دولت مند جو مفلس ہیں!!

چھ فٹ طویل چوہدری صاحب نے چھوٹی سی‘ سیکنڈ ہینڈ‘ آلٹو کار سے نکلنا شروع کیا تو کافی دیر تک نکلتے رہے۔ہمارے مرحوم دوست میاں صلا ح الدین بہت بذلہ سنج تھے۔ کہنے لگے‘ چوہدری صاحب ! اب تو ایسی گاڑی لے لیجیے جو آپ کی قامت کا ساتھ دے سکے! تاہم چوہدری صاحب اپنے سارے تن و توش کے ساتھ اسی زنگ آلود کھٹارے سے نباہتے رہے۔ پھر کچھ عرصہ ایک ہسپتال میں ٹھکانہ کیا۔ وہیں پیغامِ اجل آیا۔ تدفین کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ان کے بیٹے بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں میں دکھائی دینے لگے! انہوں نے پرانے شہر والا '' مکان‘‘بیچ ڈالا اور شہر کی جدید آبادیوں میں ہر ایک نے اپنے لیے ایک کشادہ بنگلہ خرید لیا! پھر کوئی عمرے پر چلا گیا اور کوئی سیر کے لیے یورپ۔
اپنے ارد گرد دیکھیے! آپ میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی کردار چوہدری صاحب جیسا مل جائے گا۔ یہ لوگ ساری زندگی پیسہ جمع کرتے ہیں۔ جوڑ جوڑ جوڑ کر‘ سینت سینت کر‘ گِن گِن کر‘ عمر بسر کر دیتے ہیں۔یہ قسطیں دے دے کر پلاٹ خریدتے ہیں۔ پہلے ایک‘ پھر دوسرا پھر تیسرا اور ہو سکے تو چوتھا‘ پانچواں‘ چھٹا اور ساتواں بھی! یہ ہوتے امیر ہیں مگر زندگی مفلسوں جیسی گزارتے ہیں! قدرت ان سے کسی بات پر ناخوش ہو تی ہے اور پھر انہیں سزا یہ دیتی ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی تہی دست رہتے ہیں! استطاعت رکھنے کے باوجود گاڑی نہیں خریدیں گے اور خریدیں گے تو پھٹیچر! تنگ و تاریک چھوٹے سے مکان میں بیوی بچوں کا دم گھٹتا رہے گا مگر یہ انہیں اسی میں رکھیں گے !بینک بیلنس موٹا تازہ ہو گا۔ پلاٹ کئی ہوں گے۔ کوئی سمجھائے گا کہ ان وسائل پر سانپ بن کر بیٹھنے کے بجائے انہیں اپنی ذات پر اور بیوی پر خرچ کرو۔ ڈھنگ کی گاڑی لے لو۔ بیوی کی سہولت کے لیے‘ اور اپنے آرام کے لیے‘ ڈرائیور رکھ لو‘ ایک ہوادار‘ جدید نسل کا‘ مکان خرید لو اور اپنی زندگی آرام سے گزارو۔ ایسے لوگ عام طور پر جواب یہ دیں گے کہ بینک بیلنس اور متعدد پلاٹ بچوں کے لیے رکھے ہوئے ہیں کہ کل ان کے کام آ ئیں گے! مگر یہ دلیل مضحکہ خیز حد تک کھوکھلی ہے۔ اپنے لیے اچھا مکان لیں گے تو وہ بھی تو کل بچوں ہی کے کام آئے گا۔ اصل میں ایسے لوگوں کی طینت میں بخل اور کنجوسی بھری ہوتی ہے۔ پیسہ خرچ کرنے سے ان کا دل کمزور ہو تا ہے۔ خفقان ہونے لگتا ہے۔ ہر سہ ماہی کے بعد بینک سٹیٹمنٹ دیکھ کر ان کے بیمار دل کو مسرت ہوتی ہے۔ پلاٹوں کی رجسٹری کے کاغذات دیکھ کر‘ انہیں ہاتھ لگا کر‘ ان کی روح سرشار ہو جاتی ہے۔ ان کاغذات کو صندوق میں رکھ کر‘ صندوق کو مقفل کر کے‘ اسے گھر کے محفوظ ترین کونے میں رکھنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا تسخیر کر لی! اسی کو وہ کامیابی کی معراج سمجھتے ہیں۔ ایسے افراد کے بیوی بچے‘ بعض اوقات‘ مجبور ہو کر‘ ان کے مرنے کی تمنائیں اور دعائیں کر نے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ لوگ عسرت میں مر جاتے ہیں۔ پھر کچھ کے وارث باہم جھگڑتے ہیں اور کچھ کے عیش کرتے ہیں !!
بزرگوں سے جو دعائیں منقول ہیں ان میں ایک دعا یہ بھی ہے۔ اَللّٰھْمَّ اجعَل اَوسَعَ رِزقِکَ عَلَیَّ عِندَ کِبَرٍ سِنِّی وَانقِطَاعِ عْمْرِی۔ اے اللہ ! میرا رزق کشادہ کر دیجیے میرے بڑھاپے میں اور میری عمر کے ختم ہونے کے وقت! اس دعا کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان حسبِ استطاعت اپنی عمر کا آخری حصہ آرام و اطمینان سے گزارے اور اگر وسائل موجود ہیں تو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے ان وسائل کو اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر خرچ کرے! احتیاج اور انحصار دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک مالی‘ دوسرا جسمانی! دونوں سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔ دونوں عبرتناک ہیں! مالی احتیاج اور انحصار عزت نفس پر حملہ کرتا ہے اور انسان کی خودی کو معرضِ خطر میں ڈالتا ہے۔ جو وسائل انسان اپنے اوپر خرچ کرنے کے بجائے ورثا کے لیے چھوڑتا ہے وہی ورثا اس کی کنجوسی پر اس کی تذلیل کرتے ہیں! جہاں تک جسمانی احتیاج اور انحصار کا تعلق ہے تو اسے بھی انسان کم کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک کلپ کبھی کبھی گردش کرتا ہے۔ اس میں دو بوڑھے دکھائے جاتے ہیں۔ ایک ورزش کرتا ہے۔ باقاعدگی سے سیر کرتا ہے۔ وہ اچھا لباس پہن کر باہر جاتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا جو سست ہے اور اپنے اعضائے جسم کو‘ ورزش اور سیر کے ذریعے چست نہیں رکھتا‘ وہ بیمار دکھایا جاتا ہے اس حال میں کہ وینٹی لیٹر پر ہے اور کھانا اس کے منہ میں دوسرے ڈالتے ہیں۔ رہی موت تو اس سے مفر نہیں! ورزش اور سیر کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس سے وقت مقررہ پر موت نہیں آئے گی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جتنی زندگی لکھی ہوئی ہے‘ اس میں دوسروں پر انحصار اور احتیاج کم سے کم ہو گا !
آج سے تقریباً بیس سال پیشتر وفاقی دار الحکومت میں ایک مکان دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ مکان ایک اعلیٰ اور پوش سیکٹر میں تھا۔ مکان کیا تھا‘ گویا ایک قلعہ تھا۔اس میں گلیاں تھیں جو بھول بھلیاں تھیں۔خوابگاہیں اور حمام ایسے تھے کہ دیکھنے والے کو دنگ کر تے تھے۔پوچھا یہ مکان کس کا ہے ؟ اس کا ڈیزائن بتاتا ہے کہ یہ خوابوں اور آرزؤوں کے ساتھ بنوایا گیا۔مگر اب وہ اسے فروخت کیوں کرنا چاہتا ہے؟ بتانے والے نے بتایا کہ مملکت پاکستان کا ایک بہت بڑا‘ عالی قدر‘ منصب دار ہے جس کا یہ مکان ہے۔ ( یہ سطور لکھنے والا اس کا نام بتانا مناسب نہیں سمجھتا۔ اب وہ حیات بھی نہیں )۔ اس کی اولاد میں صرف دو فرزند ہیں۔ مکان اس نے انہی دو فرزندان ِارجمند کے لیے بنوایا اور سارا مکان اپنی نگرانی میں‘ بلکہ موجودگی میں تعمیر کرایا۔ اس کے لیے اس نے بڑھاپے کے آرام کو تج دیا! جب بن چکا تو اس نے دونوں بیٹوں کو اس میں رہنے کے لیے کہامگر دونوں نے معذرت کر دی۔ایک ملک سے باہر تھا۔وہ باہر ہی رہنا چاہتا تھا۔ دوسرا کراچی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔مکان بنوانے والے کا خواب ریزہ ریزہ ہو گیا۔اس نے فروخت کرنے کے لیے اسے پراپرٹی ڈیلر کے سپرد کر دیا۔ یہ کہانی پاکستان کے اکثر افراد کی کہانی ہے۔ مجھ سمیت ہر شخص یہ فرض کرتا ہے کہ اس کی اولاد اس کے بنائے ہوئے مکان میں اس کے ساتھ رہے گی چنانچہ وہ زندگی بھر کی کمائی ایک ایسے مکان کی تعمیر پر لگا دیتا ہے جس میں ہر بچے کا الگ کمرہ ہو۔ اور بچے اس میں رہ رہے ہیں نہ کبھی رہیں گے! سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے مکان ہیں جن میں صرف میاں بیوی گارڈ بن کر رہ رہے ہیں۔ بقول شاعر
خالی مکاں میں کوئی نہ لَوٹا تمام عمر
دو پہریدار روتے رہے‘ جاگتے رہے
اس ساری صورت حال کو Empty nest syndromeبھی کہا جانے لگا ہے۔ عمر بھر کی کمائی کو پتھروں‘ اینٹوں‘ ٹائلوں‘ سیمنٹ اور لوہے پر لگانے کے بجائے کاش یہ بوڑھے جوڑے اپنی ذات پر اپنے آرام پر اور اپنی سیر و تفریح پر لگاتے!
اپنی کمائیاں‘ اپنے پلاٹ اور اپنے وسائل پسماندگان کے لیے نہ چھوڑو! اپنے بڑھاپے کو آرام سے گزارو۔کوئی ایسا فلاحی کام ہی کر جاؤ جو آنے والی زندگی میں تمہارے آرام کا سبب بن سکے۔ تمہارے بعد تمہاری دولت سے گاڑیاں اور جائدادیں خریدنے والے کون جانے تمہارے لیے دعا بھی کریں گے یا نہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں