27 سالہ نور مقدم 20جولائی 2021ء کو اسلام آباد کے ایک مہنگے سیکٹر کے مہنگے گھر میں قتل ہوئی۔ ظاہر جعفر نامی شخص کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ طویل اور صبر آزما مراحل کے بعد 24فروری 2022ء کو اسلام آباد سیشن کورٹ نے مجرم کو سزائے موت سنائی۔ یعنی قتل کے آٹھ ماہ کے بعد! مجرم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سزا کو چیلنج کر دیا۔ ایک برس اور ایک مہینہ مزید گزر گیا۔ گزشہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا جس میں سیشن کورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کو بر قرار رکھا گیا ہے۔
ایک ہفتہ پہلے مجرم نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے اور مختلف دلائل کی بنیاد پر اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ دلائل کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ نظام کیسا ہے جس میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے مظلوم کبھی قبر میں جا لیٹتے ہیں‘ کبھی زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ قابلِ احترام عدلیہ سیاسی تنازعوں کو فوقیت دے رہی ہے۔ عوام کے کتنے مقدمے نگاہِ عدل کے منتظر ہیں اور کب سے منتظر ہیں؟ کتنے ملزم‘ جن کو ابھی مجرم ثابت نہیں کیا گیا‘ زندانوں میں محبوس ہیں؟ ان کے لواحقین کن حالات سے گزر رہے ہیں؟ کتنوں کے ان مقدموں کے تعاقب میں گھر بار‘ کھیت کھلیان‘ مویشی بِک گئے؟ کتنے لواحقین کچہریوں اور عدالتوں کے طواف کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کسی کے پاس نہیں! پوچھنے کی ہمت اور اجازت بھی نہیں! کہ بقول سعدی:
اگر یک سرِ موئی برتر پرم
فروغ ِ تجلی بسوزد پرم!
بال برابر بھی آگے بڑھے تو پر جل جائیں گے!
نور مقدم اور ظاہر جعفر کا یہ مقدمہ آناً فاناً ملک بھر میں مشہور ہو گیا۔ اس لیے کہ دونوں خاندان اَپر کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ورنہ اس دیار میں عورتیں ہر روز قتل ہوتی ہیں۔ کبھی کلہاڑی سے‘ کبھی بندوق کی گولی سے‘ کبھی وحشیانہ زدو کوب سے‘ کبھی کسی جاگیردار کے عقوبت خانے میں اور کبھی کسی سردار کی نجی جیل میں! نور مقدم کا سر تن سے الگ کر دیا گیا۔ یہ سلوک بھی اکثر عورتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تیزاب سے ان کے چہرے مسخ ہو رہے ہیں! یاد رہے کہ عورتوں پر جسمانی تشدد سب سے کم مڈل کلاس میں کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ طبقۂ زیریں اور اَپر کلاس میں! جاگیر دار‘ زمیندار اور سردار بیوی کو باندی بنا کر رکھتے ہیں!
اَپر کلاس سے تعلق رکھنے والے قاتل اس ملک میں کبھی سزا نہیں پاتے۔ شاہ رُخ جتوئی کا کیس دیکھ لیجیے۔ زین کا کیس مشہور ہے۔ ایک جاگیردار کے لختِ جگر نے اسے لاہور میں مار ڈالا۔ کوئٹہ میں جو ٹریفک کانسٹیبل چوک پر کھڑا تھا‘ اسے ایک سردار نے گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ کسی کو سزا نہیں ملی ؟ کیوں؟ وجوہ بیان کرتے ہوئے پر جلتے ہیں! ہونٹ سوئی دھاگے سے سلے ہوئے ہیں! اوپر دیکھیں تو ہماری دستار گر جاتی ہے! یہ چند کیس وہ ہیں جو مشہور ہیں۔ ورنہ بڑے خاندان کے چشم و چراغ انسان نما کیڑوں کو اتنی کثیر تعداد میں قتل کرتے ہیں کہ شمار ممکن نہیں! خاک نشینوں کا خون ہر روز رزقِ خاک ہوتا ہے۔ زمین نے سارا حساب اپنے پیٹ میں رکھا ہوا ہے۔ ایک دن اگل دے گی۔ نور مقدم اگر ایک سابق سفیر کی بیٹی نہ ہوتی تو یہ قتل بھی کیڑے مکوڑوں کے قتل میں گنا جاتا۔ مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ مقتولہ کا خاندان بھی ایلیٹ کلاس میں شمار ہوتا ہے!
مگر ٹھہریے! اس مقدمے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا! ہنوز شب درمیان است!
ہزاروں لغزشیں باقی ہیں لب تک جام آنے میں
عدالتِ عالیہ اس اپیل کا فیصلہ سنانے میں کتنے ہفتے‘ کتنے مہینے‘ کتنے سال لگاتی ہے؟ اس کے بعد کے قانونی تکلفات کتنے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ اس باپ کی حالت کا تصور کیجیے جس کی جوان بیٹی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ دو سال سے وہ انصاف کی راہداریوں میں بھٹک رہا ہے۔ کبھی یہاں دھکے کھاتا ہے‘ کبھی وہاں! اور اس کی تِیرہ بختی دیکھیے کہ ہر بار اسے اس شخص کو دیکھنا پڑتا ہے جس نے اس کی لختِ جگر کو مار کر اس کی لاش کا مثلہ کیا! کیا اس اذیت کو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس سے بڑی کوئی ایذا‘ کوئی تعذیب ممکن ہے؟ اور ابھی تو یہ سلسلہ جاری ہے! بدقسمت باپ کو ابھی یہ اذیت مزید جھیلنی ہے!
سرحد پار طالبان ہیں! جیسے بھی ہیں‘ مظلوم کو انصاف دیتے ہیں! جلد دیتے ہیں۔ اور ایسا انصاف دیتے ہیں جو دکھائی دیتا ہے! کسی کو برُا لگے تو بے شک بُرا لگے مگر خدا کی سنت کسی کے لیے تبدیل نہیں ہوتی! خدا کی سنت یہ ہے کہ جب لوگوں کو انصاف نہ ملے‘ جب شاہ رُخ جتوئی‘ جب سردار‘ جب بڑے خاندان عام لوگوں کو کیڑے سمجھ کر ماریں اور ان کا بال بھی بیکا نہ ہو تو پھر مظلوم دعائیں مانگتے ہیں کہ طالبان آئیں اور انصاف دیں۔ اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے! یہ مشہور شعر معلوم نہیں کس کا ہے مگر ہے بہت ڈرانے والا:
بترس از آہِ مظلومان کہ ہنگامِ دعا کردن
اجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید
ڈرو مظلوموں کی آہ و زاری سے کہ وہ دعا مانگیں تو قبولیت آگے بڑھ کر دعا کا استقبال کرتی ہے!
مرزا فرحت اللہ بیگ اپنے ایک مضمون میں انصاف کے حوالے سے دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں۔ شاید یہ ان کا ایک افسانہ ہے۔ قانون کے امتحان میں قتل کا ایک کیس دے کر پوچھا گیا کہ کیا فیصلہ کرو گے؟ ایک شخص نے کسی کو قتل کر دیا۔ قتل کے دو گواہ موجود ہیں۔ مقتول نے ایک بیوہ اور دو بچے چھوڑے ہیں! مرزا صاحب نے امتحان کے پرچے میں فیصلہ لکھا کہ مقتول کی بیوہ کی شادی قاتل سے کر دی جائے۔ بچوں کو یتیم خانے میں داخل کر دیا جائے۔ رہے دو گواہ تو انہیں جیل میں بند کر دیا جائے! اور پٹیالہ کے جسٹس کھڑک سنگھ نے تو پہلے مقدمے ہی میں کمال کر دیا تھا! اس کی عدالت میں چار قاتل ایک طرف کھڑے تھے۔ دوسری طرف ایک بیوہ آنسو بہاتی کھڑی تھی۔ پیشکار نے فائل سامنے رکھی اور بتایا کہ بڑھیا کا دعویٰ ہے کہ اس کے میاں کو ان چار افراد نے قتل کیا ہے! کھڑک سنگھ نے بڑھیا سے تفصیل پوچھی۔ اس نے بتایا ان چار میں سے فلاں کے ہاتھ میں برچھی تھی‘ فلاں کلہاڑی لیے تھا۔ گنے کے کھیت سے نکلے اور میرے شوہر کو مار ڈالا۔ کھڑک سنگھ نے چاروں ملزموں کو گھور کر دیکھا۔ انہوں نے اپنی صفائی پیش کی کہ ہم اسے مارنا نہیں چاہتے تھے۔ کھڑک سنگھ نے سیدھی بات کی کہ مر تو گیا نا! وہ فیصلہ لکھنے لگا تھا کہ کالا کوٹ پہنے ایک شخص آگے بڑھا اور ملزموں کی صفائی پیش کرنے لگا۔ کھڑک سنگھ نے پیشکار سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ ملزموں کا وکیل ہے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کہا کہ اچھا‘ یہ بھی انہی کا ساتھی ہے۔ اس نے وکیل کو حکم دیا کہ جا کر ملزموں کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ پھر اس نے ایک سطر میں فیصلہ دیا کہ ملزموں کو اور ان کے وکیل کو پھانسی دے دی جائے۔ روایت ہے کہ جب تک وہ جج رہا‘ پٹیالہ ریاست میں قتل کوئی نہیں ہوا!