شام تھی۔ کھڑکی کے باہر املی اور لیچی کے پیڑ تیز ہوا میں جھوم رہے تھے۔ ان کے ناچتے پتوں کا عکس کھڑکی کے شیشوں پر پڑ رہا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری 24گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ میں اور میرا بنگالی دوست‘ جو ایم اے اکنامکس کی کلاس میں میرے ساتھ تھا‘ لائبریری میں بیٹھے پڑھ رہے تھے اورNotesبنا رہے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم نے ساری رات بیٹھنا ہے۔ کئی گھنٹے گزر گئے تو وہ کہنے لگا چلو‘ چائے پی آئیں! ہم اٹھے اور انٹرنیشنل ہوسٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے آرٹس بلڈنگ کی بغل میں واقع مادھو کی کینٹین میں جا بیٹھے۔ یہ وہی کینٹین ہے جس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جس نے مادھو کی کینٹین سے اتنی پیالیاں چائے کی نہیں پیں اور اتنے سموسے نہیں کھائے‘ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں ہو سکتا۔
1921ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو نوجوان مادھو نے اپنے باپ کے ساتھ یونیورسٹی میں اشیائے خورو نوش بیچنا شروع کیں۔ وقت کے ساتھ مادھو کی کینٹین یونیورسٹی کی ثقافتی زندگی کا جُزوِ لا ینفک ہو گئی۔ 26مارچ 1971ء کی صبح کو مادھو‘ اس کی بیوی‘ بیٹے اور بہو‘ سب کو مار دیا گیا۔
ہم نے چائے منگوائی اور ایک ایک سموسہ! بات‘ اکنامکس ڈپارٹمنٹ اور آنے والے امتحان سے ہوتے ہوئے اُس انتقالِ اقتدار تک جا پہنچی جو عین اُنہی دنوں پیش آیا تھا۔ صدر ایوب خان نے گیارہ سالہ حکمرانی کے بعد اقتدار یحییٰ خان کو سونپ دیا تھا۔ میرا بنگالی دوست مجھ سے صرف ایک سوال کا جواب چاہتا تھا کہ گیارہ سال کے بعد ایک اور جرنیل آگیا ہے تو اس حساب سے حکمرانی کسی بنگالی کو کب ملے گی؟ آپ کا کیا خیال ہے میرے پاس اس سوال کا جواب موجود تھا؟
گیارہ سال اقتدار ایک جرنیل کے ہاتھ میں رہا۔ اس سے دوسرے کو منتقل ہو گیا۔ اس دوسرے کی حکومت کے دوران خون کے دریا بہے۔ ایک تیسرے نے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں اپنا ریوالور بھارتی جرنیل کے حوالے کیا۔ اور اب اکاون سال بعد یہ خبر دی جا رہی ہے کہ یہ شکست فوجی نہیں تھی‘ سیاسی تھی!
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے!
اگر یہ شکست سیاسی تھی تو پھر بلی انڈے دیتی ہے۔ ہتھیلی پر بال اُگتے ہیں۔ گنا درختوں پر لگتا ہے۔ کھجور گاجر کی طرح زمین کے اندر سے نکالی جاتی ہے۔ اگر یہ شکست سیاسی تھی تو پھر قائداعظم نے یہ جو پاکستان حاصل کیا تھا‘ یہ فوجی فتح تھی! اوّل تو الوداعی تقریر میں یہ بات کہنے کا کوئی موقع محل نہ تھا‘ پھر کوئی دلیل بھی تو اس افسوسناک اور حیران کُن بیان کے حق میں دی جاتی!
اکاون سال گزر گئے ہیں! نصف صدی اور ایک سال اوپر! اس سارے عرصے میں ہم اس سانحہ سے سبق نہ سیکھ سکے۔ کوئی بنگالیوں پر غداری کا الزام عائد کرتا ہے۔ کوئی سارا الزام کسی تیسرے ملک پر لگاتا ہے۔ کوئی آسمان سے خبر لاتا ہے کہ یہ بنگالی تو ہندوؤں کے زیر اثر تھے۔ سب کی کوئی نہ کوئی غلطی تھی۔ بس ہماری کوئی غلطی نہ تھی۔ ہم یہ ماننے کے لیے آج بھی تیار نہیں کہ زبان کے معاملے میں ہم سے غلطی ہوئی۔ ہم میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہیں کہ بنگالی اردو سے زیادہ پرانی اور زیادہ وسیع زبان تھی۔ نہ جانے کب سے ذریعۂ تعلیم تھی! جب مسلمان سلاطین بنگال پر حکمرانی کر رہے تھے تو ان کے دربار کی زبان یہی تھی۔ ہم نے اسے قومی زبان کا درجہ دیا مگر کب؟ اُس وقت جب نقصان ہو چکا تھا۔ ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ زرِ مبادلہ کمانے میں زیادہ حصہ مشرقی پاکستان کا تھا اور ملتا انہیں کم تھا۔ مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں ان کا حصہ‘ ان کے حق سے کم دیا جا رہا تھا! بہت کم! فوج میں ان کی تعداد برائے نام تھی! ویتنام میں لمبے تڑنگے امریکیوں کی عبرتناک شکست نے ثابت کر دیا تھا کہ اب جنگیں چوڑی چھاتیوں اور طویل قامتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذہانت اور قوتِ ارادی کی بنیاد پر جیتی جاتی ہیں! مگر ہم اپنی ڈگر سے نہیں ہٹے۔ ہم نے ون یونٹ کے پردے میں چھپا کر ان کی واضح اکثریت کو غیر مؤثر کر دیا اور اس طرح پورے مغربی پاکستان کو تختِ لاہور سے باندھ کر ایک تیر سے دو شکار کر لیے۔ پھر ہم نے ان کے ساتھ وہ کچھ کر دیا جس کا کسی جمہوری ملک میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات ہوئے مگر جیتنے والے کو حکومت دینے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ یہ انہونی جب ہوئی تو ملک پر سیاستدانوں کی حکومت نہیں تھی!
اگر دونوں حصے امن و امان کے ساتھ‘ کسی دستوری طریقے سے الگ ہو جاتے تو تاریخ میں یہ علیحدگی دونوں ملکو ں کی سیاسی پختگی کے طور پر یاد رکھی جاتی! عوامی لیگ کے چھ نکات گنجلک کا بہترین حل تھے۔ ملک پر سیاستدانوں کی حکومت ہوتی تو ان نکات پر‘ میز پر بیٹھ کر بات ہوتی! کچھ لو اور کچھ دو کے تحت معاملات طے کیے جاتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ ایک مدت کا تعین ہو جاتا جس کے بعد دونوں حصے امن و آشتی سے الگ ہو جاتے مگر چونکہ اہلِ سیاست کی حکومت نہیں تھی اس لیے معاملات بندوق کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ اپنوں کے ساتھ معاملات بندوق کے ساتھ کبھی طے نہیں ہوتے! عقل والوں کو نوشتۂ دیوار صاف نظر آرہا تھا! نوے ہزار میں وردی پوش کتنے تھے اور سویلین کتنے تھے‘ یہ بحث ہی بیکار ہے! آج نصف صدی کے بعد یہ نکتہ اٹھانا ایک خاص مائنڈ سیٹ کی غمازی تو کرتا ہے‘ سمجھ بوجھ کا اشارہ نہیں دیتا! حضور! جان کی امان ملے تو دست بستہ عرض کریں کہ نوے ہزار‘ سارے کے سارے پاکستانی تھے!
آج بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر‘ اس کی برآمدات‘ اس کا ایکسچینج ریٹ‘ سب کچھ تسلی بخش ہے۔ ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اقتصادی اشاریے عبرت ناک ہیں۔ اس آس پر دن گزرتا ہے کہ شام کو کہیں سے کچھ آجائے! کشکول غیر اعلانیہ قومی نشان کی حیثیت اختیار کر چکا ہے! وہاں سیاسی استحکام ہے۔ ہم سیاسی استحکام سے کوسوں دور ہیں! ہمارا مستقبل غیر واضح ہے۔ حال بدحالی کا مظہر ہے! معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا پر جنگِ عظیم برپا ہے۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں! بجائے اس کے کہ ہم مستقبل کی فکر کریں‘ ماضی کے گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں!
چیست یارانِ طریقت! بعد ازیں تدبیر ما؟ کم از کم اب تو ماضی سے سبق سیکھ لیں! دوسروں کو مطعون کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں! دل بڑا کریں! غلط پالیسیوں کا ادراک کریں اور اعتراف بھی! جن سے معذرت کرنی چاہیے‘ اندر یا باہر‘ جرأت کا مظاہرہ کرکے ان سے معذرت کریں! ایک نیا عمرانی معاہدہ ہماری مشکلات کا حل ہے! ایسا معاہدہ جو ہر سٹیک ہولڈر پر واضح کرے کہ یہ لکیر ہے جس سے باہر تم نے نہیں آنا! اہلِ سیاست ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا بند کریں! مل کر بیٹھیں! مسائل کو حل کرنے کا راستہ نکالیں! ایک فریق بات چیت پر آمادہ ہو ہی گیا ہے تو دوسرا فریق بدلہ لینے کے بجائے ذہنی پختگی کا مظاہرہ کرے! سنگین مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل سخت بے یقینی کا شکار ہے! اقبال نے کہا تھا: غلامی سے بَتر ہے بے یقینی! اس بے یقینی سے اسے نکالنے کی ذمہ داری اہلِ سیاست پر ہے! اب بھی اگر انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف باہر سے مدد مانگی تو انہیں عبرتناک انجام سے کوئی نہیں بچا پائے گا!