بابا جی کھانا کھا کر گدھے پر خربوزوں سے بھری بوریاں لادتے اور چل پڑتے۔یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا! نام اس کا عجیب و غریب تھا! علی محمد! وجہِ تسمیہ اس کی نہ جانے کیا ہے۔ یہ کالا چِٹا پہاڑ سے کچھ دور جنوب کی طرف واقع ہے! کھَیری مورت پہاڑ کے مغرب میں! دریائے سندھ یہاں سے تقریباً اسّی کلو میٹر دور ہے۔ مغرب کی طرف بالکل سیدھا چلتے جائیں تو دریائے سندھ آجاتا ہے۔ اس مقام پر دریا کو عبور کرنے کیلئے انگریز سرکار نے 1907ء میں پُل بنایا تھا۔ یہاں پنجاب کی حدود ختم ہوتی ہیں۔ دریا کے دوسری طرف خیبر پختونخوا ہے۔ جیسے ہی دریا کو پار کرتے ہیں‘ خوشحال گڑھ کا قصبہ آجاتا ہے۔ اس قصبے کے نام پر ہی اس پُل کا نام ہے۔ یہ پُل‘ یعنی خوشحال گڑھ پُل‘ ایک سو سات سال تک خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور پنجاب کو آپس میں ملاتا رہا۔ اس پر سڑک تھی اور ریلوے لائن بھی!
2014ء میں پاکستانی حکومت نے نیا پُل بنایا۔ علی محمد نامی گاؤں کا یہ باشندہ‘ یہ بابا جی‘ زمیندار تھے۔ اس علاقے میں زمیندار‘ جاگیردار یا فیوڈل کو نہیں کہتے۔ بس جو کسان مالی طور پر ذرا آسودہ ہو اسے زمیندار کہا جاتا ہے۔ یوں بھی ''زمیندار‘‘ کی اصطلاح ''سردار‘‘ کے حوالے سے وضع ہوئی۔ مغلوں کو اس خطے میں سردار کہتے ہیں۔ اعوانوں کو زمیندار!
بابا جی زمیندار تھے۔ زرعی پیداوار ان کی خاصی تھی۔ گاؤں میں صبح نو بجے کے لگ بھگ تنور سلگ اُٹھتے تھے۔ جوان دہقان زادیاں لمبے پراندوں کے ساتھ اور بوڑھی عورتیں مہندی لگے سرخ سَروں کے ساتھ روٹیاں لگاتیں۔ پھر کھانا کھا لیا جاتا۔ فرنگیوں کی زبان میں یہ ''لنچ‘‘ تھا۔ روٹیاں تنور سے نکلتیں تو عورتیں انگلیوں سے ان میں گڑھے بناتیں۔ پھر ڈھیر سا مکھن انڈیلا جاتا جو گڑھوں میں رَچ بس جاتا۔ ساتھ تازہ لسّی ہوتی! جس کسی نے یہ ''لنچ‘‘ کیا ہے‘ یا کبھی کیا تھا‘ وہ کراچی اور لاہور سے لے کر ٹوکیو اور لاس اینجلس تک‘ سیون سٹار ہوٹلوں میں گراں ترین لنچ بھی کر لے‘ بوفے یا آلا کارٹ‘ مکھن‘ تنور کی روٹی اور لسی کے اس لنچ کو نہیں بھول سکتا۔ جب بھی اس کی یاد آئے‘ دل کو کچھ ہوتا ہے۔ ٹیس یا ہُوک یا شاید درد کی ایسی قسم جس کی دوا کوئی نہیں!
بابا جی یہی لنچ کرتے۔ پھر وہ گھی لگے ہاتھوں سے مونچھوں کو تاؤ دیتے۔ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے‘ گاڑھے کے سفید تہمد کے لمبے لٹکتے کونے اڑستے‘ گدھے پر خربوزوں بھری بوری لادتے۔ خربوزوں کی بھی عجیب‘ گھٹتی بڑھتی‘ داستان ہے۔ یہ پورا علاقہ‘ تلہ گنگ سے لے کر چکوال تک اور پنڈی گھیب سے لے کر فتح جنگ تک‘ میٹھے اور اعلیٰ نسل کے خربوزوں کیلئے مشہور تھا! ساٹھ کی دہائی میں مونگ پھلی کی نقد آور فصل آگئی اور اس سارے علاقے سے خربوزوں کا صفایا ہو گیا۔ جس زمانے کی ہم بات کر رہے ہیں‘ اُس وقت مونگ پھلی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا! خربوزوں کی بہتات تھی اور یہی اس علاقے کا پھل تھا۔ یہ خربوزے آج کل کے ''شیور‘‘ کے خربوزے نہ تھے بلکہ رنگ رنگ کے ہوتے تھے اور بے حد شیریں! بابا جی گدھے پر خربوزے لاد کر‘ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت طے کرتے اور ایک اور گاؤں پہنچ جاتے جہاں ان کی اکلوتی بیٹی بیاہی تھی! وہ بیٹی کے گھر خربوزے اتارتے۔ چائے کا اُس وقت تک رواج ہی نہ پڑا تھا۔ پانی یا لسّی پیتے اور واپس علی محمد کی طرف چل پڑتے! دوسرے دن صبح پھر ان کا یہی معمول ہوتا۔ کھانا کھاتے اور خربوزے لاد کر بیٹی کے گاؤں کی طرف چل پڑتے۔ زیادہ تر سر پر کڑکتی دھوپ ہوتی۔ بادل کبھی کبھی کرم فرمائی کرتا! جب تک خربوزے رہتے‘ کم و بیش‘ یہی معمول ہوتا! یہاں تک کہ لوگوں نے انہیں کہنا شروع کر دیا ''بابا! کیا تمہی نے بیٹی بیاہی ہے؟ کسی اور نے بیٹی نہیں بیاہی؟؟‘‘۔
اس واقعہ کو‘ تقریباً‘ ایک سو سال ہو چکے۔ بابا جی‘ ہر روز سفر طے کرکے‘ اپنی جس بیٹی کیلئے خربوزے لاتے تھے‘ اُس بیٹی کے عمر رسیدہ پوتے نے ایک شہر سے دوسرے شہر‘ اپنی بیٹی کو آم بھجوائے اور اس واقعہ کی فلم چل پڑی! فلم وہی تھی۔ کردار بدل گئے تھے۔ گدھے کی جگہ ڈائیوو نے لے لی تھی۔ خربوزوں کے بجائے اب آم بھیجے جا رہے تھے۔ ہاں! یہ فرق ضرور تھا کہ خربوزے با با جی کی اپنی زمین سے تھے جبکہ ان کی بیٹی کے عمر رسیدہ پوتے نے آم کسی اور شہر کے انبہ فروش سے بُک کرا کر بھجوائے تھے! ذرائع رسل و رسائل اور ذرائع حمل و نقل بدلے تھے تاہم دو کردار وہی رہے! باپ اور بیٹی کے کر دار!!
تبدیلی کا عمل سینکڑوں ہزاروں سال سے چل رہا ہے۔ مگر یہ تبدیلی ظاہر کی تبدیلی ہے! لباس بد ل گئے! اونٹوں‘ بیلوں اور گھوڑوں کی جگہ کاروں‘ بسوں اور ہوائی جہازوں نے لے لی! تاہم انسان اندر سے وہی رہا! وہی دل! وہی فراق کا درد اور قُرب کی سرشاری! وہی آنسو! وہی آہیں! وہی ملنے کی پیاس اور بچھڑنے کا وہی درد! تمام تبدیلیوں کے باوجود دل وہیں ہے‘ سینے کے بائیں طرف! اسی طرح دھڑکتا ہے! اسی طرح ڈوبتا اور بیٹھتا ہے! اسی طرح مچلتا ہے! پہلے بیٹی باپ کے گھر سے جانے لگتی تھی تو دروازے پر گھوڑے‘ اونٹ اور کجاوے حاضر کیے جاتے تھے۔ گھوڑے پر سوار ہونے کیلئے ایک طرف لٹکتی رکاب پر بیٹی پاؤں رکھتی تھی تو باپ یا بھائی دوسری طرف لٹکتی رکاب کو پکڑ کر نیچے کی طرف زور لگاتا تھا کہ زین کا توازن بر قرار رہے۔ پھر گھوڑا روانہ ہوتا اور ساتھ ساتھ خدام اور خدمت گار! رخصت کرنیوالے گھر کے اندر چلے جاتے۔ باپ کھڑا رہتا! بیٹی کے قافلے کو‘ ٹکٹکی باندھے‘ دیکھتا رہتا یہاں تک کہ سواری نظر سے اوجھل ہو جاتی! اب بیٹی رخصت ہوتی ہے تو باپ گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے گاڑی میں بٹھاتا ہے۔ گاڑی چل پڑتی ہے۔ وہ اسے دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ گاڑی موڑ مُڑتی ہے اور آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ آنکھوں میں رنگ رنگ کے پھول کھِلنے لگتے ہیں!
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ چاند اور دوسرے سیاروں پر زمینیں الاٹ کرانے کا وقت آرہا ہے! ایسے میں کون سا لٹریچر؟ کیسی شاعری اور کہاں کا ادب! مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تمام حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین ایجادات اور دریافتوں کے بعد بھی دل کا مقام وہی ہے! سینے کے بائیں طرف! دل اسی طرح دھڑکتا ہے جیسے بادبانی جہازوں اور رینگتے قافلوں کے زمانے میں دھڑکتا تھا! کسی کا کوئی پیارا دم توڑ دے تو کیا وہ نہیں روئے گا؟ کیا وہ کہے گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی اس لیے میں اپنے پیارے کی موت پر آنسو بہاؤں گا نہ ماتم کروں گا؟ بچھڑے ہوئے مل جائیں تو کیا خوشی کا گلا گھونٹ دیا جائے گا صرف اس لیے کہ کمپیوٹر کی رفتار اور مار حیران کُن ہے؟ جب تک غم اور خوشی موجود ہیں‘ ادب تخلیق ہوتا رہے گا!
صرف کمپیوٹر اور ایجادات کا معاملہ نہیں‘ سہولیات اور تعیشات کا بھی یہی حساب ہے۔ وسیع و عریض محل میں ایک اکیلا مالک‘ ملازموں کے رحم و کرم پر‘ بیوی بچوں کی یاد میں‘ بیٹھا آنسو بہا رہا ہے اور چھوٹے سے گھر میں ایک عام شہری بیوی بچوں اور پوتوں نواسوں کے ساتھ کھیل رہا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ کتنا مراعات یافتہ ہے! جن سہولیات کو عرفِ عام میں مراعات کہا جاتا ہے‘ وہ بھی جائز ہیں اور نعمتوں میں شمار ہوتی ہیں مگر اصل مراعات اور ہیں! زندگی کا مرکز کمپیوٹر ہے نہ ٹیکنالوجی‘ محلات ہیں نہ اقتدار! زندگی کا مرکز دل ہے! دل جو سینے میں بائیں طرف‘ دھڑک رہا ہے!!