بی بی جان کی طبیعت بہت خراب تھی۔
بچے کی ولادت کا دن قریب آرہا تھا۔ بی بی جان‘ آنکھیں موندے‘ بستر پر پڑی رہتیں! بھوک غائب تھی۔ روٹی تو روٹی‘ پھل بھی نہ کھا سکتیں! مولوی صاحب قصبے کے واحد طبیب کے پاس گئے۔ بیوی کی کیفیت بتائی۔ طبیب نے ایک دو شربت تجویز کیے اور کچھ گولیاں اور کچھ جڑی بوٹیاں دیں مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ مولوی صاحب سارے قصبے والوں کا علاج اپنی دعا سے کرتے تھے۔ اپنی اہلیہ کے لیے بھی دعا کی۔ چینی کی پلیٹ پر زعفران سے آیاتِ شفا لکھ کر کئی بار پلائیں! بڑے مولانا صاحب سے بھی‘ جو مولوی صاحب کے استاد تھے‘ دعا کرائی مگر حالت ویسی کی ویسی رہی۔
سیانے لوگوں نے مشورہ دیا کہ مریضہ کو دارالحکومت لے جائیے۔ وہاں بڑے بڑے ہسپتال ہیں۔ ہسپتالوں میں جدید آلات ہیں۔ بڑے بڑے ڈاکٹر ہیں۔ فارمیسی کی دکانیں ہیں جہاں ہر مرض کی ادویات دستیاب ہیں۔ مولوی صاحب کے ایک عزیز ذرا ہوشیار اور کھڑپینچ قسم کے واقع ہوئے تھے۔ یوں بھی مشورہ مفت دینے والے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ جاتے ہی ای سی جی کرا لیجیے گا۔ خدانخواستہ دل کا معاملہ نہ ہو۔ ایسا ہوا تو بچے کی زندگی خطرے میں ہوگی۔ مولوی صاحب بی بی جان کو لے کر دارالحکومت آ گئے۔ ہسپتال پہنچ کر بتایا کہ اہلیہ کی ای سی جی کرانی ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ سامنے دائیں طرف ای سی جی روم ہے۔ وہاں جائیے اور مریضہ کو بستر پر لٹائیے۔ مولوی صاحب نے بی بی جان کو ای سی جی روم میں بستر پر لٹایا اور دروازے پر کھڑے ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک صاحب آئے۔ ان کے گلے میں ہسپتال کا شناختی کارڈ لٹک رہا تھا۔ وہ اندر جانے لگے تو مولوی صاحب نے روکا اور بتایا اندر ایک خاتون ہیں۔ ان صاحب نے کہا کہ خاتون کی ای سی جی کرنے ہی وہ آئے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا بھئی! وہ پردہ دار خاتون ہیں! ایک مرد اُن کی ای سی جی کیسے کر سکتا ہے؟ کسی خاتون ٹیکنیشن کو بھیجئے۔ وہ صاحب واپس چلے گئے۔ مولوی صاحب بہت دیر انتظار کرتے رہے۔ کوئی نہ آیا۔ آخر کار وہ ہسپتال کی انتظامیہ کے پاس گئے اور مطالبہ کیا کہ خاتون ٹیکنیشن جلد از جلد ان کی اہلیہ کی ای سی جی کرے۔ انہیں بتایا گیا کہ خاتون ٹیکنیشن میسر نہیں۔ پھر کسی نے رہنمائی کی کہ پہلے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ یہ ڈاکٹر یعنی ماہرِ امراضِ نسواں (Gynecologist) کا کام ہے کہ ای سی جی کرائے یا کوئی اور ٹیسٹ! مولوی صاحب نے کابل کے سارے ہسپتال چھان مارے‘ ایک ایک آدمی سے پوچھا‘ پورے شہر میں کوئی خاتون ڈاکٹر تھی نہ خاتون ٹیکنیشن! دوسری طرف مولوی صاحب کا موقف یہ تھا کہ ای سی جی کے لیے اور بچے کی ولادت کے موقع پر مرد ڈاکٹر سے استفادہ تو بہت بڑی بات ہے‘ وہ تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی اہلیہ کو یا ان کے خانوادے کی کسی خاتون کو کوئی مرد انجکشن بھی لگائے۔
بی بی جان کی طبیعت زیادہ خراب ہو رہی تھی۔ خاتون ڈاکٹر کی تلاش جاری رہی۔ ہرات سے لے کر بدخشاں تک اور مزار شریف سے لے کر قندھار تک ہر جگہ فون کھڑکائے گئے۔ گلی گلی چھان ماری گئی۔ افسوس! کسی خاتون ڈاکٹر کا‘ کسی خاتون نرس کا‘ کسی خاتون ٹیکنیشن کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اب بی بی جان نیم بے ہوش تھیں۔ بیٹی نے رو کر باپ سے کہا کہ ڈاکٹر مرد ہے تو کیا ہوا‘ جان بچانا زیادہ ضروری ہے۔ مولوی صاحب نے بیٹی کو ایک سرد اور عجیب لہجے میں جواب دیا کہ ابھی تو یہ بات کر لی ہے‘ اس کے بعد ایسا سوچنا بھی مت۔ بیٹی نے باپ کی آنکھوں میں اُس سمے موت جیسی سفاکی کو واضح طور پر دیکھا۔
پھر انہیں بتایا گیا کہ خاتون ڈاکٹر دو ہی صورتوں میں مل سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ کابل سے شمال کو جائیں۔ دریائے آمو کو پار کریں۔ ساتھ ہی اُزبک شہر ترمذ ہے۔ وہاں کسی بھی کلینک میں چلے جائیں‘ خواتین ڈاکٹر بھی موجود ہیں‘ نرسیں بھی اور پیرا میڈکس بھی! دوسری صورت یہ ہے کہ کابل سے جلال آباد جائیں‘ وہاں سے پشاور کا سفر کریں۔ پشاور کے کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں‘ خاتون ڈاکٹر آپ کی اہلیہ کا علاج کرے گی۔ مولوی صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ آمو کو پار کرکے ترمذ جانا تو بہت لمبا پڑے گا۔ ادھر بی بی جان کی طبیعت خراب سے خراب تر ہو رہی تھی۔ علاج میں مزید تاخیر مہلک ہو گی۔ بیٹی کو ساتھ لیا اور جلال آباد کی طرف چل پڑے۔ بی بی جان اب نیم بے ہوش نہیں تھیں بلکہ مکمل بے ہوش تھیں۔ بیٹی روئے جا رہی تھی! جلال آباد تک سڑک کا برا حال تھا۔ گاڑی ایک خاص حد سے زیادہ تیز نہیں چلائی جا سکتی تھی۔ جلال آباد رُکے بغیر یہ بد قسمت قافلہ پاکستان کی طرف روانہ ہوا مگر افسوس! ابھی بارڈر 20میل دور تھا کہ موت کا فرشتہ آگیا۔ بی بی جان نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور جان پیدا کرنے والے کے سپرد کر دی!
مولوی صاحب رو رہے تھے مگر حیران کن بات یہ ہوئی کہ بیٹی کی آنکھ میں آنسو نہیں تھے‘ آگ کے شعلے تھے۔ اس کی آواز میں ملائمت تھی نہ خوف! وہ اپنے باپ سے وہ سب کچھ کہہ رہی تھی جو افغانستان کی ہر بیٹی کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں سکتی کہ ''ابا! آپ رو کیوں رہے ہیں؟ آپ ہی تو بی بی جان کے قاتل ہیں! آپ نے اور آپ کے ہم نواؤں نے لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کیے۔ آپ کے پیرو کاروں نے لڑکیوں کے سکول نذرِ آتش کیے۔ یونیورسٹی تو دور کی بات ہے‘ ہائی سکول تک کی تعلیم بھی حرام قرار دی! آپ کو ان لڑکیوں کی چیخیں نہ سنائی دیں جنہوں نے یونیورسٹیوں کے بند دروازوں کے سامنے ماتم کیا۔ آپ نے لڑکیوں کو ٹیکنیشن‘ نرس‘ ڈاکٹر‘ پروفیسر اور سائنسدان بننے سے روک دیا۔ ستم یہ ہے کہ یہ سب آپ نے اُس مذہب کے نام پر کیا جس نے علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر کا فرض قرار دیا ہے۔ آپ نے اپنے رسم ورواج کو مذہب کا لباس پہنایا اور خلقِ خدا کو بلیک میل کیا۔ آپ نے عورت سے وہ بنیادی حقوق بھی چھین لیے جو بطور انسان اسے حاصل تھے۔ آپ نے انہیں گھروں میں قید کر دیا۔ آپ لوگوں کے نزدیک عورت محض ایک مویشی ہے جسے گھر میں باندھ کر رکھنا چاہیے! مگر دوسری طرف آپ لوگوں کی اس منافقت کا کیا کہنا کہ اپنی عورتوں کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹر اور مرد ٹیکنیشن منظور نہیں بلکہ خواتین ڈاکٹر اور خواتین ٹیکنیشن درکار ہیں۔ آپ لوگوں کے بند دماغوں میں یہ معمولی سی بات نہ آسکی کہ تعلیم حاصل کیے بغیر کوئی عورت ڈاکٹر نہیں بن سکتی‘ نہ ٹیکا لگا سکتی ہے‘ نہ ای سی جی کر سکتی ہے‘ نہ خون ٹیسٹ کر سکتی ہے‘ نہ ایکس رے کر سکتی ہے‘ نہ الٹرا ساؤنڈ کر سکتی ہے اور نہ سی ٹی سکین کر سکتی ہے۔ آپ اپنی مریض عورتوں کے قاتل ہیں۔ آپ کا نام نہاد علم آپ کو یہ نہیں بتا سکا کہ جب عالمِ اسلام کی پہلی نرس اور پہلی سرجن رُفَیدہ بنت سعد الاسلمیہؓ نے جنگ احد‘ جنگ خیبر اور دوسری جنگوں میں آقاﷺ کی اجازت سے شامل ہو کر زخمیوں کا علاج کیا تو یہ زخمی عورتیں نہیں‘ زخمی مرد تھے۔ اب آپ لوگوں کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ اپنی عورتوں کو مرنے دیجیے یا ان کا علاج مردوں سے کرائیے۔