صبح چھ بجے سیالکوٹ سے چلے تو حد درجہ اطمینان تھا کہ صحیح وقت پرنکلے ہیں‘ شاہراہوں پر ٹریفک کم ہے۔ اس لیے جلداسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ آٹھ یا شاید ساڑھے آٹھ تھے جب ہم سرائے عالمگیر پہنچے۔ارادہ تھا کہ جہلم کے چائے خانہ میں ناشتہ کریں گے! مگر آگے راستہ مسدود تھا۔ سینکڑوں ہزاروں کاریں‘ بسیں‘ ٹرک‘ ویگنیں‘ موٹر سائیکل کھڑے تھے۔معلوم ہوا کہ انتظامیہ نے کھدائیاں کر کے‘ آگے جانا ناممکن بنایا ہوا ہے تا کہ تحریک لبیک والوں کاجلوس جہلم کا دریا عبور نہ کر سکے اور اسلام آباد نہ پہنچ سکے! تحریک لبیک والے تو رُک گئے مگر ساتھ ہی دوسرے مسافر بھی ! گندم کے ساتھ گھُن بھی پِس رہا تھا۔ ان مسافروں کا کیا بنے گا؟ اس کی ذمہ دار انتظامیہ ( حکومت) نہیں تھی۔ حالانکہ حکومت کا اولین فریضہ عوام کے لیے آسانیوں کی فراہمی ہے۔ اس محصور ہجوم میں شیر خوار بچے تھے۔ بوڑھے تھے۔ مریض تھے۔عورتیں تھیں! ان کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہو گا؟ ادویات کا کیا انتظام ہو گا؟ بچوں کا دودھ کون لائے گا؟ بیت الخلا کہاں سے آئیں گے؟ جوعورتیں ماں بننے والی تھیں اور ہسپتال جا رہی تھیں ان کا کیا بنے گا؟ حکومت کو ان میں سے کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ اس کانصب العین ایک ہی تھا۔ صرف ون پوائنٹ ایجنڈا! کہ احتجاجی قافلہ آگے نہ بڑھ سکے۔ خلقت مرتی ہے تو مرے!
ہم پریشان پھر رہے تھے۔ وہ جو اطمینان تھا کہ سیالکوٹ سے مناسب وقت پر نکلے یہاں تک کہ آٹھ بجے سرائے عالمگیر پہنچ گئے‘وہ اطمینان کافور ہو چکا تھا۔پنجاب پولیس کے تین جوان نظر آئے۔ انہیں بلایا۔ ہماری گاڑی کی طرف خراماں خراماں‘ مٹکتے‘ ٹہلتے ہوئے آئے۔پوچھا تو ہنس کر کہنے لگے: جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس چلے جائیے! میں نے پوچھا کہ تم کس مرض کی دوا ہو۔ اس پران میں سے ایک نے انتہائی اذیت رساں ( sadist )لہجے میں کہا کہ '' ہمارا کام عوام کو تکلیف پہنچانا ہے‘‘۔ خیال آیا کہ اس کی تصویر کھینچ لوں! پھر سوچا تصویر کھینچنے سے کیا ہو گا؟ اسے تنبیہ کریں گے یا کوئی چھوٹی موٹی سزا دے دیں گے! مگر جن سینئرز نے ان سپاہیوں کو یہ تربیت دی‘ انہیں کیا سزاملے گی اور کون سزا دے گا ؟
موٹر وے پولیس کی ایک گاڑی دکھائی دی! اس میں دو وردی پوش بیٹھے تھے۔ گاڑی کو روکا۔ موٹر وے پولیس کا ایک افسر گاڑی سے اتر کر ہمارے پاس آیا۔ وہ ایک خوش اخلاق شخص تھا۔ اس سے پوچھا کہ ہم کیا کریں؟ اس نے دو متبادل راستے بتائے۔ پہلا یہ کہ ہم واپس کھاریاں جائیں۔ وہاں سے ڈِنگہ کا رخ کریں! اس کے بعد موٹر وے کی طرف بڑھیں! مگر اس کا مشورہ تھا کہ دوسرا راستہ اختیار کریں! چنانچہ اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق ہم سرائے عالمگیر سے پلٹ کر کھاریاں آئے۔ یہاں ایک چوک تھا جس کے دو نام تھے۔مدثر چوک اور بسم اللہ چوک!یہاں سے ہم بائیں طرف مڑے اورآزاد کشمیر کا رُخ کیا۔ ایک ڈھابے پر رکے اور ڈھابے والے سے پوچھا کہ کیا چائے اور پراٹھا مل سکتا ہے؟ وہ شاید قرون اولیٰ سے کوئی بچا کھچا مسلمان تھا‘ کہنے لگا: یہاں مکھیاں بہت ہیں‘ ذرا آگے آپ کو بہتر ریستوران مل جائے گا۔ وہ جو بہتر ریستوران تھا اس میں دو بچے کام کر رہے تھے۔ایک پندرہ سولہ سال کا دوسرا دس بارہ سال کا۔ ہم نے ہر بے خبر پاکستانی کی طرح پوچھا کہ یہ بچے سکول کیوں نہیں جا رہے‘ یہ جانے یا سوچے بغیر کہ کن حالات نے بچوں کو یہاں آنے اور کام کرنے پر مجبور کیا!
پھر ہم بھمبر پہنچے۔ مغل تاریخ‘ جو ذہن میں تھی‘ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی! تو یہ تھا بھمبر! مغل بادشاہوں کے زمانے میں جسے بھاگ لگے ہوئے تھے۔اس قصبے کو بابِ کشمیر کہا جاتا تھا یعنی کشمیر کا دروازہ! مغل گرمیاں گزارنے کشمیر جاتے۔ دہلی ( یاآگرہ) سے لاہور اور لاہور سے بھمبر! بھمبر پہنچ کر گھوڑوں‘ ہاتھیوں‘ اونٹوں اور بیل گاڑیوں کا کردار ختم ہو جاتا تھا۔ اس سے آگے قُلی سامان اٹھاتے تھے۔ ڈاکٹر برنیئر نے‘ جو شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے ساتھ رہا‘ لکھا ہے کہ چھ ہزار قلی صرف بادشاہ کا سازوسامان اٹھانے اور لیجانے پر مامور تھے۔ بھمبر کو ایک بادشاہ کی مرگ دیکھنے کا بھی موقع ملا۔جہانگیر جس کی محبت شراب‘ افیون‘ گوشت اور نورجہاں کے گرد طواف کرتی تھی‘ بیمار پڑا اور بیماری کو کم کرنے کے لیے کشمیر آیا۔ مگر جب مقررہ وقت آجائے تو کشمیر کیا‘ آسمان کو چھونے والے پہاڑ بھی کام نہیں آتے۔طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ اسے دمہ کا مرض تھا۔ کشمیرکی آب و ہوا کا دمہ پر کچھ اثر نہ ہوا۔اس نے افیون تک چھوڑ دی جس سے اس کی رفاقت چالیس سالہ تھی۔ واپس لاہور کا رُخ کیا۔بھمبر سے ذرا پہلے اسے شکار کی شدید خواہش ہوئی۔ وہ ایک پہاڑ کی ڈھلان پر بیٹھا۔ ڈھول بجانے والے جانور ہانک کر لائے۔ اس نے ایک ہرن پر فائر کیا۔ ہرن زخمی ہو کر بھاگا۔ایک پیادہ سپاہی ہرن کے پیچھے بھاگا اور جہانگیر کی آنکھوں کے سامنے پہاڑی سے پھسل کر نیچے کھائی میں جا گرا۔جہانگیر نے سپاہی کی موت میں اپنی موت دیکھ لی۔ اس واقعہ کے بعد اسے چین نہ آیا۔انگور کی شراب کے چند گھونٹ پینا بھی عذاب بن گیا۔بھمبر کے نواح میں پہنچا تو اٹھاون سالہ بادشاہ‘ بائیس برس حکمرانی کرنے کے بعد مرگیا۔بھمبر ہی میں اس کا جنازہ پڑھا گیا اور یہیں سے اس کی میت لاہور لے جائی گئی۔
برنیئر نے بھمبر کے بارے میں خاصی تفصیل سے لکھا ہے۔یہیں سے بادشاہ اپنے خانوادے کی خواتین اور چیدہ چیدہ امرا کے ساتھ کشمیر کو جاتا تھا۔ بھمبر سے کشمیر تک پانچ دن کا سفر تھا اور مشکل سفر تھا۔ توپخانے کا انچارج اور امرا کی کثیر تعداد‘ اپنے اپنے لشکریوں کے ساتھ بھمبر ہی میں ٹھہر جاتی تھی یہاں تک کہ چار پانچ ماہ کے بعد بادشاہ کشمیر سے واپس بھمبر پہنچ جاتا۔یہ سب لوگ بھمبر اور بھمبر کی نواحی بستیوں میں پڑاؤ ڈال لیتے۔ آگے جانے والوں کا سامان اٹھانے کے لیے تیس ہزار قلی بھرتی کیے جاتے۔ برنیئر خود بھی اورنگ زیب کے اُس مخصوص قافلے میں شامل تھا جو بھمبر سے آگے کشمیر جا رہا تھا۔
بھمبر سے ہم بائیں طرف‘ میر پور جانے والی شاہراہ پر مڑے۔ یہ سارا وقت میں یہی سوچتا رہا کہ جب بادشاہ کشمیر کی طرف جارہے ہوتے تو ان بستیوں پر کیا قیامت گزر تی ہوگی۔ فصلوں کا کیا حال ہوتا ہو گا۔اشیائے خورو نوش کچھ خریدی جاتی ہوں گی کچھ خراج کے طور پر چھین لی جاتی ہوں گی۔
میر پور سے ہم منگلا ہوتے ہوئے دینہ پہنچے اور جی ٹی روڈ پر آگئے۔ اندازہ لگائیے۔ کھاریاں سے بھمبر‘ میرپور اور منگلا کے راستے دینہ پہنچنے میں ہمیں تین گھنٹے سے زائدوقت لگا۔ اگر راستہ مسدود نہ ہوتا تو سرائے عالمگیر سے دینہ پہنچنے تک زیادہ سے زیادہ بیس پچیس منٹ لگ جاتے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہمارے پاس سواری تھی اور تین گھنٹے ہی سہی‘ دینہ پہنچ تو گئے۔ اُن ہزاروں لوگوں کا کیا حال ہوا ہو گا جو بسوں‘ ٹرکوں اور ویگنوں میں کئی دن رات‘ جہلم کے اُس پار محصور رہے۔ یہاں یہ بتانا لازم ہے کہ تحریک لبیک والوں کا جلوس‘ قطع نظر اس کے کہ ان کا مؤقف درست ہے یا غلط‘ پُرامن تھا اور وہ مسافروں کو گزرنے دے رہے تھے۔ راستے کی بندش کا سارا گناہ انتظامیہ کے سر ہے! اور ہاں! بہت سے قارئین کو شاید معلوم نہ ہو کہ مشہور بھارتی شاعر اور دانشور گلزار کا تعلق دینہ سے ہے!!