یہ لوگ آخر سوالوں کے جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے منہ میں گھنگھنیاں کیوں بھری ہوئی ہیں؟یہ جو نام نہاد پارٹی استحکام پاکستان کے نام سے قائم ہوئی ہے‘ اس کے ارکان منہ کیوں چھپاتے پھر رہے ہیں؟ یہ تو ہر روز میڈیا پر آتے تھے! ان کی زبانیں رکنے کا نام نہیں لیتی تھیں! یہ پگڑیاں اچھالتے تھے۔ لباسوں کو تار تار کرتے تھے۔ کون سا الزام ہے جو حریفوں پر ان حضرات نے نہیں لگایا۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ افسوسناک رویہ برتا گیا۔ سوشل میڈیا ان حضرات کے ہاتھ میں ایک شمشیر بے نیام تھی جو بے دریغ چلائی گئی۔ دروغ گوئی کی گویا فیکٹریاں کھول دی گئیں جو رات دن‘ صبح شام‘ چوبیس گھنٹے ''پیداوار‘‘ پر مامور تھیں۔ خاص طور پر تین چار اصحاب ایسے تھے کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ سُن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ ایک خاتون ترجمان نے ایک منتخب نمائندے کو ٹی وی ٹاک شو کے دوران تھپڑ تک رسید کر دیا۔ دشنام طرازی کرنیوالے دربار میں بلند مقام پاتے تھے۔ جو جتنی ناقابلِ بیان صلواتیں سنانے کی اہلیت رکھتا‘ اتنا ہی زیادہ قربِ شاہی حاصل کرتا۔ ایسے میں‘ زبان کی ''مٹھاس‘‘ سے بچنے کیلئے شرفا کونوں کھدروں میں چھپ گئے۔ بہت سوں نے اس فتنے سے اعراض برتنے کیلئے گوشہ نشینی کر لی۔ حیرت ہے کہ گفتار میں کشتوں کے پشتے لگانے والے یہ سورما اب مُہر بہ لب بیٹھے ہیں ! ان میں سے کچھ نے چند دن پہلے ہی کہا تھا کہ سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔ کچھ نے کہا تھا کہ بریک لینا چاہتے ہیں! کچھ کو خاندانی فرائض یاد آ گئے تھے۔ کچھ اپنی صحت پر توجہ دینا چاہتے تھے۔ ان لوگوں پر لازم ہے کہ پریس کانفرنس کریں اور کچھ اہم سوالوں کے جواب دیں مثلاً سیاست سے کنارہ کش ہونے کے چند دن بعد ہی ایسی کیا مجبوری آن پڑی کہ نئی سیاسی جماعت میں شامل ہو گئے ؟ جب دھاندلی کے ریکارڈ توڑے جا رہے تھے اس وقت یہ مجاہد خاموش کیوں رہے؟ وہ یہ بھی بتائیں کہ پانچ سال پہلے جہازوں میں بھر بھر کر لوگوں کو کیوں لا رہے تھے۔ اب ان سب کو دوبارہ کہاں لیے جا رہے ہیں!
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی
قابلِ رحم تو بہت مخلوقات ہیں مگر سیاسی مسافر رحم کے سب سے زیادہ مستحق ہیں! سرمد صہبائی کے شعر یاد آگئے ؎
دہلیز دلاسا ہے نہ دیوار اماں ہے
اے در بدری میرے ٹھکانے کا پتا دے
اس آس پہ ہر آئنے کو جوڑ رہا ہوں
شاید کوئی ریزہ مرے چہرے کا پتا دے
بیچارے ‘ سر پر بستر اٹھائے ‘ ہاتھ میں گٹھری پکڑے‘ کبھی یہاں کبھی وہاں! اور عجیب حسنِ اتفاق‘ یا سوئے اتفاق دیکھیے کہ ان سیاسی مسافروں میں آمریت کی تقریباً تمام باقیات شامل ہیں۔ انہی میں سے ایک صاحب‘ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران‘ اسمبلی میں کھڑے ہو کر‘ کہہ رہے تھے کہ گزشتہ حکومت نے '' ہمارے ‘‘ راستے میں بارودی سرنگیں بچھائیں! وہ یہ بھول گئے کہ وہ خود بھی گزشتہ حکومت کا حصہ رہے تھے۔ تحریک انصاف کیا تھی؟ مختلف رنگوں کے ٹکڑے جوڑ کر چادر بنائی گئی۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے وہی تھے جو ہر گزشتہ حکومت میں رہ چکے تھے۔ بچے کو بھی معلوم تھا اور اندھا بھی دیکھ رہا تھا کہ یہ گروہ تبدیلی نہیں لا سکے گا! جسٹس (ر)وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے افراد کو نکال کر عثمان بزدار اور گجر صاحب جیسے لوگوں کو اقتدار سونپ دیا گیا!ایک چور کسی کی قمیص چرا کر گھر لے گیا۔ اس کے گھر سے کوئی اور چور لے اُڑا۔ پوچھا تو اسکے بیٹے نے جواب دیا کہ جس قیمت پر ہم نے قمیص خریدی تھی ‘ اسی قیمت پر بِک گئی۔ مختلف ریلوے سٹیشنوں‘ بسوں کے اڈوں‘ ایئر پورٹوں‘اور کارواں سراؤں سے مسافروں کو اکٹھا کر کے تحریک انصاف کی حکومت بنائی گئی تھی۔ چار سالہ قیام ایک مسافر کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہجرت کی لہر دلوں میں پھر اُٹھی تو یہ خانہ بدوش ایک ایک کر کے نئی منزلوں کا رُخ کرنے لگے۔ وہ جو افتخار عارف نے کہا ہے ؎
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
تو سیاسی خانہ بدوش تو ‘ اکثر و بیشتر‘ چھوڑے ہوئے ٹھکانوں کی طرف مُڑ کر دیکھتے بھی نہیں! یہ لوگ کس کس کی کابینہ میں نہیں رہے! کس کس کی تعریف نہیں کی! کبھی نواز شریف کے گُن گائے۔ کبھی پیپلز پارٹی کا پرچم اٹھایا۔ کبھی پرویز مشرف کو دس بار وردی میں الیکشن جتوایا! کبھی عمران خان کے ساتھ ہم آواز ہو کر حریفوں کو چور ڈاکو کہا! برق رفتاری سے ٹھکانے بدلنے والے یہ حضرات تو اُن درختوں سے بھی آگے بڑھ گئے جن کے بارے میں عباس تابش نے کہا ہے ؎
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلنے لگتے ہیں
اصل سوال اور ہے۔ کیا عوام ان سیماب صفت موقع پرستوں کی عزت کر سکتے ہیں؟ معاشرے میں منافقت زوروں پر ہے۔ سامنے جھُک کر سلام کیا جاتا ہے۔ پیٹھ پیچھے کچھ اور کہا جاتا ہے۔ دل سے ‘ بہر طور‘ ان حضرات کی عزت کوئی کیسے کر سکتا ہے۔ سیاسی مسافرت کیلئے احسان فراموشی بھی لازم ہے۔ غور کیجیے۔ پرویز مشرف مرحوم کتنا طویل عرصہ‘ دبئی میں‘ بستر علالت پر رہے۔ دبئی کون سا دور ہے۔ میچ دیکھنے وہاں یہ لوگ اس طرح جاتے ہیں جیسے کوئی لاہور سے شیخوپورہ یاقصور جائے۔ مگر مشرف مرحوم کی عیادت کو کتنے افراد گئے؟ خاص طور پر وہ جن پر ان کے احسانات تھے! ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے اپنے مقدر کی جنگ لڑ رہا تھا‘ رات کے اندھیرے میں اس کے کچھ ساتھی‘ مخالف کیمپ میں جا کر ‘ شیر شاہ سوری کے ہاتھ اپنی وفاداریاں فروخت کر آئے تھے۔ تو کیا ابن الوقتی بر صغیر کے مسلمانوں کے خون میں رچی ہے؟ ملک جیون نے جس طرح دارا شکوہ کو پکڑ کر اورنگزیب کے سپاہیوں کے حوالے کیا تھا‘ اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ علائو الدین خلجی نے اقتدار کی خاطر اپنے ہی چچا جلال الدین کو قتل کر دیا۔ انگریز سرکار آئی تو ابن الوقتی کی انتہا ہو گئی۔ آج کے کئی کھڑ پینچ اپنی اجداد کی ابن الوقتی کی کمائی ہی کھا رہے ہیں۔بڑے بڑے طُرّے انگریز حاکم کے سامنے رکوع میں اس طرح جاتے تھے جیسے حاکم نہ ہو خدا ہو۔ ٹوڈی جا گیر دار انگریز ڈپٹی کمشنر کو عید مبارک کہنے حاضر ہوتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کوٹھی سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ یہ سب‘ اچکنوں میں ملبوس‘طُرّے لہراتے ‘ کوٹھی کے لان میں انتظار کر تے تھے۔ کافی دیر کے بعد چپڑاسی آکر بتاتا تھا کہ ''صاحب نے 'عید مبارک‘ قبول کر لی ہے‘‘۔یہ سنتے ہی سب چہروں پر رونق آجاتی تھی۔ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر‘ ایک دوسرے کو ہی عید مبارک کہتے تھے۔
آج بھی انہی کے پڑپوتے‘ لکڑ پوتے ہر حکومت میں شامل ہو کر ابن الوقتی کی آبائی روایت پر باقاعدگی کے ساتھ عمل کر رہے ہیں۔ جنرل ضیا کی مجلسِ شوریٰ کے ارکان کی فہرست ڈھونڈیے اور ڈانڈے آج کے پیش منظر سے ملا کر دیکھ لیجیے۔ یہ جو‘ تحریکِ انصاف بنی تھی‘ اور یہ جو نئی پارٹی بنی ہے‘ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں! تحریک انصاف کی حکومت شروع ہونے کے دو ماہ بعد ہی سب جان چکے تھے کہ تبدیلی کا دعویٰ بزداروں گجروں اور چودھریوں کی نذر ہو چکا ہے مگر یہ دربار میں دست بستہ کھڑے رہے اور انتظار کرتے رہے کہ نئی پارٹی کب بنے گی۔ نئی پارٹیاں بنتی رہیں گی۔ مہاجر پرندے نقل مکانی کرتے رہیں گے! خانہ بدوش ‘ خیمے خچروں پر لادے‘ مناسب چراگاہوں کی تلاش میں سفر جاری رکھیں گے !!