ٹیلی وژن کی ایک معروف اداکارہ نے دہائی دی ہے کہ اس کی ماں کو تو بخش دیا جاتا! مدر ڈے کے ضمن میں اداکارہ نے سوشل میڈیا پر اپنی ( غالباً مرحومہ) ماں کو سلام و نیاز بھیجا۔اس پر سیاسی اختلاف رکھنے والوں نے اس کی خاک تک اڑا دی اور ناشائستگی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
اس موڑ پر ہم ایک دن یا ایک ہفتے یا ایک سال میں نہیں پہنچے! اس میں سالہا سال لگے۔ سنائیؔ بارہویں صدی کے مشہور شاعر ہو گزرے ہیں۔ غزنی میں پیدا ہوئے۔ بہرام شاہ کا عہدِ حکومت تھا۔اُس وقت افغانستان کو افغانستان نہیں کہتے تھے۔ یہ نام تو احمد شاہ ابدالی نے اٹھارہویں صدی میں رکھا۔سنائی کے اعلیٰ مقام کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ خود رومی نے ان کی تعریف کی۔ کلام ِاقبال سے شناسائی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اقبال جب غزنی میں سنائی کے مزار پر حاضر ہوئے تو سنائی کے تتبع میں انہوں نے وہ مشہور غزل کہی جس کے یہ دو شعر شہرہ ٔآفاق ہیں۔
وہ دانائے سبل‘ مولائے کُل‘ ختم الرسل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ‘ وہی فرقاں‘ وہی یٰسیں وہی طہٰ
اس غزل کے آخری شعر میں علامہ نے سنائی سے اکتساب کرنے کا اعتراف بھی کیا
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
یہ غزل بالِ جبریل میں شامل ہے۔ سنائی کا یہ مختصر تعارف اس لیے پیش کیا ہے کہ بے شمار قارئین فارسی شعرا کے تعارف کا تقاضا کرتے ہیں جو ظاہر ہے مختصر ہی ممکن ہے کہ بقول ظفر اقبال:
فضول طولِ ملاقات پر نہ کر اصرار
کہ چل چلاؤ ہے اور مختصر ہی بہتر ہے
ایک روزنامہ ‘ ادبی جریدہ نہیں ہوتا کہ اس میں ہر روز ‘ یا ہفتے میں دو تین بار ‘ ادب پر قلمکاری کی جائے۔ روزنامہ تو بنیادی طور پر ایک تاریخی دستاویز ہوتی ہے جو ہمعصر صورتحال پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلے زمانے میں بادشاہوں کے مرنے کے بعد یا تخت سے اترنے کے بعد ان کی تاریخ رقم کی جاتی تھی اس لیے کہ ان کی زندگی میں قصیدہ گوئی تو ممکن تھی‘ تاریخ نویسی ممکن نہ تھی۔مؤرخ کا قلم سچ لکھتا تو سر قلم کر دیا جاتا۔اخبار کا بھی بنیادی مقصد حالاتِ حاضرہ پر روشنی ڈالنا ہے۔یہ اور بات کہ دلاور فگار کہہ گئے ہیں:
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
دوسری طرف قاری کی اکتاہٹ بھی بجا ہے۔ اس لیے کہ ہر کالم نگار ایک ہی سیاسی منظر نامے پر لکھ رہا ہوتا ہے۔چنانچہ جب قاری کوئی کالم ادب پر ‘ یا خاندانی زندگی پر‘ یا بچوں پر ‘ یا سیاحت پر لکھا دیکھتا ہے تو تازگی اور تنوع سے محظوظ ہوتا ہے۔ ایڈیٹر صاحبان کی نوازش ہے کہ لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کے لیے اس ''انحراف‘‘( Deviation)میں رکاوٹ نہیں بنتے!
ٹی وی کی اداکارہ نے جو دہائی دی‘ اس کی نوبت ایک دن میں نہیں آئی۔اسی نکتے کی وضاحت کیلئے سنائی سے مدد لینے کی ضرورت پڑی۔ سنائی کی ایک شہرت یافتہ اور تابناک غزل نما نظم ہے۔
روز ہا باید کہ تا یک مُشتِ پشم از پُشتِ میش
زاہدی را خرقہ گردد یا حماری را رسن
کئی دن درکار ہیں۔تب جا کر کسی بھیڑ کی مُٹھی بھر اُون کو درویش کا خرقہ یا گدھے کی رسی بننے کا موقع ملتا ہے۔
ماہ ہا باید کہ تا یک پنبہ دانہ زاب و خاک
شاہدی را حلّہ گردد یا شہیدی را کفن
کئی مہینے درکار ہیں تب جا کر روئی کا بیج ‘آب و خاک کی نشوونما کے بعد ‘معشوق کا لباس بن پاتا ہے یا شہید کا کفن!
سالہا باید کہ تا یک سنگ ِاصلی زآفتاب
لعل گردد در بدخشان یا عقیق اندر یمن
کئی سال درکار ہیں تا کہ پتھر‘ دھوپ میں پڑے پڑے‘بدخشاں کا لعل یا یمن کا عقیق بنے۔
عمر ہا باید کہ تا یک کودکی از روئے طبع
عالمی گردد نِکو یا شاعرِ شیرین سُخن
کئی عمریں خرچ ہوتی ہیں تب جا کر ایک موزوں طبع بچہ عالمِ با عمل بنتا ہے یا خوش کلام شاعر !
دَور ہا باید کہ تا یک مردِ حق پیدا شود
بایزید اندر خراسان یا اویس اندر قرن
کتنے ہی زمانے گزر جانے کے بعد کوئی سچا شخص بایزید خراسانی یا اویس قرنی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
تو اس اداکارہ کو کوئی بتائے کہ ماؤں کو برا بھلا کہنے والی مہذب نسلوں کی نشو و نما کے لیے کئی دہائیاں لگی ہیں۔ پاکستانیوں کا یہ طبقہ تقریباً تیس بہاریں اور تیس خزائیں دیکھنے کے بعد تیار ہوا ہے۔ آج اگر یہ لوگ بات بات پر ماں اور بہن کی گالی دیتے ہیں‘ پتھر اٹھا لیتے ہیں‘ چاقو نکال لیتے ہیں‘ بے سروپا الزام لگا تے ہیں تو اس کے لیے انہیں طویل المیعاد تربیت دی گئی ہے۔
1992ء سے لے کر آج تک کے کالم گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے سالہا سال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے خلاف کالم لکھے اور سخت ترین کالم لکھے یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک وزیر نے ایک ٹی وی چینل سے گلہ کیا کہ اسے ٹاک شو میں بلا لیتے ہیں جب کہ یہ ''ہارڈ لائنر‘‘ ہے۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوران پنجاب حکومت میں حمزہ شہباز کی مداخلت پر کئی سخت کالم لکھے۔ جب نواز شریف کئی ماہ لندن رہے اور ان کی صاحبزادی نے ان کی غیر حاضری میں قضا و قدر کو اپنے ہاتھ میں لیے رکھا تو سخت اعتراض کیا۔ لکھ کر بھی اور پردۂ سیمیں پر بھی! ان کے وابستگان نے شکوے بھی کیے۔ ای میلز بھی کیں مگر تیروں‘ نیزوں‘ بھالوں‘ تلواروں اور سنگینوں کی جو بارش اس کے بعد دیکھی‘ کبھی نہیں دیکھی تھی!عزتوں اور حرمتوں کے پرخچے اُڑتے دیکھے۔ ایسی ایسی دشنام طرازی‘ ایسے ایسے سو فیصد جھوٹے الزامات کہ ہاتھ ‘ غیر ارادی طور پر‘ کانوں کی طرف اُٹھنے لگیں! ان سب حملہ آوروں میں‘ خدا انہیں ہدایت دے‘ایک قدر مشترک ہے۔ وہ یہ کہ اپنے لیڈر سے یہ کوئی سوال نہیں کر سکتے! یہ اس کے کسی فیصلے پر اعتراض نہیں کر سکتے۔کیا کسی نے آج تک ‘ کھڑے ہو کر ‘ یہ پوچھا ہے کہ حضور! بندہ پرور! پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے ساتھ یک جان دو قالب والا معاملہ کیوں کیا؟ ٹی وی پر چند دن پہلے ایک صاحب اس اعتراض کا جواب یہ دے رہے تھے کہ اگر خان صاحب نے پرویز الٰہی کو سب سے بڑا ڈاکو کہہ کر اسے بعد میں جپھی ڈال لی تو آخر شہباز شریف نے بھی تو کہا تھا کہ میں زرداری کا پیٹ پھاڑوں گا اور آج اس کے ساتھ بیٹھے ہیں! بالکل درست مثال دی! شہباز شریف اس طرح کر سکتے ہیں تو خان صاحب بھی کر سکتے ہیں ! تو پھر خدا کے بندو! یہ تو مانو کہ شہباز شریف اور عمران خان‘ ہر پہلو سے نہیں تو کم از کم اس پہلو سے برابر ہیں اور ہر لحاظ سے نہیں تو اس لحاظ سے ایک جیسے ہیں! ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان نے اپنی بقا کے لیے ( بقول اس کے ) ڈاکو کو ساتھ ملا لیا تو یہ اس کا حق ہے! بالکل درست! سو فیصد بجا! تو تمام سیاستدان اپنی بقا ہی کیلئے ڈاکوئوں کو ساتھ ملاتے ہیں!تو پھر فرق کیا ہوا! تو تبدیلی کہاں آئی؟ مگر سوال پوچھے تو پوچھے کون؟