تحریک انصاف کے ساتھیوں کی خدمت میں دردمندانہ درخواست

ایک فیکٹری لگانا تھی۔حکام نے دو صنعتکاروں کو دعوت دی کہ پریزنٹیشن( presentation )دیں۔ جس کے پروگرام نے زیادہ متاثر کیا اسے فیکٹری لگانے کے لیے کہا جائے گا۔ ہمارا دوست ارشد بھی فیکٹری لگانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا صنعت کار امجد تھا۔ دونوں میں پرانی معاصرانہ چشمک تھی۔ایک دوسرے کے حریف تھے۔ میری ہمدردیاں ارشد کے ساتھ تھیں۔ مگر حکام نے اس کی پریزنٹیشن رد کر دی۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ اس نے سارا وقت اس بات پر لگا دیا کہ امجد ایک بُرا اور نالائق صنعتکار ہے۔ ٹیکس چوری کرتا ہے۔ مزدوروں کا استحصال کرتا ہے۔ دو تین بار وہاں موجود حکام نے اسے ٹوکا کہ آپ اپنا پلان بتائیے کہ آپ کی کن خوبیوں کی بنا پر یہ منصوبہ آپ کے سپرد کیا جائے۔ وہ اپنے بارے میں ایک آدھ بات کرنے کے بعد پھر امجد کی برائیاں شروع کر دیتا۔ اس کی ساری پریزنٹیشن کا لبِ لباب یہ تھا کہ امجد ایک ناکام صنعتکار ہے اس لیے اسے یہ کام نہ دیا جائے۔ حکام نے ارشد کے بیان کو فضول قرار دے کر اس سے معذرت کر لی!
ٹھیک یہی غلطی تحریک انصاف کے وابستگان کرتے رہے۔ انہوں نے اپنا محاسبہ نہ کیا۔ اپنے لیڈر سے کوئی سوال نہ پوچھا۔ ہر وقت شریف خاندان اور زرداری خاندان کی برائیاں کرتے رہے! خود ان پر جو تنقید ہو رہی تھی اس کا جواب دینے کے بجائے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے پیچھے پڑے رہے۔ اپنی پوزیشن کبھی کلیئر نہ کی۔آپ ابلہی اور نادانی کی انتہا ملاحظہ کیجیے کہ جو افراد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف آئے ہیں‘ ان پارٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں اور انہیں ووٹ نہیں دیتے‘ وہ جب پورے خلوص سے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہیں تو انہیں بھی جواب میں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی برائیاں بتائی جاتی ہیں ! یہ تو وہی بات ہوئی کہ پاپائے روم کو عیسائیت کے فضائل بتائے جائیں! دوسرا گڑھا جو تحریک انصاف نے اپنے لیے کھو دا وہ سوال نہ پوچھنے کا رویہ تھا! وہ اپنے لیڈر سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کابینہ کی خاموشی اور بُز دلی تھی۔ جب وزیر اعظم عمران خان نے بند لفافہ لہرا کر حکم دیا کہ اس لفافے میں جو کچھ بند ہے اس کی منظوری دو۔ صرف ڈاکٹر شیریں مزاری نے ہمت کی اور کہا کہ پڑھے بغیر کیسے منظور کریں؟ اس پر وزیر اعظم نے انہیں‘ مبینہ طور پر‘ جھڑک دیا۔پھر وہ بھی خاموش ہو گئیں! اندازہ لگائیے! پوری کیبنٹ نے بُز اخفش بن کر سر ہلا دیا اور گاؤدی ثابت ہوئی!!
چار دن پہلے عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ساری قوم سمجھے کہ میں سیاست میں کیوں آیا۔میری سیاست میں آنے کی بڑی وجہ برطانیہ میں قانون کی حکمرانی تھی! یہ ایک ایسا عجیب و غریب بیان ہے کہ پڑھ کر اور سُن کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے! پہلے تو اسی پر غور فرمائیے کہ وہ چاہتے ہیں قوم سمجھے۔ اگر قوم چاہے کہ وہ بھی کچھ سمجھیں تو اس بات کو وہ پسند نہیں فرماتے نہ اس کا کوئی امکان ہے۔جس اعتماد اور معصومیت سے وہ برطانیہ کی قانون پسندی کا ذکر کر رہے ہیں اس سے دو ہی نتائج نکل سکتے ہیں۔ یا تو ان کا حافظہ جواب دے چکا ہے اور انہیں قانون کے وہ پرخچے بالکل یاد نہیں جو ان کی ناک کے عین نیچے قانون کے اڑائے جاتے رہے۔ یا وہ جن لوگوں سے مخاطب ہیں انہیں احمق سمجھتے ہیں!
تحریک انصاف کے وابستگان سراپا اخلاص ہیں۔ محب وطن ہیں! ( اگرچہ کسی پاکستانی کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں! ) وہ دل و جان سے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو اور ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نظر آئے۔ یہی وہ خواب ہے جو انہیں دکھایا گیا! اسی دھُن میں وہ اب تک خان صاحب سے امید باندھے ہیں۔ وفورِ عقیدت میں وہ اس بات پر توجہ نہیں دے رہے کہ اپنے دورِ حکومت میں خان صاحب نے قانون کے ساتھ کیا کچھ کیا۔ تحریک انصاف کے وابستگان سے دردمندانہ درخواست ہے کہ عقیدت سے قطع نظر‘ خان صاحب سے پوچھیے کہ کیا ان کے عہدِ ہمایونی میں ان کا آئیڈیل قانون کی وہی حکمرانی تھی جو برطانیہ کا خاصہ ہے؟ حکومت شروع ہونے سے پہلے ہی انہوں نے جہاز پر سوار ہوتے وقت زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکلوا دیا تھا۔ یہ کام گھنٹوں میں نہیں‘ منٹوں میں ہوا تھا! کیا برطانیہ میں ایسا ہونا ممکن تھا؟ خان صاحب نے اپنے دوستوں کو بڑے بڑے مناصب دیے۔ وہ منتخب بھی نہ تھے۔
مثال کے طور پر ایک صاحب کو‘ جو مبینہ طور پر سعودی عرب سے منگوائے گئے‘ ایک بہت بڑی کارپوریشن کا سر براہ مقرر کیا! یہ صرف ایک مثال ہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا برطانیہ میں کوئی گجر‘ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بیٹھ کر پولیس کے اعلیٰ افسر کی جواب طلبی کر سکتا ہے؟ خان صاحب کو ان کے بہت سے ساتھیوں نے بتایا کہ پنجاب میں تعیناتیاں اور تبادلے فروخت ہو رہے ہیں۔ خان صاحب نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ کیا برطانیہ میں ایسا ہی ہوتا ہے! خان صاحب نے فرح خان کی صفائی بھی پیش کی۔ اسے ڈیفنڈ کیا۔ کیا برطانیہ کا وزیر اعظم کسی ایسے فرد کی صفائی پیش کر سکتا ہے جو ملک سے فرار ہو گیا ہو؟ خان صاحب سے ان کے دلزدگان یہ بھی پوچھیں کہ انہیں برطانیہ سے آئے ہوئے چالیس ارب‘ پراپرٹی ٹائیکون کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ آج وہ کہتے ہیں کہ رقم ہے تو پاکستان ہی میں ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناروا طریقے سے حاصل شدہ رقم اگر ملک کے اندر ہو تو جائز ہے؟ کیا یہ برطانیہ کی پیروی ہے ؟ پھر اسی ٹائیکون سے وہ سینکڑوں کنال زمین مفت حاصل کرتے ہیں۔ اور ٹرسٹ میں صرف ان کا اور ان کی اہلیہ کا نام لکھایا جاتا ہے! کیا یہ سب کچھ برطانیہ میں ممکن تھا ؟ کیا برطانیہ کی سینکڑوں سال کی جمہوری تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش آیا جس میں وقت کا وزیر اعظم کابینہ سے ایک بند لفافے کی منظوری‘ بزور‘ لیتا ہو؟ اس کالم نگار سمیت بہت سے لوگ زرداریوں اور شریفوں کے اس لیے مخالف ہوئے کہ ان کی دولت ملک سے باہر پڑی ہے۔ اسی لیے ہم لوگ خان صاحب کی طرف آئے اور زندگی میں پہلی بار ووٹ دیا اور خان صاحب کو دیا! خان صاحب نے گزشتہ ہفتے بھی کہا کہ پی ڈی ایم کا پیسہ ملک سے باہر ہے۔ کیا ان کے پرستار ان سے پوچھیں گے کہ کیا پرویز الٰہی صاحب اور ان کے فرزند کا پیسہ ملک سے باہر نہیں ہے؟ دو ''ڈاکوؤں‘‘سے آپ ہاتھ تک نہیں ملاتے مگر تیسرے کو‘ جسے آپ نے'' ڈاکو‘‘ کہا‘ اپنی پارٹی کا صدر بنا یا ہوا ہے! آخر کیوں ؟
اس تحریر کے جواب میں زرداریوں اور شریفوں کی برائیاں کرنا کارِ لاحاصل ہو گا۔ ان سے تو ہم‘ اور ہمارے بے شمار ساتھی‘ کٹ کر خان صاحب کی پناہ میں آئے تھے۔ ہم آئندہ انتخابات میں بھی انہیں ووٹ نہیں دیں گے! ہم اب بھی ووٹ خان صاحب کو دینا چاہتے ہیں مگر ان سے کوئی ان سوالوں کے جوابات تو لے دے تا کہ ووٹ ڈالنے سے پہلے ہمارا ضمیر مطمئن ہو جائے۔ کیا عجب خان صاحب ان قانون شکنیوں اور دھاندلیوں کا اعتراف کر کے قوم سے معذرت کر لیں اور ہماری مشکل آسان ہو جائے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں