈس ہکسلے اور سمر سٹ ماہام جیسے بڑے ادیبوں کی تخلیقات بھی پرچے میں ہوتی تھیں مگر ان کا تناسب کم تھا‘ بہت کم! زیادہ تر کہانیاں فرار( Escapism )کی کیٹیگری میں آتی تھیں۔ مثلاً‘ سب رنگ میں امریکی کہانی کار او ہنری کی کہانیاں بہت چھپیں اور مسلسل چھپیں۔ انگریزی کے ادبِ عالیہ میں او ہنری شاید بہت پیچھے کسی نشست پر بیٹھا ہے۔ دوم: سمندر پار کہانیوں پر زیادہ اصرار کر کے سب رنگ نے اردو کے کہانی کاروں کو محرومِ التفات رکھا۔ اردو کے ادیبوں کی کہانیاں بہت ہی کم چھپیں! پچاس فی صد نہیں تو چلیے‘ کم از کم پچیس فی صد کہانیاں ہی اردو ادب سے لے لی جاتیں! بس اکا دُکا کہانیاں ہی اردو لکھاریوں کی شامل کی گئیں یعنی نہ ہونے کے برابر۔ غلام عباس‘ ابو الفضل صدیقی‘ پریم چند‘ عظیم بیگ چغتائی اور کئی دوسرے ادیبوں کی کہانیاں عالمی معیار سے کسی صورت کم نہیں! سوم: سب رنگ نے سمندر پار کی کہانیوں کا بورڈ تو لگایا مگر مسلمان ملکوں کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔عربی‘ ترکی‘ ایرانی‘‘ بنگالی‘ مَلے( ملائیشیا کی زبان ) اور بھاشا( انڈو نیشیا کی زبان ) سے تراجم نہ ہونے کے برابر رہے۔ اس وقت بک کارنر کی شائع کردہ کہانیوں کی دوسری‘ تیسری اور پانچویں جلد سامنے ہے۔ان میں سے صرف تیسری جلد میں دو کہانیاں مسلمان ملکوں سے ہیں۔ایک مصر سے اور دوسری کرغزستان سے۔ باقی سب مغرب سے ہیں! ایک اور جلد‘ ( شاید چوتھی) میں عربی کے ایک افسانے کا ترجمہ پڑھا ہے۔ یہ ترجمہ خورشید رضوی صاحب نے بہت دلکش انداز میں کیا ہے۔ شمالی افریقہ کے ممالک ( لیبیا‘ الجزائر‘ تیونس‘ مراکش) کی کہانیوں سے ہم مکمل طور پر نا بلد ہیں۔ وسط ایشیا کی کہانی کیسی تھی اور بعد میں روسی استعمار نے ان ریاستوں کی کہانی کو کس طرح بدلا؟ اس سے بھی ہم ناآشنا ہیں۔ بھارتی کہانیاں بھی سب رنگ میں بہت کم شائع ہوئیں۔ ہندی کے علاوہ‘ مراٹھی‘ تامل‘ تیلگو اور ملیالم زبانوں میں کمال کا ادب تخلیق پا رہا ہے۔ اجمل کمال نے اپنے جریدے ''آج‘‘ کے کئی شمارے بھارتی زبانوں کی کہانیوں کے تراجم کے لیے مخصوص کیے ہیں۔ یہ کہانیاں مغربی کہانیوں کی نسبت ہمارے ماحول‘ مزاج اور تفہیم سے نزدیک تر ہیں! اور چہارم یہ کہ سب رنگ نے شاعری کو بالکل درخورِ اعتنا نہ گردانا! چلیے‘ اردو شعرا کو نہ سہی‘ انگریزی اور دیگر سمندر پار کی زبانوں کی شاعری پر ہی توجہ دے دی جاتی! زیادہ نہیں تو ہر شمارے میں کسی ایک شاعر کی ایک یا دو نظموں کے تراجم شامل کر لیے جاتے۔اس سے جریدے کا کینوس وسیع تر ہو جاتا!
بہر طور اس میں کیا شک ہے کہ سب رنگ ڈائجسٹ نے اردو کی تاریخ میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے۔ یہ مقام قابل رشک ہے۔ ہم جیسے طالب علم اس رسالے کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اس میں چھپنے والی کہانیوں کو کتابی شکل میں چھاپنے کا منصوبہ خوش آئند ہے اور قابلِ تحسین !