کاش ! عمران خان اپوزیشن کو کرش کرنے کے بجائے‘ اور ریموٹ کنٹرول سے پنجاب چلانے کے بجائے‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد‘ خاموشی سے جنوبی کوریا کا دورہ کرتے اور وہ کام کرتے جو مہاتیر نے جاپان جا کر کیا تھا!
مہاتیر نے کیا کیا تھا ؟ اس نے اسّی کی دہائی کے آغاز میں حکومت سنبھالی اور ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کا نام تھا '' مشرق کی طرف دیکھو‘‘(Look East policy )اس کا مطلب تھا برطانیہ اور امریکہ کے بجائے جاپان پر توجہ دی جائے۔ مہاتیر نے جاپانی حکومت سے اور جاپان کے نجی شعبے سے معاہدے کیے اور جاپانیوں سے کہا کہ آؤ ملائیشیا میں کارخانے لگاؤ! ملائیشیا تمہیں زمین بھی دے گا‘ تمہاری حفاظت بھی کرے گا‘ ٹیکس میں بھی رعایت کرے گا۔ ظاہر ہے لیبر ملائیشیا میں جاپان کی نسبت سستی تھی! چنانچہ بڑی بڑی جاپانی کمپنیاں ‘ جیسے ہٹاچی‘ سونی‘ اس پیشکش پر جھپٹ پڑیں۔ انہوں نے ملائیشیا میں کار خانے لگائے۔ ریفریجریٹر سے لے کر ٹی وی اور ایئر کنڈیشنر تک‘ مصنوعات ملائیشیا میں بننے لگیں۔ ملائیشیا کے بھاگ جاگ اُٹھے۔ دیکھتے دیکھتے ملائیشیا صنعتی ملک بن گیا۔ اس سے پہلے ملائیشیا کیا برآمد کرتا تھا؟ صرف خام مال ! یعنی ربڑ اور ٹین! اب وہ الیکٹرانک اور الیکٹرک مصنوعات برآمد کرنے لگا۔ یہ ہوتا ہے وژن ! دور اندیشی! آپ اور ہم سب جب بھی ٹی وی یا اے سی خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار بتاتا ہے کہ یہ کوریا کا بنا ہوا ہے‘ یہ جاپان کا اور یہ ملائیشیاکا۔ ملائیشیا کا بنا ہوا ٹی وی نسبتاً کم داموں میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ملائیشیا میں بنے ہوئے ٹی وی اور اے سی کی کوالٹی کمتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ملائیشیا میں لیبر سستی ہونے کی وجہ سے لاگت کم آتی ہے۔
چالیس سال تک جاپانی کمپنیاں ملائیشیا میں الیکٹرانک اور الیکٹرک مصنوعات بناتی رہیں اور بر آمد کرتی رہیں۔ ملائیشیا کی ٹوٹل برآمدات کا چالیس فیصد حصہ انہی پر مشتمل تھا۔چالیس سال کے بعد2020ء میں ان کمپنیوں نے انگڑائی لی اور ملائیشیا میں صنعت کے نئے دروازے کھولے۔ چار نئے صنعتی شعبے‘ جو جاپان اب ملائیشیا میں شروع کر چکا ہے‘ ملائیشیا کو مزید بھاگ لگا دیں گے۔ اوّل میڈیکل کی مصنوعات! دل کے آپریشن کے لیے جو آلات درکار ہیں‘ ان کے کارخانے لگائے جا رہے ہیں۔ دیگر آلات بھی بنائے جائیں گے۔ ملائیشیا انہیں پوری دنیا میں فروخت کرے گا۔ دوم، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی۔ سوم، حلال انڈسٹری۔ جاپانیوں کو معلوم ہے کہ ملائیشیا چونکہ مسلمان ملک ہے‘ اس لیے ملائیشیا کا حلال سرٹیفکیٹ پورے مشرق وسطیٰ میں تسلیم کیا جائے گا؛ چنانچہ وہ فوڈ انڈسٹری یہاں قائم کر رہے ہیں۔یہیں سے خوراک برآمد کریں گے۔ چہارم، جاپان کی بڑی بڑی کمپنیاں ہوائی جہاز بنانے کے کارخانے ملائیشیا میں لگا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے جب دنیا بھر میں ملازمین کو نکالا جا رہا تھا‘ ملائیشیا میں کام کرتی ہوئی جاپانی کمپنیوں نے اپنا کوئی ملازم برخاست نہیں کیا۔ ساڑھے تین لاکھ ملا ئیشین ان کمپنیوں میں ملازمت کر رہے ہیں! پندرہ سو جاپانی کمپنیاں ملائیشیا میں کام کر رہی ہیں ! ان میں سے ہر کمپنی قوی ہیکل اور عظیم الجثہ ہے۔ ملائیشیا کو ان کمپنیوں کی برآمدات سے ہر سال اربوں ڈالر کا جو فائدہ ہو رہا ہے ‘ وہ تو الگ معاملہ ہے! صرف اس بات پر غور کیجیے کہ ساڑھے تین لاکھ خاندان ان کمپنیوں پر پل رہے ہیں اور باعزت ‘ بلند معیار کی زندگی جی رہے ہیں۔
یہ کام ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ ایک دلیل اس کے خلاف جو دی جا سکتی ہے یہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی کا ناسور موجود ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ صنعتی زون سخت حفاظت میں رکھے جائیں۔ اور آبادیوں سے الگ ہوں۔ کوریا ‘ جاپان اور تائیوان کی کمپنیوں کو کارخانے لگانے کی دعوت دی جائے۔ انہیں پُر کشش مراعات دی جائیں اور دل پذیر شرائط طے کی جائیں۔ ٹیکسوں کی چھوٹ دی جائے۔برآمد اور درآمد اِن کے لیے آسان بنائی جائے۔ اگر ہمیں صرف یہ فائدہ ہو کہ تمام لیبر اور انتظامیہ ہماری ہو تو یہ بھی بہت بڑا فائدہ ہے۔ کئی صنعتی زون بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ جو اتنے بڑے بڑے دماغ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں بیٹھے ہیں تو ان خطوط پر کیوں نہیں سوچتے ؟ صنعت کی وزارتوں کا کیا کام ہے ؟ اب تک انہوں نے کیا تیر مارا ہے ؟ کیا روٹین سے ہٹ کر بھی کوئی کام کیا ہے یا کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے ؟ کوئی حکمران ‘ کوئی وزیر‘ کوئی سیکرٹری ‘ ایسا کام بھی کر جائے کہ اس ملک کی تقدیر سنور جائے۔اگر ملائیشیا یہ تدبیر کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟
اس لیے کہ ہمارے پاس حکمران ہیں اور سیاستدان بھی ہیں مگر لیڈر کوئی نہیں ! سیاستدان اور لیڈر میں فرق ہوتا ہے۔ مہاتیر‘ لی کوآن یو ‘ ماؤزے تنگ‘ چواین لائی سیاست دان نہیں تھے‘ لیڈر تھے۔ رہنما تھے۔ قائد اعظم اور نہرو بھی لیڈر تھے۔ نہرو نے سب سے پہلے سٹیل کی صنعت پر توجہ دی۔ قائداعظم پاکستان بننے کے ایک سال بعد رخصت ہو گئے۔ زندہ رہتے تو بہت کچھ کرتے۔ گزشتہ سال شائع ہونے والی اپنی نئی کتاب '' لیڈرشپ‘‘ میں‘ ہنری کسنجر نے چھ لیڈروں کے حالات لکھے ہیں۔ جرمنی کا کونرڈ ایڈی نار ‘ فرانس کا ڈیگال‘ امریکہ کا رچرڈ نکسن ‘ مصر کا انور سادات‘ سنگاپور کا لی کوآن یو اور برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر!! ظاہر ہے کسنجر نے اپنے پسندیدہ لیڈروں ہی کا ذکر کرنا تھا۔ مہاتیر کا ذکر نہ کر کے اس نے اپنی کتاب کو ‘ ایک لحاظ سے ‘ نامکمل رہنے دیا۔ تاہم یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ لیڈر کون ہوتا ہے اور بلند وژن کس طرح قوموں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے!
صوفی تبسم نے بچوں کے لیے نظم لکھی تھی۔ منے کی ماں نے ‘انڈا ابالا‘ ہنڈیا میں ڈالا ‘دومنٹ گزرے‘ ڈھکنا اٹھایا ‘ انڈا نہ پایا ‘ چمچہ تھا ٹیڑھا ‘ اوندھی تھی تھالی‘ ہنڈیا تھی خالی ‘قسمت تھی کھوٹی‘ ر وکھی تھی روٹی۔ ہماری قسمت ‘ منے کی ماں کی قسمت کی طرح ‘ ہمیشہ کھوٹی ثابت ہوئی۔ بھٹو صاحب میں یہ صلاحیت تھی کہ اگر چاہتے تو زرعی اصلاحات نافذ کر کے جاگیرداری اور سرداری کی نحوست سے نجات دلا سکتے تھے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے لیڈر رہنے کے بجائے ایک جابر جاگیردار کا رویہ اپنا لیا اور دار و گیر کا اور پکڑ دھکڑ کا افسوسناک سلسلہ شروع کر دیا۔ عمران خان بہت کچھ کر سکتے تھے۔ مگر ضعیف الاعتقادی ‘ منتقم مزاجی اور کوتاہ اندیشی نے انہیں کچھ نہ کرنے دیا! حسینہ واجد بنگلہ دیش کو‘ غور کیجیے ‘ کہاں لے جا رہی ہے! پلاننگ اور اقتصادی ترقی کے ایک ایک اجلاس کی صدارت خود کرتی ہے اور ایک ایک میٹنگ میں سات سات گھنٹے مسلسل بیٹھتی ہے۔ دریائے پدما پر عظیم الشان ‘ اور بہت مشکل ‘ پُل بننے سے بائیس جنوبی اضلاع کی قسمت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کے بننے سے اگلے پانچ سال میں دس لاکھ نئے کاروبار کھلیں گے۔ دس سال بعد یہ تعداد تین گنا بڑھ جائے گی۔ایک دہائی کے اندر اندر ‘ اس پُل کی وجہ سے پانچ سو نئی فیکٹریاں لگیں گی۔ڈھاکہ شہرکے اندر میٹرو ٹرین ‘ الگ ‘ زیر تعمیر ہے۔ ان کے علاوہ کئی منصوبوں پر رات دن کام ہو رہا ہے۔ رہے ہم! تو ہماری قسمت ‘ تا حال ‘ کھوٹی ہی ہے !! ہمارا چمچہ ہمیشہ ٹیڑھا ہی رہا۔ ہماری تھالی ہمیشہ اوندھی ہی رہی ! ہماری ہنڈیا ہمیشہ خالی ہی رہی۔ جس سوار نے غیب سے آنا ہے ‘ ابھی تک اس کے آنے کے آثار ناپید ہیں ! لمیاں اُڈیکاں!