ایک منفرد آواز

اردو شاعری پر کٹھن وقت ہے!
اس لیے نہیں کہ جینوئن شاعر موجود نہیں! جینوئن شاعر موجود ہیں۔ اچھی غزل کہی جا رہی ہے۔ نظمیں بھی جاندار کہی جا رہی ہیں۔ المیہ اور ہے۔ پہلے مسئلہ یہ تھا کہ ٹیلی وژن سرکاری تھا۔ اس پر مشاعرے ہوتے تھے‘ چند مخصوص گروہ چھائے ہوئے تھے۔ ٹھیکیداری نظام تھا! مگر اچھی شاعری کو اس سے فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ادبی جریدوں کی گرفت مضبوط تھی۔ فنون اور اوراق جیسے رسالے تربیت کا کام بھی کر رہے تھے اور تنقید و تصحیح کا بھی! مگر اب جو افتاد آن پڑی ہے وہ سوشل میڈیا کی ہے۔ پیش منظر پر ''بے استادے‘‘ شاعروں کی کھیپ ہے۔ اب لفظ کی صحت ضروری نہیں۔ اب زبان غیر معیاری ہو تب بھی شعر کی گاڑی چلے گی۔ اب ضروری یہ ہے کہ لائکس کتنے آرہے ہیں۔ اشعار شیئر کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔ ساتھ افتاد یہ آن پڑی کہ ادبی جریدوں کا کال پڑ گیا۔ گنتی کے چند جریدے نظر آتے ہیں۔ کراچی سے ''مکالمہ‘‘ نکل رہا ہے‘ لاہور میں ''ادبِ لطیف‘‘ نے انگڑائی لی ہے۔ حسین مجروح ''سائبان‘‘ نکال رہے ہیں۔ ''تسطیر‘‘ چھپ رہا ہے مگر سال میں ایک آدھ بار!
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعری‘ یعنی اصل شاعری‘ نہیں ہو رہی۔ جینوئن شاعر سوشل میڈیا سے بے نیاز ہیں۔ مشاعرے بھی ان کا مسئلہ نہیں! اور یہ جینوئن شاعر اتنی کم تعداد میں بھی نہیں! خاموشی سے تخلیقی کام کر رہے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا! انہی میں قمر رضا شہزاد بھی ہے۔ والدین انبالہ سے چلے تو کبیر والا آگئے۔ قمر رضا شہزاد نے کبیر والا میں آنکھ کھولی۔ مجھے قمر رضا شہزاد کی شاعری میں کثیر تعداد ایسے اشعار کی ملتی ہے جو چونکاتے ہیں۔ جن میں Originalityصاف دکھائی دیتی ہے۔ لازم ہے کہ یہ آواز قارئین تک پہنچے۔ قمر رضا شہزاد کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے۔ ان اشعار میں محبت بھی ہے‘ معاشرت بھی‘ سیاست بھی اور پاکستان کے حالات بھی! کج کلاہوں کا ذکر بھی ہے اور بوریا نشینوں کا بھی!
دعا اٹھائی‘ فلک کی طرف نکل پڑا میں
خدا سے ملنے کو جی کر رہا تھا‘ چل پڑا میں
کہ جیسے چھوٹے سے بچے کی روح مجھ میں تھی
ذرا سی دیر توجہ ہٹی‘ مچل پڑا میں
٭......٭......٭
دل بھر گیا ہے اور مری نیت نہیں بھری
وہ حسن دیکھ دیکھ طبیعت نہیں بھری
گِر تو رہے ہیں لمحہ بہ لمحہ فلک سے چاند
لیکن مرے مکاں کی ابھی چھت نہیں بھری
٭......٭......٭
میرا پانی چرایا گیا میری مٹی اٹھائی گئی
تب کہیں جا کے اک اور دنیا بنائی گئی
٭......٭......٭
مجھے تو کاٹتے ہیں جسم کے در و دیوار
خدا گواہ میں بیزار اس مکاں سے ہوں
٭......٭......٭
یہ سلطنت کئی حصوں میں بٹ بھی سکتی ہے
یہ سوچ لینا اسے بادشاہ بناتے ہوئے
٭......٭......٭
شعر گوئی تھی میاں کوئی تجارت تو نہ تھی
اس سے بازار میں کیا دام بنا لیتا میں
٭......٭......٭
میں سوچتا ہوں یہ تقسیم کس نے کی آخر
وہ بادشاہ ہوا اور میں غلام ہوا
میں اپنے باپ کے مرتے ہی مر گیا شہزادؔ
مکاں کے ساتھ ہی میرا بھی انہدام ہوا
٭......٭......٭
مجھے ملی ہے یہ دنیا بنی بنائی ہوئی
یقین کیجیے میرا گناہ کوئی نہیں
نہ جانے کون چلاتا ہے سلطنت کا نظام
کمال ہے کہ یہاں بادشاہ کوئی نہیں
میرا گناہ صرف محبت ہے اور بس
میرے لیے جزا و سزا مسئلہ کوئی نہیں
٭......٭......٭
جہاز کیسے ہوا غرق کچھ پتا بھی تو ہو
مگر یہ کون بتائے کوئی بچا بھی تو ہو
ہر ایک شخص محبت کا نام لیتا ہے
یہ کارِ خیر کسی نے کبھی کیا بھی تو ہو
٭......٭......٭
یہاں میں تخت سے ایسے اتارا جاؤں گا
لڑائی ہونے سے پہلے ہی مارا جاؤں گا
٭......٭......٭
میں اتنا نرم طبیعت کہ یہ بھی چاہتا ہوں
جو آستین میں رہتا ہے وہ بھی پل جائے
٭......٭......٭
اور اب تو آ گئی رسّی تمہاری گردن میں
پڑے گا فرق بھی کیا بے گناہ ہونے سے
٭......٭......٭
ہمارے جیسے دوبارہ رقم نہیں ہوتے
ہمارا نام ذرا سوچ کر مٹائیے گا
بکھر رہے ہیں تو کیا ہے، ہماری مٹی سے
ہمارے جیسا کوئی دوسرا بنائیے گا
کسی کا آپ سے کیوں مختلف عقیدہ ہو
سو تیغ کھینچئے گا اور سر اڑائیے گا
٭......٭......٭
یہاں غریب ہی کیوں بے گناہ مارا جائے
کوئی وزیر‘ کوئی بادشاہ مارا جائے
لہو میں ہر گھڑی پھنکارنے لگا ہے عشق
اٹھاؤ ہاتھ، یہ مارِ سیاہ مارا جائے
٭......٭......٭
دونوں ہی اپنی سمت مجھے کھینچتے رہیں
دنیا و دیں کے بیچ یہ جھگڑا پڑا رہے
میں چھوڑ دوں گا حجرِ دنیا مگر یہاں
میری چٹائی میرا پیالہ پڑا رہے
٭......٭......٭
میں اپنے بعد بھی دنیا میں جگمگاتا رہوں
مرے چراغ کی لو تا ابد کریں صاحب
یہاں میں شہرِ محبت بسانا چاہتا ہوں
سو آپ تھوڑی سی میری مدد کریں صاحب
سنا ہے دشت کو مسند نشین چاہیے ہے
مجھے بھی اس کے لیے نامزد کریں صاحب

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں