سب سے پہلے گھر کی نوکرانی پر شک ہوا۔
اس کے پاس موبائل فون بھی اچھی نسل کا تھا۔ یہ جوطبقہ ہے‘ ڈرائیور‘ مالی‘ باورچی‘ گھر میں کام کرنے والی ملازمہ‘ ان لوگوں کا لباس بوسیدہ ہو سکتا ہے مگر موبائل فون ٹپ ٹاپ قسم کا ہو گا۔ موٹرسائیکل کی طرح موبائل فون بھی شاید اب قسطوں پر ملنے لگے ہیں! بہر حال بیگم صاحبہ کا خیال تھا کہ یہ کام نوکرانی ہی نے کیا ہے۔ جس دن بیگم صاحبہ کی امی جان آئی ہوئی تھیں‘اُس دن نوکرانی تقریباً سارا وقت ہی ان کے ارد گرد رہی۔ کھانا میز پر چُنا‘ پھر کئی بار چائے بنا کر لائی۔ پھر بڑی بیگم صاحبہ کے پاؤں دباتی رہی۔ یقینا ریکارڈنگ اسی نے کی ہو گی!
حکومت اور اپوزیشن کے بعد آڈیو اور وڈیو ریکارڈ اور پھر لیک کرنے کا کاروبار گھروں تک آپہنچا تھا اور یہ بہت ہی خطرناک کھیل تھا۔ جس نے بھی یہ وڈیو بنائی تھی‘ کمال کر دیا تھا اور غضب بھی ڈھا دیا تھا۔ بیگم صاحبہ امی سے اپنی ساس کی برائیاں کر رہی تھیں اور نندوں کو کوسنے دے رہی تھیں۔ساس کے خلاف مقدمہ یہ تھا کہ ہر مسئلے میں ٹانگ اڑاتی ہیں۔ بیٹے کو غلط سبق پڑھاتی ہیں۔بیٹے کی کمائی سے اپنی شادی شدہ بیٹیوں پر بے تحاشا خرچ کرتی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے اپنا مستقبل کا پلان بھی امی کو بتایا۔ اب کسی دن وہ اپنے شوہر سے بات کریں گی کہ انہیں الگ گھر لے کر دیں۔ اب مزید مشترکہ خاندانی نظام میں ان کے لیے رہنا ممکن نہیں!
جس دن یہ وڈیو صاحب کو ملی‘ گھر میں گویا قیامت آگئی۔ انہوں نے سارا لحاظ‘ ساری مروّت‘ سارا ادب احترام ایک طرف رکھ دیا اور بیگم سے صاف لفظوں میں پوچھا کہ کیا اس لیے آتی ہیں آپ کی والدہ کہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر میری ماں کی برائیاں سنیں اور آپ کو پٹیاں پڑھائیں کہ الگ گھر لے کر رہو۔ گھر کا ماحول سخت کشیدہ ہو گیا۔ صاحب نے اپنی خوابگاہ الگ کر لی۔ بیگم نے رونا شروع کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ صاحب نے کہہ دیا بہتر ہے کچھ دن کے لیے ماں کے پاس چلی جاؤ۔ صاحب نے دفتر سے لیٹ آنا شروع کر دیا۔ بچے اپنے اپنے کمروں میں مقید ہو گئے۔
کئی ہفتوں کے بعد تلخی ذرا کم ہونے لگی تھی کہ ایک اور دھماکہ ہوا۔ اب کے جو آڈیو‘ بیگم صاحبہ کو موصول ہوئی اس میں صاحب کسی عورت سے اظہارِ محبت کر رہے تھے۔ گفتگو سے یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ انہوں نے کئی لاکھ روپے کے زیورات بھی اس حرافہ کو تحفے میں دیے تھے۔ بازی الٹ گئی تھی۔ بیگم نے صاحب کو خوب بھگو بھگو کر لگائیں۔ شوہر کے کارنامے اپنی ساس اور نندوں کو مرچ مسالا لگا کر سنائے۔ بچے الگ حیران پریشان تھے۔
یہ اس نئے خطرناک ہتھیار کا آغاز ہے۔ جو سلسلہ پی ٹی آئی اور حکومت کے رہنماؤں کی آوازیں ٹیپ کرنے اور پھر انہیں لیک کرنے سے شروع ہوا‘ وہ رکے گا نہیں! اب نندوں اور بھابیوں کی سازشیں سامنے آئیں گی۔ اب دل پھینک شوہروں کے چہروں سے نقابیں الٹیں گی۔ یہ کام ان کے ماتحت‘ اور قریبی دوست کریں گے۔ اب اُن لڑکوں اور لڑکیوں کے راز فاش ہوں گے جو '' کامن سٹڈی‘‘ کے پردے میں ممنوعہ سرگرمیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اب یہ کارروائیاں دفتروں اور اداروں میں بھی ہوں گی۔ وزیروں‘ سیکرٹریوں اور ان کے ماتحتوں کی گفتگوئیں ٹیپ کر کے لیک کی جائیں گی۔ ملازمتیں جائیں گی۔ ترقیاں رکیں گی۔ گھروں سے لے کر دفتروں‘ کارخانوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں تک میں فساد برپا ہو گا۔ پھر یہ '' مواصلاتی دہشت گردی‘‘ڈپلومیٹک امن کو تباہ کرے گی۔ ملکوں کے باہمی تعلقات میں رخنے پڑیں گے!
جب سے دنیابنی ہے‘ تباہ کن ہتھیاروں کی ایجادات امن و سلامتی کو تہس نہس کرتی آئی ہیں۔توڑے دار بندوقوں سے لے کر توپوں تک۔ پھر بمبار جہاز اور آبدوزیں! پھر ایٹم بم! مگر یہ جو ریکارڈنگ کی لیک والا ہتھیار ہے اس نے تو انسان کو مارے بغیر مار دیا ہے۔ اڑھائی تین سال پہلے ایک جج کی وڈیو لیک ہوئی تھی یا لیک کی گئی تھی۔ یہ نا گفتنی تھی یعنی ناقابلِ بیان! اندازہ لگائیے! اس کے بچوں‘ بچوں کے دوستوں‘ بیٹیوں‘ سسرال اور دیگر رشتہ داروں اور متعلقین کے سامنے اس کی کیا حالت ہوئی ہو گی! مضبوط سے مضبوط اعصاب والا شخص بھی ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے؛ تاہم کچھ افراد شرم کے ساتھ اعصاب کو بھی شکست سے دو چار کر دیتے ہیں۔ ایک بڑے منصب پر تعینات ایک صاحب کی و ڈیو کا بہت شہرہ ہوا۔ خاتون ٹی وی پر آئیں اور آتی ہی رہیں۔ مبینہ طورپر وزیر اعظم ہاؤس میں‘ بقول ان کے‘ انہیں اور ان کے میاں کو محبوس بھی رکھا گیا۔ اتنا واویلا مچا اور شور برپا ہوا کہ خدا کی پناہ! مگر صاحب کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ کیا فولادی اعصاب تھے! متمدن ملکوں کے سیاستدان ہوں یا افسر‘ قاضی ہوں یا کوتوال‘ ہمارے لوگوں کے مقابلے میں کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ شرمناک آڈیو یا وڈیو تو دور کی بات ہے‘ خبر چھپنے پر ہی مستعفی ہو جاتے ہیں۔ اعصاب سے زیادہ یہ مسئلہ شرم و حیا کا ہے! کچھ خود کُشی کر لیتے ہیں! بے شرمی‘ بے حیائی اور ڈھٹائی میں سب سے زیادہ فائدہ اعصاب کا ہوتا ہے۔ بے شرمی جتنی زیادہ ہو گی‘ اعصاب اتنے ہی فولادی ہوں گی۔ جس سیاسی شخصیت کا دعویٰ ہے کہ وہ پندرہ بار وزیر بنے‘ جب وہ ریلوے وزیر تھے تو ٹرین کا حادثہ ہوا۔ ان سے مستعفی ہونے کا کہا گیا تو کیا مضبوط اعصاب تھے۔ تنک کر جواب دیا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ میں کوئی ٹرین کا ڈرائیور تھا؟ اور یاد رہے کہ مستعفی ہونے کے لیے حکومت نے یا وزیر اعظم نے نہیں کہا تھا۔ کوئی پریس والا تھا جس نے یہ گستاخانہ بات پوچھی تھی!
ٹیپ ریکارڈر کی ایجاد کے بعد بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلیں۔ یہ جو بار بار بتا یا جاتا تھا کہ ایک کتاب دی جائے گی جس میں‘ جو کچھ کرتے رہے‘ ایک ایک چیز کو موجود پائیں گے۔''یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے تھے‘‘ (الجاثیہ )تو اب ماتھے ٹھنکے کہ اگر چند لمحوں پر محیط آوازیں اور حرکات و سکنات ٹیپ ہو سکتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری زندگی کی آوازیں اور حرکات و سکنات‘ اٹھنا بیٹھنا‘ نقل و حرکت‘ طور و طریق‘ عادات و اطوار‘ اعمال و افعال‘سب کچھ محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ انہونی اب آنکھوں کے سامنے ہونی ہو چکی تھی۔ پھر مقدار کا تناسب ملاحظہ فرمائیے۔ آج جو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ نہ جانے ہیکر اگلی آڈیو یا وڈیو جو ریلیز کرے گا تو اس میں کیا ہو گا؟ کوئی سیاسی چال‘ کوئی انتظامی سازش طشت از بام ہو گی یا کوئی غیر اخلاقی‘ شرمناک سرگرمی سامنے آئے گی ؟ دل دھڑک رہے ہیں۔ پسینے چھوٹ رہے ہیں۔حفظِ ما تقدم کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جا رہا۔تو یہ آڈیو یا وڈیو چند لمحوں کی یا چند منٹوں کی ہو گی۔ پوری زندگی کی آڈیو اور وڈیو پیش کی جائیں گی تو کیا ہو گا؟ غالبؔ نے شکوہ کیا تھا:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
تو یہ شکوہ بھی دور ہو چکا۔ یہ جو ہیکر ہے‘ ایک یا ایک سے زیادہ‘ تو یہ آدمی ہی تو ہیں! مسئلہ یہ نہیں کہ لکھنے والا یا ریکارڈ کرنے والا آدمی ہے یا فرشتہ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ ریکارڈ کیا جا رہا ہے‘ وہ کیا ہے ؟؟