کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل ایوب خان کے پوتے جناب عمر ایوب خان‘ جنرل ضیا الحق کے فرزند جناب اعجاز الحق ‘ جنرل اختر عبد الرحمان کے فرزند جناب ہمایوں اختر خان ‘ جنرل پرویز مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرانے والے چوہدری پرویز الٰہی اور جنرل پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں ان کی توصیف میں ہمہ وقت رطب اللسان رہنے والے شیخ رشید احمد‘ سب عمران خان کے دائرۂ اطاعت میں آچکے! یہ ان کا حق ہے۔ ہر شہری اپنی مرضی کی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے۔ اس اکٹھ کے اسباب و علل پر تو سیاسی حرکیات کے ماہرین ہی روشنی ڈالیں گے۔ ہم ‘بہر طور‘ ایک عامی کی حیثیت سے اپنا خیال ظاہر کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف میں جناب اعجاز الحق کی انٹری ‘ دوسرے حضرات کی نسبت‘ نمایاں تر نظر آتی ہے۔ عمر ایوب خان اور ہمایوں اختر صاحبان نے اپنی الگ کوئی پارٹی نہیں بنائی۔ اس کے بر عکس اعجازالحق نے اپنی پارٹی بنائی۔ وہ اس عزم کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ ضیا الحق کے مشن کو مکمل کریں گے۔ ضیا الحق کا مشن کیا تھا؟ اپنے دس سالہ دورِ حکومت میں جنرل صاحب نے اس مشن کا کتنا حصہ مکمل کیا؟ کتنا رہتا ہے؟ جو رہتا ہے اس کی تفصیل یا بریک اَپ کیا ہے؟ تحریک انصاف میں ان کی شمولیت ‘ اس حوالے سے‘ کتنی ممد ثابت ہو گی اور کس طرح ممد ثابت ہو گی؟ ان سوالوں کے جواب کم از کم ہمیں نہیں معلوم !
جنرل ضیا الحق مرحوم کی شخصیت‘ تاریخ کی کچھ اور معروف شخصیات کی طرح‘ بہت زیادہ متنازع ہے۔ان کے طرفدار انہیں اسلام کا بطلِ جلیل مانتے ہیں۔ وہ نہ صرف افغانستان میں روسی افواج کی شکست کا سہرا جنرل صاحب کے سر باندھتے ہیں بلکہ سوویت یونین کے انہدام کا کریڈٹ بھی انہی کو دیتے ہیں! ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ملک کو اسلام کے راستے پر ڈالا۔ انڈیا کے حوالے سے ان کی '' کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ بھی قابلِ تعریف تھی! ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں! مخالفین جو چارج شیٹ جاری کرتے ہیں‘ خاصی طویل ہے۔یہ چارج شیٹ منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹنے سے اور اسے پھانسی دینے سے شروع ہوتی ہے۔ نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کے عہد سے انہوں نے برملا بے وفائی کی۔ افغان مجاہدین کی مدد کرنے تک تو معاملہ ٹھیک تھا مگر جنرل صاحب اس حد تک چلے گئے کہ اپنے ملک کو اور اپنے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ ملک کی سرحد کی بے حرمتی ہوئی۔ پاکستانی ویزا گویا صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ پوری دنیا کے جنگجو اسلحہ اور خاندانوں سمیت پاکستان میں آگئے۔ جنرل صاحب کی حکومت نے انہیں خوش آمدید کہا اور مقیم کیا۔ افغان مہاجرین ایران بھی گئے۔ ایران نے انہیں غیر ملکی ہی سمجھا۔ انہیں کیمپوں تک محدود رکھا۔ مگر جو افغان مہاجر پاکستان آئے ‘ جنرل ضیا الحق کی حکومت نے انہیں پاکستانیوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ یہ مہاجر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ انہوں نے تجارت‘ ٹرانسپورٹ‘ مزدوری‘ غرض ہر شے پر قبضہ کر کے ملک کے اصل باشندوں کو ان سرگرمیوں سے نکال باہر کیا۔ یہ مہاجر آج بھی پاکستان میں ہیں اور طرح طرح کے مسائل پیدا کر تے رہتے ہیں۔ ان کئی نسلیں یہیں پیدا ہو کر یہیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ لاکھوں نے ناروا طریقوں سے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر لیے ہیں۔ یہ جنرل صاحب کی ایسی غلط بخشی تھی جس کا تاوان آج بھی پاکستان ادا کر رہا ہے۔ معاملہ یہیں تک نہ رُکا۔ ان غیر ملکیوں کی وساطت سے پورے ملک میں اسلحہ کی ریل پیل ہو گئی۔ راکٹ تک بازاروں میں بکے۔ منشیات کی نحوست آگ کی طرح پھیلی اور پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔
جنرل ضیا الحق نے مذہب کی جو صورت( version)ملک میں رائج کی اس کے ڈانڈے تنگ نظری سے ملتے تھے۔ انہوں نے ٹی وی پر خبریں پڑھنے والی خواتین کے سر تو ڈھانپ دیے مگر خود وعدہ شکنی کی انتہا کر دی۔ آج جو رمضان کے دوران کسی مسافر کو‘ کسی مریض کو ‘ کسی بوڑھے کو دن کے وقت چائے کا ایک گھونٹ یا روٹی کا ایک نوالہ تک نہیں ملتا ‘ یہ سلسلہ جنرل صاحب کی حکومت سے پہلے نہیں تھا۔ شاید دنیا کے کسی مسلمان ملک میں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے مشائخ اور علما کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کر کے مذہبی حلقوں میں بے پناہ اثر و رسوخ حاصل کیا۔ سرکاری خرچ پر حکومتی عمائدین اور دیگر امرا کے عمروں کا رواج بھی انہی کے دور میں پڑا۔مالی ڈسپلن کو تہِ تیغ کر دیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے بادشاہی کا دور تھا۔ قانون وہی تھا جو ان کی زبان سے نکلتا۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے ایک واقعہ لکھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عملاً بادشاہ تھے۔ترکی کے دورے کے دوران ‘ ترکی کے صدر نے ان کا تعارف ایک ایسے فنکار ‘ یا کھلاڑی سے کرایا جسے ترکی کے صدر علاج کے لیے امریکہ بھیجنا چاہتے تھے لیکن ترکی کی وزارتِ خزانہ اجازت نہیں دے رہی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے وہیں حکم دے دیا کہ اس کا علاج حکومت پاکستان کے خرچ پر کرا یا جائے۔ایسی غلط بخشیاں میاں نواز شریف کے دور میں بھی جاری و ساری رہیں۔ کئی ایسے افراد کو میاں صاحب نے سفیر تعینات کیا جو اہل نہیں تھے۔
اس ساری چارج شیٹ کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنرل ضیا الحق ذاتی زندگی میں صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔منکسر المزاج تھے۔ روایت ہے کہ ملاقاتیوں کو رخصت کرنے باہر آتے تھے اور ان کے لیے گاڑی کا دروازہ خود کھولتے تھے۔ مذہبی شعائر کا احترام کرتے تھے۔ اس حوالے سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جناب اعجاز الحق کی پرورش اور تربیت ایک کٹر مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ وہ خود بھی صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں اور شعائرِ اسلام کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں کبھی کوئی سکینڈل سننے میں نہیں آیا۔ ان کے والدِ گرامی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوئے یا کسی کو انہوں نے یہ کہا کہ یہ وقت عمرے پر جانے کا نہیں تھا۔جنرل ضیا الحق کے طرزِ زندگی اور عمران خان کے طرزِ زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جو حکایتیں ‘ یا حقیقتیں عمران خان صاحب سے منسوب ہیں ‘ان کا جنرل صاحب کے حوالے سے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔عمران خان صاحب کو جب جنرل باجوہ نے پلے بوائے ہونے کا طعنہ دیا تو عمران خان نے جواب میں کہا کہ وہ پلے بوائے تھے۔ تو پھر ‘ قدرتی طور پر‘ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اعجاز الحق ‘ عمران خان سے کیوں آملے ہیں ؟ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والدِ محترم سے نفاذِ اسلام میں جو کمی رہ گئی تھی‘ وہ عمران خان پوری کریں گے! اگر وہ واقعی ایسا سمجھتے ہیں تو ہنسنے یا انگشت بدنداں ہونے کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے! اخبار میں چھپی ہوئی خبر کے مطابق جناب اعجاز الحق نے تحریک انصاف میں شامل ہوتے وقت کہا ہے کہ '' عمران خان امتِ مسلمہ کے قابل اعتماد قائد ہیں‘‘۔ کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ کس کس مسلمان ملک کے باشندوں نے عمران خان پر امتِ مسلمہ کے قائد کے طور پر اعتماد کا اظہار کیا ہے؟ کیا کوئی ایسا سروے ہوا ہے یا مسلم دنیا میں ریفرنڈم ہوا ہے ؟ ہم تو یہی عرض کر سکتے ہیں کہ:
ببین کہ از کہ بریدی و باکہ پیوستی؟
کہ حضور! کس درخت سے کٹ کر پیوند کاری کس درخت سے کر لی !!