پروفیسر اشفاق علی خان پاکستان کی تاریخ کا ایک مینار ہیں! بلند مینار!
1937ء میں ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ جہاں تک اس قلمکار کی معلومات کا تعلق ہے‘ انہوں نے ایم اے میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی تھی جو بہت ہی کمیاب تھی۔ وہ پنجاب کے تین بڑے کالجوں کے پرنسپل رہے۔ گورنمنٹ کالج کیمبل پور 1958ء سے 1964ء تک۔ گورنمنٹ کالج راولپنڈی 1964ء سے1967ء تک۔ اور گورنمنٹ کالج لاہور 1967ء سے1970ء تک۔ جن برسوں میں وہ گورنمنٹ کالج راولپنڈی کے پرنسپل رہے‘ انہی برسوں میں مَیں بھی وہاں کا طالب علم تھا۔ مجھے فخر ہے کہ وہ میرے پرنسپل تھے۔ ان کے صاحبزادے کامران علی خان میرے ہم جماعت تھے۔ سنا تھا کہ وہ سی ایس ایس کرکے انفارمیشن سروس میں آگئے تھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ کالج سے نکلنے کے بعد ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ قیامِ پاکستان سے پہلے پروفیسر اشفاق علی خان الحمزہ کے قلمی نام سے تحریک پاکستان کے لیے انگریزی اخبارات میں مضامین لکھتے رہے۔ یہ مضامین 1941ء میں کتاب کی صورت میں شائع ہوئے۔ کتاب کا عنوان تھا ''پاکستان، اے نیشن‘‘ مصنف کا نام الحمزہ ہی رہا۔ اس کے دیباچے میں پروفیسر اشفاق علی خان نے واضح کیا کہ ان مضامین میں انہوں نے تاریخی‘ جغرافیائی اور معاشرتی حوالوں سے مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کو کمک پہنچائی ہے۔ یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ تاہم پروفیسر صاحب کا اصل کارنامہ ان کا ''نظریۂ حکمت و حکومت‘‘ ہے جس کا وہ ساری زندگی پرچار کرتے رہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ حکومت کا کام ان افراد کے سپرد ہونا چاہیے جو حکمت‘ علم اور تدبر رکھتے ہوں نہ کہ بیوروکریسی کے سپرد۔ ان کا اصرار تھا کہ لگان اور مالیہ جمع کرنے والے افسران کا پالیسی سازی اور پالیسی کے نفاذ سے کیا تعلق! تعلیم‘ تجارت‘ صحت اور دیگر شعبے‘ اِن شعبوں کے ماہرین ہی کے سپرد ہونے چاہئیں!
پروفیسر اشفاق علی خان اور ان کا '' نظریۂ حکمت و حکومت‘‘ یوں یاد آیا کہ ایبٹ آباد سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ وہاں ادبی میلے ( لٹریری فیسٹیول) کا انعقاد ہو رہا ہے۔ جو قارئین ادبی میلے کی اصطلاح سے روشناس نہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کا یہ اکٹھ کچھ عرصہ قبل منعقد ہونا شروع ہوا۔ کبھی کراچی اور کبھی لاہور میں۔ ادبی میلے کا تصور اچھا تھا مگر قباحت یہ آن پڑی کہ گنتی کے چند ادیبوں اور شاعر وں نے اسے اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔ ہر میلے میں اور ہر شہر کے میلے میں وہی مخصوص چہرے نظر آنے لگے۔ اس ادبی میوپیا (Myopia) اور بیمار اجارہ داری کا مثالی نمونہ ایبٹ آباد (ہزارہ) کا یہ لٹریری میلہ ہے جو ضلعی انتظامیہ کے تحت منعقد ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دو دن کے اس میلے میں مضامین پیش کرنے والے اور تقریریں کرنے والے ادیبوں کی اکثریت کا تعلق ہزارہ سے ہے نہ خیبر پختونخوا سے! اگر یہ لٹریری میلہ ایبٹ آباد میں منعقد ہو ہی رہا ہے تو اس میں ہزارہ اور بقیہ خیبر پختونخوا کے ادیبوں اور شاعروں کو موقع ملنا چاہیے تھا کیونکہ کراچی اور لاہور کے ادبی میلوں میں انہیں کم‘ بہت ہی کم‘ پوچھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس میلے میں ڈاکٹر عشرت حسین کو مدعو کیا گیا ہے۔ میلے میں اُن مضامین پر بات کی جائے گی جو ان کے اعزاز میں لکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین ادیب ہیں نہ شاعر۔ ہاں وہ ہر حکومت میں سول سروسز اصلاحات کے لیے وزیر ضرور بنائے جاتے ہیں۔ عمران خان نے بھی انہیں یہ کام سونپا اور پھر تقریباً تین سال بعد انہیں فارغ کر دیا۔ یہ اصلاحات آج تک کسی کو دکھائی نہ دیں۔ ایک سیشن افتخار عارف صاحب کی زندگی اور فن پر رکھا گیا ہے۔ اس سیشن میں بھی افتخار صاحب پر بات کرنے کے لیے کسی مقامی یا کے پی کے ادیب کو نہیں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ماڈریٹر (ثالث) بھی درآمد شدہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح میرا نام مجھ سے پوچھے بغیر شامل کیا گیا ہے‘ افتخار عارف صاحب کا نام بھی اسی طرح شامل کیا گیا ہوگا۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ اپنے بارے میں سیشن رکھنے کی اجازت ہر گز نہ دیتے۔ ان پر تو کئی تقریبات میں بیسیوں سیشن ہوئے ہوں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ افتخار عارف یقینا کہتے کہ ہزارہ اور بقیہ کے پی کے ادیبوں اور شاعروں کی زندگی اور فن پر سیشن رکھے جائیں۔ میرے دوست حارث خلیق بھی یقینا یہی نصیحت کرتے۔ حیرت ہے کہ کے پی کے ممتاز ادیب اور شعرا پر کوئی سیشن نہیں۔ غلام محمد قاصر‘ محسن احسان‘ رضا ہمدانی‘ فارغ بخاری‘ خاطر غزنوی اور شوکت واسطی بہت بڑے نام ہیں۔ ان کا اس پروگرام میں‘ جس کی تفصیل اردو میں نہیں‘ انگریزی میں جاری کی گئی ہے‘ کوئی ذکر نہیں۔ اگر ان جید اور نامور ادیبوں اور شاعروں کو ایبٹ آباد میں بھی یاد نہیں کیا جائے گا اور ان پر کیے گئے کام کو پیش نہیں کیا جائے گا تو پھر اور کہاں کیا جائے گا۔ اب ذرا زندہ ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک دیکھیے۔ ایبٹ آباد میں جناب سلطان سکون اور احمد حسین مجاہد ملک گیر شہرت رکھنے والے شاعر ہیں۔ احمد ندیم قاسمی‘ سلطان سکون صاحب کے بہت قدر دان تھے۔ واحد سراج‘ امتیاز الحق امتیاز‘ میجر امان اللہ خان‘ ڈاکٹر عامر سہیل اور محمد حنیف کوئی معمولی ادیب اور شاعر نہیں۔ پشاور میں عزیز اعجاز اور ناصر علی سید ہیں اور سب سے بڑھ کر جناب پروفیسر ڈاکٹر نذیر تبسم ہیں۔ ان میں سے کوئی نام بھی اس میلے کے اُس پروگرام میں نظر نہیں آرہا جو انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے۔ یہاں ایک لطیفہ بھی ہو گیا ہے۔ پروگرام کی رُو سے ڈاکٹر ایوب صابر‘ جناب سلطان سکون‘ جناب آصف ثاقب اور پروفیسر صوفی عبد الرشید کو لائف ٹائم ایوارڈ دیے جائیں گے۔ ارے بھئی! ایوارڈ دینے سے پہلے ان کے بارے میں شرکا کو کچھ بتا بھی دیتے! ان پر کوئی سیشن ہی رکھ دیتے۔ ان کے کارناموں اور خدمات پر کچھ مضامین ہی پیش کرا دیتے یا کچھ گفتگو ہی کرا دیتے! یہی صورت حال مشاعرے کی بھی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ مشاعرے کی مجلسِ صدارت جناب آصف ثاقب اور جناب سلطان سکون پر مشتمل ہونی چاہیے تھی۔ جناب انور مسعود اور جناب افتخار عارف بلاشبہ بڑے نام ہیں اور ہمارا سرمایہ ہیں۔ مگر وہ تو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک صدارت کرتے ہی رہتے ہیں۔ ان کی موجودگی اور سرپرستی میں مقامی بزرگ شعرا کی تکریم اور تعظیم ایک یادگار کارنامہ ہوتا جو ادبی تاریخ کا حصہ ہوتا۔ ہری پور میں بھی ممتاز اہلِ قلم رہتے ہیں۔ جناب محمد ارشاد بہت بڑے فلسفی اور ادیب ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے وہ بہت قریب تھے۔ ریاض ساغر اور وحید قریشی باکمال شعرا ہیں‘ سفیان صفی مرحوم کا بہت وقیع کام ہے۔
مگر بات وہی ہے جو پروفیسر اشفاق علی خان فرما گئے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ ادبی میلہ ضلعی انتظامیہ کے زیرِ انصرام ہو رہا ہے۔ ادب ان کا شعبہ نہیں۔ بلا شبہ یہ افسران لائق ہیں مگر ان افسروں کو امرت دھارا سمجھ کر ہر کام ان کے ذمے لگا دینا کام کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور ان افسروں کے ساتھ بھی! انہیں کے پی کے بالعموم‘ اور ہزارہ کے بالخصوص‘ ادیبوں اور شاعروں کا علم ہی نہ ہوگا۔ ان کی اپنی دنیا ہے۔ افسر شاہی ایک الگ جہان ہے! وہ جو عربی میں کہتے ہیں کہ لکلِّ فنِ رجالُ۔ تو جناب! جس کا کام اسی کو ساجے!